زمین کے کسی بھی براعظم کی سطح پر سب سے گہرا مقام دریافت کر لیا گیا ہے۔ یہ انٹارکٹکا میں موجود ڈینمن گلیشیئر کے نیچے موجود ہے۔
برف سے بھری یہ گھاٹی سطح سمندر سے 3.5 کلومیٹر (11 ہزار 500 فٹ) نیچے ہے۔ صرف سمندروں میں ہی اس سے زیادہ گہری وادیاں ہوتی ہیں۔
اس دریافت کو سفید براعظم یعنی انٹارکٹکا کے نئے نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے میں پہلی بار برف سے ڈھکی اس جگہ کی ساخت کی تفصیل سے عکاسی کی گئی ہے۔
اس کی ساخت اور خصوصیات سے ہمیں یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ مستقبل میں قطبِ جنوبی میں کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
اس کا موازنہ بحیرہ مردار کے ساحل پر زمین کے گہرے ترین کھلے ہوئے مقام سے کریں جو کہ سطح سمندر سے صرف 413 میٹر (1355 فٹ) نیچے ہے۔
مثال کے طور پر نئی دریافت سے ایسی چٹانوں کا پتا چلا ہے جن کے بارے میں پہلے سے معلومات نہیں تھیں۔ یہ گلوبل وارمنگ کے دوران پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو آگے بڑھنے سے روکیں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہموار اور زاویہ دار میدانوں کا بھی پتا چلا ہے جو ان کے آگے بڑھنے میں تیزی لا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر میتھیو مورلیگھم نے اس منصوبے پر چھ سال تک کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انٹارکٹکا کی برف کے نیچے کیا کچھ موجود ہے، یہ بلاشبہ اس کی آج تک کی سب سے درست تصویر ہے۔‘
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر میتھیو نے اس دریافت کو امریکی جیو فزیکل یونین کی موسمِ سرما کی میٹنگ میں ’بیڈ مشین انٹارکٹکا‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔ یہ تحقیق نیچر جیو سائنس نامی جریدے میں بھی شائع بھی ہو رہی ہے۔
براعظم انٹارکٹکا کے فضائی سرویز میں جن مقامات کی نشاندہی نہیں کی جا سکی تھی، اس نقشے میں ان سے متعلق معلومات کی کمی کو پورا کیا گیا ہے۔
کئی دہائیوں سے ریڈار آلات نے مائیکروویو لہریں برف سے نیچے گزار کر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انٹارکٹیکا کی برفیلی سطح کے نیچے چٹانی سطح کس طرح کی ہے۔ لیکن یہاں اب بھی کئی وسیع علاقے ایسے ہیں جن کے بارے میں نہ ہونے کے برابر معلومات دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر مورلیگھم نے اس کے حل کے لیے فزکس کا استعمال کیا ہے تاکہ معلومات کے خلا کو پر کیا جا سکے۔
مثال کے طور پر اگر یہ معلوم کر لیا جائے کہ کسی تنگ وادی میں کتنی برف داخل ہو رہی ہے اور یہ کس رفتار سے حرکت کر رہی ہے تو برف کے حجم کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے وادی کی چھپی ہوئی سطح کے کھردرےپن اور گہرائی کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اس طریقے سے سمندر کی جانب بڑھتے ہوئے 20 کلومیٹر چوڑے ڈینمن گلیشیئر کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ برف سطح سمندر سے 3500 میٹر نیچے تک جا رہی ہے۔
ڈاکٹر مورلیگھم کہتے ہیں کہ ’سمندروں کے اندر موجود خندقیں بہت گہری ہیں لیکن یہ خشکی پر موجود سب سے گہری خندق ہے۔‘
’ڈینمن کی سطح کا ریڈیائی تجزیہ کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی ہے لیکن جب بھی اس کھائی کے اوپر پرواز کی گئی، ریڈار کے ڈیٹا میں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’یہ اس قدر گہری جگہ ہے کہ وادی کی دیواروں سے آواز گونجتی ہے۔ اور اس طرح گلیشیئر کی حقیقی سطح سے سگنل کا ٹکرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔‘
اس کا موازنہ ماریانہ خندق سے کریں جو سمندر میں سب سے گہرا مقام ہے۔ یہ مغربی بحرالکاہل میں سطحِ سمندر سے 11 کلو میٹر نیچے ہے۔
پہلی نظر میں شاید بیڈ مشین انٹارکٹکا پرانے نقشوں سے مختلف نہ لگے۔ لیکن قریبی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دلچسپ معلومات موجود ہیں جو قطبی جغرافیے کے ماہرین کے درمیان بحث کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
مثال کے طور پر انٹارکٹکا کے ایک طویل پہاڑی سلسلے ٹرانس انٹارکٹک پر گلیشیئرز کی بڑی تعداد ہے جو براعظم کی مشرقی سطح مرتفع سے ہوتے ہوئے بحیرہ راس تک پھیلے ہوئے ہیں۔ نئی معلومات سے پتا چلا ہے کہ ان گلیشیئرز کے نیچے ایک اونچی چٹان ہے جو ان کی اس سطح سے ہٹنے کی رفتار گھٹا سکتی ہے۔
یہ اہم ہے کیونکہ مستقبل میں گلوبل وارمنگ سے بحیرہ راس پر تیرتی برف پگھل سکتی ہے۔ امکان ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ہٹنے سے گلیشیئرز بھی تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مورلیگھم کہتے ہیں ’بحیرہ راس پر جمی برف فی الحال تو ٹھیک ہے لیکن اگر اسے کچھ ہوا تو امکان ہے کہ اس سے مشرقی انٹارکٹکا کی تباہی نہیں ہوگی۔ اگر مشرقی انٹارکٹکا کو خطرہ ہے تو یہ بحیرہ راس کی وجہ سے نہیں ہے۔‘
لیکن ٹرانس انٹارکٹک پہاڑیوں کی صورتحال کے برعکس بیڈ مشین انٹارکٹکا تحقیق میں پایا گیا ہے کہ تھویٹس گلیشیئر کے تیزی سے پھسلنے میں کم ہی رکاوٹیں ہیں۔ یہ گلیشیئر برطانیہ جتنا ہے اور اس کی برفانی ندی براعظم کے مغرب میں بحیرہ امنڈسن تک چلتا ہے۔
یہ سائنسدانوں کے لیے اس لیے پریشان کن ہے کیونکہ یہ ایسی سطح پر واقع ہے جس کی ڈھلوان زمین کی جانب ہے۔ اس سے گلیشیئر پگھلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ نئے نقشے میں صرف دو نئی چٹانیں دریافت ہوئی ہیں جن سے گلیشیئر کا پگھلنا رک سکتا ہے۔ تاہم ان کے بعد گلیشیئر کو پگھلنے سے نہیں روکا جا سکے گا۔
بیڈ مشین انٹارکٹکا کو ماحولیاتی ماڈلز میں بھی استعمال کیا جائے گا تاکہ زمین پر درجہ حرارت کے بڑھنے سے براعظم میں آنے والی صدیوں میں متوقع تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔
حقیقت سے قریب تر اندازے صرف اسی صورت میں آ سکیں گے جب برف کی موٹائی اور اس کے نیچے موجود سطح کے بارے میں درست معلومات ہوں گی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر میتھیو کی ساتھی ڈاکٹر ایما سمتھ نے بتایا کہ ’یہ ایسا ہے جیسے آپ ہموار سطح پر شہد ڈالیں اور اسے بہتا ہوا دیکھیں۔ اور پھر اسی شہد کو اونچ نیچ سے بھرپور ایک غیر ہموار سطح پر ڈالیں۔ اس مرتبہ شہد ایک الگ انداز میں بہتا ہوا نظر آئے گا۔ انٹارکٹکا پر برف کا بھی یہی حساب ہے۔‘