بلھے شاہ نے فرمایا ’الٹے ہور زمانے آئے‘۔ سراج اورنگ آبادی نے اس کیفیت کو ’چلی سمت غیب سے اک ہوا….‘ کا مضمون بخشا۔ سراج نے یہ کمال دکھایا کہ اسی غزل میں ’جو رہی سو بے خبری رہی‘کی پیش گوئی بھی کر دی۔ غیب اب کچھ ایسا غیب نہیں رہا اور بے خبری تو سربام یوں اجاڑ منہ کھولے بے حجاب ہوئی ہے کہ احمد مشتاق کے لفظوں میں ’پچھلی شام کے کالے بادل‘یاد آتے ہیں۔ عشق کے دردمندوں کو نوید ہو کہ عالمی وبا کے ان قیامت خیز دنوں میں وزیر اعظم عمران خان کے غالی حامیوں، دانش کے اجارہ داروں، تجزیے کے آڑھتیوں اور قومی مفاد کے ٹھیکیداروں میں اچانک ضمیر کی ناوقت خیزش کے آثار نمودار ہو گئے ہیں۔ کوئی طوطی خوش بیاں گریبان چاک کئے سربازار ماتم کناں ہے کہ میں نے کیا غضب کیا، برسوں عمران خان کی حمایت کرتا رہا۔ اب قوم کی لٹیا ڈوب رہی ہے تو مجھ بدبخت کو فکر لاحق ہے کہ اس قومی ابتلا میں میرا بھی حصہ ہے۔ وصل میں رنگ اڑ گیا میرا، کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا۔ کوئی حسن مستعار کی پڑیا شرمندہ ہے کہ اس کے اپنے لفظ رات کی تنہائی میں دیوار حرم پر لرزاں ہیولے بن کر اسے ڈراتے ہیں۔
صاحبان اقتدار سے آشنائی کا کوئی دعویدار اپنے قلمی موکلوں کی زبانی اپنی ندامت رقم کر رہا ہے تو کسی پیر فرتوت پر وقت کی ڈوبتی نبضوں میں اپنی جہالت کا انکشاف ہوا ہے۔ سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا…. کوئی مشیران شاہ کی نااہلی پہ نوحہ کناں ہے تو کوئی حریم ناز کی داخلی واردات کے راز کھول رہا ہے۔ عرض مقدمہ ایک سادہ بیان ہے کہ ہم نے عمران خان پر اعتماد کیا، ان کی جماعت سے امیدیں باندھیں۔ ہماری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ عمران خان تبدیلی نہیں لا سکے۔ الٹا قضا و قدر کے سب اشاریے منفی اور معکوس کے برج میں پہنچ گئے۔ اب تبدیلی کے یہ جملہ پیادے، رسالے اور فیل بان اپنی مہم جوئی کے دوش سے سبک باری چاہتے ہیں۔
سلیم احمد اور انتظار حسین ایک ہی گاڑی میں میرٹھ سے لاہور پہنچے تھے۔ انتظار صاحب نے لکھا کہ گاڑی پاکستان کی حدود میں داخل ہوئی تو کونوں میں دبکے مسافروں نے جھرجھری لے کر پاکستان کی شان میں بلند آہنگ تقریریں شروع کر دی۔ پرخطر سفر کے دوران بہادری دکھانے والے سلیم احمد مگر اچانک خاموش ہو گئے۔ پوچھنے پر کہا کہ اب ان کے بولنے کی باری ہے۔ سلیم احمد ٹھیک کہتے تھے۔ حریت محض سچ کا مجرد بیان نہیں، صحیح وقت اور صحیح مقام پر حق گوئی کا نام ہے۔ درویش نے عمران خان کی حمایت تو کبھی کی نہیں۔ یہ التزام ضرور کیا کہ قلم کو شخصی عناد اور ذاتی دشنام سے آلودہ نہیں کیا۔
سیاست ایک عمل مسلسل ہے۔ سیاسی عمل میں شرکت سمارٹ لاک ڈاؤن نہیں کہ نشان زد راستوں پر سرکاری فرمان میں بتائے گئے دنوں میں چہل قدمی کو نکلا جائے۔ سیاسی جہد سانسوں کے ساتھ جڑی ہے بلکہ سانس کی ڈوری کٹنے کے بعد بھی بسمل کی صدائے پراثر سے سازش کے ایوانوں اور قصر ہائے سود و زیاں میں خروش برپا رہتا ہے۔ ذوالفقار علی اور بے نظیر کو رخصت ہوئے زمانے گزر گئے۔ سیاست کی ٹکسال میں سکہ بدستور جاری ہے۔ اہل کاری میں توسیع پسندی کے لشکر سینہ گیتی پر ہنوز سانس لے رہے ہیں لیکن کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں ’کسی‘ کا نشاں۔ اہلیت اور نااہلی کے اسی نقطے کی سولی پر پیمبر بات کرتے ہیں۔ عمران خان کم عمری ہی سے نامور شہری تھے۔ کھیل کے میدان میں ملک کا نام روشن کیا۔ پھر سیاست کا رخ کیا۔ کیوں نہ کرتے؟ انہیں قانونی، اخلاقی اور آئینی حق تھا۔ سیاسی جماعت بنانا قوم کی خدمت ہے۔ اہل جمہور کا عمران خان سے اختلاف اصولی تھا۔ سیاست میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی ان کی فکر سیاسی عمل کے احترام سے منکر تھی۔ وہ سیاست اور اہل سیاست پر حرف دشنام ارزاں کرتے تھے۔ انہوں نے جس مکتب سے درس لحن لئے، اس کا بنیادی نظریہ ہی جمہوری سیاست سے نفور تھا۔ جمہوریت دستوری تسلسل سے وابستگی اور رائے کے تنوع میں سمجھوتہ نکالنے کا ہنر ہے۔ عمران خان اور ان کے اتالیق جمہوری تسلسل کی بجائے خلائی معجزے میں یقین رکھتے تھے۔ اجتماعی فراست کی بجائے شخصی کمال کی شاخ میں جھولا ڈالتے تھے۔ تاریخ میں ایسا کوئی تجربہ پائیدار کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا۔ عمران خان کے ضمن میں تو “اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا” کی صورت پیش آئی۔ عمران خان، ان کی جماعت اور ان کی حکومت کی ناکامی کسی فرد کی نااہلی یا حادثے کا نتیجہ نہیں۔ یہ معاملہ ہی زیاں کے لئے کیا گیا تھا۔ اور اس زیاں کی معاشی تفصیل بیان کرنا ابھی بوجوہ ممکن نہیں۔
عمران خان آئین کے مطابق ہمارے وزیر اعظم ہیں اور اس منصب کا تقاضا ہے کہ آج اور آئندہ بھی ان کا احترام کیا جائے۔ یہ کسی شخص کا معاملہ نہیں، وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فروکش ہونے والے کی توقیر دراصل اس قوم کا احترام ہے۔ عمران خان بالآخر کوئی نشان چھوڑے بغیر بوگرہ، جمالی اور شوکت عزیز والی گیلری میں آویزاں ہو جائیں گے۔ اِن شانِئک ھو الابتر…. عمران خان کے یکایک تائب ہونے والے حواریوں کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ عمران خان کے حامی نہیں، اس ملک کے ساتھ عشروں پر پھیلے حتمی جرم کے شریک اور معاون ہیں۔ ننگی آمریتوں اور جمہوریت مخالف سازشوں کی حمایت کرنے والے یہ عناصر عمران خان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، یہ غیر سیاسی اور جمہوریت دشمن بیانیے کی حمایت کر رہے تھے۔ انہوں نے جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کے کھیل کی حمایت کی، قانون کے لفظ سے کھلواڑ اور برہنہ زور آوری سے چشم پوشی کی۔ انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ کے آزمودہ حربے ’احتساب‘ کو قومی نجات کا نسخہ قرار دیا۔ انہوں نے افواہ، غلط بیانی، کردار کشی اور دشنام طرازی کی مدد سے قوم کو گمراہ کیا۔ یہ بزرجمہر اپنی مفاد پرستی، بددیانتی اور مجرمانہ افعال کا بوجھ عمران خان کے کندھوں پر ڈال کر کسی نئے شکار پر نکلیں گے۔ ان کے بنیادی مفروضات پر سوال اٹھاتے رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے دہن ریا کار میں غم ہائے نہانی کی سوزش توبة النصوح نہیں، ابن الوقت کی موقع پرستی ہے۔
بشکریہ ہم سب