کورونا وائرس کی وبا کے بعد خاص طور سے چمگادڑوں کے لیے مشکل وقت ہے۔ اور اس پر ان کے بارے میں پہلے سے پائی جانے والی غلط فہمیاں اور تواہم۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں چمگادڑ ہونا کتنا مشکل کام ہے۔ مگر جو لوگ چمگاڈروں کے مداح ہیں اور ان پر تحقیق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارا غصہ بے جا ہے۔ ان کے نزدیک ہمیں قدرتی ماحول میں چمگاڈروں کے کردار کو سراہنا چاہیے۔
چمگادڑوں کا خیال ہی اِرورو ٹانشی کو چکرا دینے کے لیے کافی ہے۔ وہ بڑے جوشیلے انداز میں کہتی ہیں ‘یہ تو شاہکار ہیں!’
نائجریائی نژاد ٹانشی امریکہ کی ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ ہیں جو چمگادڑوں کے منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تاثر ان باتوں کے بعد اور بھی بگڑا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا میں اس جانور کا ہاتھ ہے۔
آسٹریلیا سے انڈونیشیا تک چمگادڑوں کے قتل عام اور انھیں اپنے مسکنوں سے بھگانے سے متعلق خبروں سے بقائے ماحول کے ماہرین کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سارا الزام چمگادڑوں کے سر ڈالنے سے اصل ذمہ دار ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
بعض لوگ چمگادڑوں کو کیوں الزام دیتے ہیں؟
ٹانشی کہتی ہیں کہ لوگ چمگادڑوں کو اس لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ سارس-کوو2 وائرس، جس سے کووِڈ 19 لاحق ہوتا ہے، 96 فیصد اس وائرس سے مشابہ ہے جو ہارس شو (گھُڑ نعل) چمگاڈر میں پایا گیا تھا۔
اس نے تمام چمگادڑوں کو مشکوک بنا دیا۔ مگر ان کے پاس ایک سائنسی عذر ہے۔
ٹانشی کہتی ہیں ‘حالیہ ارتقائی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 40 سے 70 برس قبل سارس-کوو2 وائرس ہارس شو چمگادڑ میں پائے جانے والے وائرس سے نکلا تھا۔ یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ چمگادڑوں نے سارس-کوو2 وائرس انسانوں کو منتقل نہیں کیا ہوگا۔‘
کینیا میں ماسائے یوینورسٹی کے ڈاکٹر پال ڈبلیو ویبالا اس بات سے متفق ہیں ‘ارتقائی اعتبار سے چمگادڑیں اور انسان ایک دوسرے سے بہت دور ہیں، اس لیے اگر سارس-کوو2 چمگادڑوں سے آیا بھی ہے تو یہ بالواسطہ طور پر یعنی کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسان کو منتقل ہوا ہو گا۔
یعنی کہ اگر اس وائرس کا آغاز چمگادڑوں ہی میں ہوا ہے تب بھی یہ براہ راست انسانوں کو منتقل نہیں ہوا ہو گا۔ اس کے بعد شبہ چیونٹی خور پینگولین پر جاتا ہے کہ یہ اس سے ہوتا ہوا انسانوں تک پہنچا ہو گا۔
تو پھر الزام کس کو دیں؟
ٹانشی اور ان کی ٹیم کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی ذمہ داری چمگادڑوں پر نہیں بلکہ انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ویبالا کہتے ہیں کہ انسانوں نے اس عالم گیر وبا کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔ ‘جنگلی جانوروں کے مسکنوں میں تجاوزات اور ان کی بربادی، جنگلی جانوروں کی نقل و حمل، تجارت اور ذخیرہ وہ عوامل ہیں جو کسی جراثیم کے ان انواع میں پھیلنے کا سبب بنتے ہیں جن میں پہلے سے کوئی باہمی رابطہ نہ رہا ہو۔’
ٹانشی کا کہنا ہے کہ ‘جانوروں میں پھیلنے والی وبا کے انسانوں کے اندر منتقلی کے کئی شواہد موجود ہیں اور یہ عمل جنگلی جانوروں کے مسکنوں کی بربادی کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔
چمگادڑوں کو ہلاک کرنے سے ہم کورونا وائرس سے نہیں بچ سکتے۔ بقائے ماحول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ان کی ہلاکت اور ان کے مسکنوں سے ان کا انخلا صورتحال کو مزید سنگین بنا دے گا۔
ڈاکٹر ویبالا کا کہنا ہے: ‘چمگادڑوں کی 14 ہزار انواع میں سے 70 فی صد اقسام پتنگے، مچھر، مکھی اور دیگر کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں۔ ان کیڑے مکوڑوں میں سے بہت سے جراثیم بردار ہوتے ہیں جو انسانی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں۔’
با الفاظ دیگر، یہ حشرات الارض ڈینگی اور ملیریا بخار جیسی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
اس لیے چمگادڑوں کی کمی ان امراض میں اضافے کا باعث ہو سکتی ہے۔
چمگادڑوں سے انسان کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
ڈاکٹر ویبالا کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ سوتی کپڑے پہنتے ہیں، چائے یا کافی پیتے ہیں یا پھر مکئی سے بنی خوراک کھاتے ہیں تو چمگادڑوں سے آپ کا واسطہ ہے۔’
ماحولیاتی نظام میں چمگادڑ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک پھول سے دوسرے پھول تک زرگل پہنچا کر انھیں بار آور کرنے، بیجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک منتشر کرنے اور مضر حشرات کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ کھانے سے کاسمیٹکس تک اور فرنیچر سے ادویات تک کی تیاری میں چمگادڑ اپنے حصے کا کام کرتی ہیں۔
بغیر چمگادڑوں کے انڈونیشیا میں ڈورین پھل کی فصل ممکن نہ ہوتی، مڈاگاسکر اپنی پہچان بننے والے بیوباب اور میکیڈیمیا کے درختوں سے محروم ہو جاتا۔
ڈاکٹر ویبالا کے مطابق ‘پرندوں کے مقابلے میں چمگادڑ دوگنی تعداد میں بیچ منشتر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پودوں میں جینیاتی روانی رہتی ہے اور استوائی علاقوں میں جنگلات کی بحالی میں مدد ملتی ہے۔’
ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں چمگادڑ کاشتکاروں کو کیڑے مار مصنوعات کی مدد میں اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچاتے ہیں۔
چمگادڑوں میں اور کیا خاص ہے؟
ٹانشی کہتی ہیں ‘چمگادڑ حیرت انگیز طور پر کامیاب جانور ہے۔ یہ سوائے اینٹارکٹیکا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے۔ ایک محقق کی حیثیت سے میں غاروں، جنگلوں، پہاڑوں اور ویرانوں میں گھومی ہوں۔’
وہ کہتی ہیں کہ ارتقائی مراحل طے کرنے اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں چمگادڑ بہت کامیاب رہے ہیں۔
‘پَر نما انگلیوں، آواز کے سہارے سفر اور تاروں کی روشنی میں کام کرتی بصارت نے اسے اس قابل بنایا کہ وہ رات کی تاریکی میں فضا پر حکمرانی کرے۔ اگر ممالیہ ہونا فن ہوتا تو چمگادڑیں شاہکار ہوتیں۔’
ڈاکٹر ویبالا اس بات سے متفق ہیں اور انھوں نے ان کی بقا کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے ہیں۔
‘حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چمگادڑوں میں زبردست مدافعتی نظام پایا جاتا ہے جو انھیں جراثیموں اور امراض سے محفوظ رکھنے میں مدد گار ہے۔
‘ان میں پھر سے ابھرنے کی یہ قوت شاید انسانوں میں مدافعتی نظام کو بہتر بنانے والی نئی وائرس کش ادویات کی دریافت میں معاون ثابت ہو۔’