گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے نہایت جذباتی اور جواں سال وزیر جناب مراد سعید صاحب ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے بہانے قومی اسمبلی میں 23منٹ لمبی تقریر کرنے کو مجبور ہوگئے تھے۔انتہائی دُکھی دل کے ساتھ انہوں نے اصرار کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے کم از کم اکیس (21)ایسی تقاریر ہوئی ہیں جن میں عمران حکومت کے پیش کردہ بجٹ پر توجہ دینے کے بجائے ان کی ذات کو نشانہ بنایا گیا۔ان کی بھد اُڑانے کو رکیک اور اخلاق سے گری گفتگو ہوئی۔ بدکلامی کا تذکرہ کرتے ہوئے مراد سعید صاحب نے طیش میں آکر یہ حقیقت بھی بارہا دہرائی کہ کسی سیاست دان یا شخص کے خلاف سوشل میڈیا پر ’’ٹرینڈ (Trend)‘‘چلانا کوئی مشکل بات نہیں۔ چٹکی بجاکر یا دلاتے رہے کہ ایسا کرنے کو فقط ’’اتنی دیر‘‘ لگتی ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی تذلیل والے رحجان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر موصوف نے متنبہ کیا کہ وہ کئی برس تک انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے متحرک ترین رہ نما رہے ہیں۔ان کی قیادت میں کام کرنے والے ’’کئی‘‘ افراد اب قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ملفوف انداز میں اپنے مخالفین کو وہ درحقیقت یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ اگر کسی کو فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے رسوا کرنے کا معاملہ آجائے تو اس ضمن میں ان کی جماعت کا کوئی ثانی نہیں۔
میری تمہید سے ہرگز یہ طے نہ کرلیجئے گا کہ میں مراد سعید صاحب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرارہا ہوں۔اتوار کی صبح مگر The Nationمیں قومی اسمبلی کی کارروائی کی بابت چھپا اپنا کالم ٹویٹر پر لگاتے ہوئے اچانک دریافت ہوا کہ بلاول بھٹو زرداری کی بھد اُڑانے والا ایک ’’ٹرینڈ‘‘ ٹویٹر پر کھڑکی توڑ رش لے رہا ہے اس ’’ٹرینڈ‘‘کا عنوان میں گھر میں پڑھے اخبار کے لئے لکھ نہیں سکتا۔ کاوش اس کے ذریعے مگر یہ ہورہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ’’بلاوجہ کا بھٹو‘‘ ثابت کیا جائے۔
پیپلز پارٹی بھی اب سوشل میڈیا پر متحرک ہوچکی ہے۔اس ٹرینڈ سے نبردآزما ہونا اس کا درد سر ہے۔بطور صحافی فقط یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مذکورہ ٹرینڈ چلانے والوں کو شاید یہ گماں ہے کہ اس کے ذریعے فراہم کیاچسکہ خلقِ خدا کو وہ اذیت بھلانے کو مائل کردے گاجو ہفتے کی شام پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 25روپے کے تاریخی اور کمرتوڑ اضافے کے ذریعے مسلط ہوئی ہے۔
اپنے چند مہربان قارئین کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔انہوں نے جمعہ کی شام پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہونے کے فوری بعد 8جون کی صبح چھپا ’’برملا‘‘ڈھونڈ نکالا۔ اس دن کاعنوان ’’پٹرول کا بحران‘‘تھا۔ اس کے آخری پیرے میں یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی تھی کہ پٹرول کاذخیرہ کرنے والے کئی ’’سٹہ باز‘‘ یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ماہ کے اختتام تک ’’عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 37سے 40ڈالر فی بیرل ہوجائے گی۔‘‘ عالمی منڈی میں جب تیل اس نرخ کو چھولے گا ’’توہماری حکومت بھی‘‘ پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔وہ یہ اعلان کردے گی تو پاکستان میں پٹرول کا ’’بحران‘‘ ختم ہوجائے گا۔
8جون کو چھپے کالم کا حوالہ میں نے خود کو بقراطِ عصر ثابت کرنے کی غرض سے نہیں دیا۔میری نظر کمزور ہے۔دور کی کوڑی دیکھ نہیں سکتی۔ہوابس اتنا تھا کہ یہ کالم لکھنے سے قبل ملک بھر سے کئی لوگوں نے ای میل،ٹیلی فون اور Whatsappکے ذریعے مجھ سے رابطے کئے تھے۔دہائی مچائی کہ پٹرول پمپوں پر پٹرول میسر نہیں۔اس ضمن میں مختلف شہروں سے پٹرول پمپوں کے باہر لگی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی طویل قطاریں دکھاتی تصاویر بھی موصول ہوئیں۔ایک رپورٹر کی جبلت کو بروئے کار لاتے ہوئے میں نے چند ’’ذرائع‘‘ سے گفتگو کی۔ان میں سے کوئی ایک شخص بھی سیاست دان نہیں تھا۔پٹرول کے دھندے سے آگاہ درمیانے درجے کے ڈیلر تھے۔ چند ایک کے ذاتی پٹرول پمپ بھی ہیں۔ان کی بدولت علم ہوا کہ تیل کی قیمت بڑھنے کا انتظار ہورہا ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں اس کا اعلان متوقع ہے۔یہ اعلان ہوگیا تو ہم ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آجائیں گے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر فرسودہ اور ’’بکائو صحافت‘‘ سے وابستہ مجھ جیسا دو ٹکے کا رپورٹر چند لوگوں سے محض فون پر گفتگو کے بعد انتہائی اعتماد سے یہ لکھ سکتا ہے کہ جون کے آخری ہفتے میں پٹرول کی قیمت میں گرانقدر اضافہ ہوجائے گا تو وزیر توانائی جناب عمر ایوب خان صاحب کس برتے پر ہمیں اس قیمت پر پٹرول فراہم کرنے کی بڑھک لگارہے تھے جو 26جون سے قبل عمران حکومت نے مقرر کررکھی تھی۔
موجودہ حکومت کے توانائی سے بھرپور وزراء اور ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج سینہ پھلاکر ہمیں یقین دلاتی رہتی ہے کہ عمران خان صاحب کی قیادت میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے اجارہ دار ’’مافیا‘‘ کو عبرت کانشان بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔پٹرول کے دھندے سے جڑے اجارہ داروں کو بھی عمر ایوب خان صاحب نے ’’مافیا‘‘ پکارا۔ اطلاع ہمیں یہ بھی دی گئی کہ چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ’’ذخیروں‘‘ پر چھاپہ مارنے کے بعد ’’چھپائے ہوئے‘‘ پٹرول کا سراغ لگایا گیا ہے۔ذخیرہ اندوزوں کو بھاری بھر کم جرمانے بھی ادا کرنا پڑے۔بالآخر جیت مگر کس کی ہوئی؟ اس سوال کا جواب اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل میں پٹرول بھرواتے ہوئے ازخود جان لیجئے گا۔
’’مافیا‘‘ کے خلاف بڑھکیں جی کو بہلانے کے لئے محض تھوڑی دیر کو کام آتی ہیں۔عمران حکومت کے بارے میں ’’سچی خبریں‘‘ بیان کرنے والے یوٹیوب پر چھائے حق گو ان بڑھکوں کی بدولت بے تحاشہ Likesاور Sharesبھی حاصل کرتے ہیں۔جی کو خوش رکھتی کہانیوں کا مگر زندگی میں اطلاق نظر نہ آئے تو سیاسی زبان میں شدید Blow Backہوتا ہے۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ آج سے چند ہفتے قبل دنیا بھر پر چھائے تیل کے اجارہ دار لوگوں کے ترلے کررہے تھے کہ ان کے پاس تیل کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔خدارا جتنا چاہیے اتنا تیل مفت اُٹھالیجئے۔ معیشت سے قطعی نابلند شخص بھی لیکن جبلی طورپر یہ محسوس کرسکتا تھا کہ یہ کیفیت عارضی ہے کیونکہ ہرروز روزِ عید نہیں ہوتا۔
پاکستان کے لوگوں کا یہ مطالبہ اس وقت کے تناظر میں برحق تھا کہ عالمی منڈی میں جو کمی واقعہ ہوئی ہے اس کا اثر ان کے ملک میں بھی نظر آئے۔ لوگوں کو ’’عوامی مطالبے‘‘ کی پذیرائی کے حوالے سے خوش کن خبر کا اعلان کرنے سے قبل حکومت کے لئے کچھ ہوم ورک بھی ضروری تھا۔ پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں گرانقدر کمی کا فیصلہ کرنے سے قبل اس امر کو یقینی بنانا بھی لازمی تھا کہ ملک میں اتنا پٹرول اور ڈیزل وافر مقدار میں موجود ہے ۔ وہ کس قیمت پر عالمی منڈی سے خریدا گیا تھا۔ قیمت میں کمی کا اعلان کرنے سے قبل مگر تیل بیچنے والی کمپنیوں کے اجارہ داروں سے ’’مشاورت‘‘ ہوئی تو وہ نہ صرف زبانی بلکہ تحریری طورپر بھی حکومت کو آگاہ کرتے رہے کہ ان کے لئے حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر پٹرول عام صارف کو فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
عالمی منڈی میں جب تیل ’’ٹکے ٹوکری‘‘ بک رہا تھا تو حکومت نے اس کی درآمد پر پابندی لگادی۔ جواز یہ تراشا کہ مندی کے دنوں میں ہوئی درآمد ہمارے ہاں موجود تیل کو پٹرول میں بدلنے والی ’’ریفائنروں‘‘ کا دیوالیہ نکال سکتی ہے۔ ان کا دھندا جاری رکھنے کے لئے مقامی کمپنیوں کے لئے لازم ٹھہرایا گیا کہ وہ فقط ان ریفائنریوں میں صاف ہوا پٹرول اٹھا کر مارکیٹ میں لائیں۔حکومت کے زیر نگرانی چلائی پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO)اس فیصلے پر عملدرآمد کو مجبور تھی۔عالمی منڈی کے اجارہ داروں سے وابستہ OMCsمگر ’’خودمختاری‘‘ دکھاتے رہے۔عمر ایوب انہیں لگام نہ ڈال سکے۔ڈال سکتے بھی نہیں تھے کیونکہ مثال کے طورپر اگر آپ Shellجیسی ملٹی نیشنل سے جڑے پاکستانیوں کو ’’تھانہ کچہری‘‘میں گھسیٹیں تو عالمی منڈی میں پیغام یہ جاتا ہے کہ پاکستان نے ’’عالمی سرمایہ کاروں‘‘ کی زندگی اجیرن بنانا شروع کردی ہے۔یہ تاثر وطنِ عزیز میں ’’غیر ملکی سرمایہ کاری‘‘ کے امکانات کو معدوم تربنادیتا ہے۔عالمی منڈی کے اجارہ داروں کے ساتھ پاکستان جیسے ملک ’’عاجزانہ‘‘ مذاکرات کے ذریعے ہی اپنے عوام کے لئے تھوڑی رعایتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’تڑیاں‘‘ یہاں کام نہیں آتیں ۔’’شوگر مافیا‘‘ کے خلاف جنگ برپا کرنے کا بھی اعلان ہوا تھا۔ اس مافیا کے سرغنہ ’’عالمی سرمایہ کار‘‘ نہیں ہیں۔ان میں سے اہم ترین کسی زمانے میں عمران خان صاحب کے قریب ترین جہانگیر ترین بھی تھے۔’’شوگرمافیا‘‘ کے خلاف ایف آئی اے کے ’’ہیروں‘‘ کی بہت محنت سے مرتب ہوئی رپورٹ دھوم دھڑکے کے ساتھ منظرِ عام پر آچکی ہے۔جہانگیر ترین اس رپورٹ میں ’’شوگرمافیا‘‘ کے حتمی کرتا دھرتا دکھائے گئے ہیں۔ موصوف مگر ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں۔اپنے وسیع وعریض فارم پر زندگی Enjoyکررہے ہیں۔ ’’مافیا‘‘ کے خلاف جنگ کے موجودہ موسم میں ایک بار پھر بنیادی طورپر لاہور کا شریف خاندان ہی مزید رگڑے کی زد میں آئے گا۔ ’’اپنے ’’مافیا‘‘ کو پکاہاتھ ڈالنے کی سکت سے محروم ہماری حکومت جب عالمی منڈی کے اجارہ داروں کو عبرت کانشان بنانے کی بڑھک لگاتی ہے تو یقین مانیں میرا پنجابی محاورے والا ’’ہاساچھوٹ ‘‘جاتا ہے۔