اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شاید دنیا کے کسی اور ملک میں کسی پر کفر اور غداری کا فتویٰ لگانا اتنا آسان نہ ہوگا جتنا ہمارے ہاں ہے۔ آپ کو کسی کے مذہبی خیالات سے اختلاف ہے تو بات صرف اختلاف تک نہیں رہتی بلکہ کفر تک جا پہنچتی ہے۔ یہی حال ملک سے وفاداری کے معاملے میں ہے۔ ہر شخص نے ملک سے محبت اور وفاداری کا اپنا ذاتی پیمانہ تیار کر رکھا ہے اور وہ اپنے اسی خود ساختہ پیمانے سے دوسروں کو ماپتا ہے اور اپنی مرضی سے‘ بلکہ انگریزی میں اس کیلئے ایک نہایت ہی شیریں لفظ ہے اپنی will sweet سے کسی کو بھی غداری یا وفاداری کا سرٹیفکیٹ عطا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے غداری کے فتوے جاری کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ میں یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ اب ہماری قومی غیرت اور انا اس درجہ نچلے مقام پر آگئی ہے کہ ہم ہیجڑوں کے اس شہر ہ آفاق نعرے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو خدا جانے انہوں نے کبھی لگایا تھا یا نہیں لیکن بہرحال ان سے منسوب ہے کہ ”اللہ جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں ‘‘۔اس کا ماخذجنگِ عظیم میں انگریزوں کی جانب سے لام بندی کے دوران ہیجڑوں کی جبری بھرتی سے جڑا ہوا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارے اخباروں‘ سوشل میڈیا اور دانشوروں کی گفتگو کا موضوع لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں بھارتی سینا کی پٹائی ہے۔ مجھے خود ذاتی طور پر اس سے ایک بے پایاں سی خوشی محسوس ہوئی ہے لیکن یہ ایسی خوشی نہیں کہ میں اس پر تکیہ کرکے چین کی نیند سوجائوں اور جب سو کر اٹھوں تو دوبارہ خوشی کے شادیانے بجانے شروع کر دوں‘ لیکن ہمارے ہاں یہ ہورہا ہے کہ ہمارے سارے محب وطن دانشور اور تجزیہ نگار ساری قوم کو بھارت کی تباہی کی پیشین گوئیوں‘ علیحدگی پسند تحریکوں کی کامیابیوں ‘ عالمی سطح پر بھارت کی بے عزتی کی نویدوں‘ بھارت کی اقتصادی بدحالی کی خبروں اور عالمی سطح پر بھارت کی تنہا ئی کی خوشخبریوں سے اپنا دل خوش اور قوم کا کلیجہ ٹھنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے اس میں سے بہت سی باتوں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ خاص طور پر ہماری خارجہ پالیسی کے تقریباً صفر بٹا صفر قسم کے نتائج کو سامنے رکھیں تو بھارت کی عالمی سطح پر تنہائی کی خبروں میں جس قدر حقیقت تھی گزشتہ دنوں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست پر بھارت کی کامیابی نے اس کا پردہ چاک کر دیا ہے۔
بھارت کے سلسلے میں ہماری خارجہ پالیسی کا غبارہ ہر چوتھے روز پٹاخہ مار کر پھٹ جاتا ہے ‘ کبھی اوآئی سی والے اپنی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں بھارت کو باعزت مہمان بنا کر شرکت کی نہ صرف دعوت دیتے ہیں بلکہ پاکستان کے احتجاج کو رتی برابر اہمیت نہ دیتے ہوئے مودی کو اس اجلاس سے خطاب کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ کبھی سعودی عرب مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بھارتی وزیر اعظم کو ملک کا سب سب بڑا سول ایوارڈ عطا کر دیتا ہے۔ ماسوائے ترکی اور ملائشیاکے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور گزشتہ تقریباً نو ماہ سے جاری تاریخِ عالم کے بد ترین محاصرے پر کسی اسلامی ملک کے سربراہ نے جھوٹے منہ مذمت نہیں کی۔ کورونا کی وبا کے دوران مختلف الزامات اور حیلے بہانوں سے مسلمانوں کی نسل کشی پر او آئی سی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز نے سوائے انگریزی والے اوہ آئی سی (Oh, I see)یعنی ”اچھا میں دیکھ رہا ہوں‘‘ سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا۔ یہ تو میں صرف اسلامی ممالک میں ہماری خارجہ پالیسی نے جو جھنڈے گاڑے ہیں‘ بیان کررہا ہوں۔عالمی سطح پر تو اس سے بھی بْرا حال ہے۔
اس وبا کے دور میں ہونے والے لاک ڈائون کے عالمی سطح پر تباہ کن اثرات کے نتائج سے کشمیر میں دو سو پچاس دن سے زیادہ عرصہ سے جاری لاک ڈائون کے تناظر میں عالمی ضمیر کو جھنجوڑا جاسکتا تھا لیکن ہم نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کیا۔ کشمیر کمیٹی ایک عرصہ تک مولانا فضل الرحمان کی جیب میں پڑی رہی اور وہ اس سے محض وزیر کے مساوی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ اور کوئی کام نہ لے سکے۔ کشمیر کا مسئلہ ان کی ترجیحات میں شاید آخری نمبر پر بھی نہ تھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اقتدار سے فراغت کے باعث یہ عہدہ بمشکل مولانا فضل الرحمان کے چنگل سے نکلا اور سید فخر امام کے سپرد ہو گیا۔ یہ منصب جس قدر تحرک کا متقاضی تھا سید فخر امام اس منزل کو عشروں پہلے کہیں پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ یہ ان کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ اب اس منصب پر جناب شہریار خان آفریدی متمکن ہیں۔ اللہ مجھے بدگمائی سے بچائے۔ ان کو کشمیر کے بارے میں بھی اتنا ہی علم ہے جتنا کسی کو خود ان کے بارے میں علم ہے۔ کشمیر کمیٹی نے سوائے اپنے عہدے داروں کے موج میلے کے‘ کشمیر کیلئے نہ پہلے کچھ کیا ہے اور نہ ہی اب کچھ کر رہی ہے۔کم از کم کشمیر کمیٹی کے حوالے سے عملی طور پر رتی برابر فرق نظر نہیں آتا۔
مجھے ایک دوست کہنے لگا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ اپنی منافقت یا گھٹیا پن کے سبب اپنی ہی منظور کردہ قرار دادوں پر نہ تو بھارت کو عمل کرنے پر مجبور کررہا ہے اور نہ ہی اقوامِ عالم کا ضمیر کوئی شرمندگی محسوس کررہا ہے‘ لیکن اس بات سے تو کسی کو رتی برابر اختلاف نہیں کہ کشمیر آج بھی متنازعہ علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اس کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ التوا میں ہے‘ لیکن ان کی اْمنگوں کے مطابق استصوابِ رائے والا دروازہ قانونی طور پر بند نہیں ہوا۔ پھر ایسی صورت میں جبکہ پاکستان اس انسانی المیے میں باقاعدہ ایک فریق کا درجہ رکھتا ہے‘ پاکستان کشمیریوں کے قتلِ عام‘ لگ بھگ چھ ماہ سے جاری لاک ڈائون ‘ انٹر نیٹ کی بندش ‘ ضروریاتِ زندگی سے محرومی اور متنازعہ علاقے میں آبادی کا تناسب خراب کرنے کے بھارتی منصوبے کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہیں جاتا ؟ اگر بھارت اپنے حاضر سروس فوجی افسر‘ جاسوس کلبھوشن یادیو کے ان حقوق کی خاطر ‘جو کسی جاسوس کو عمومی طور پر حاصل نہیں ہوتے‘ عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس کیلئے قونصل رسائی جیسی غیر روایتی رعایت لے سکتا ہے تو پاکستان اس انسانی المیے کے معاملے پر عالمی عدالت میں بھارتی جرائم اور مظالم کو بنیاد بنا کر کیوں نہیں جاسکتا ؟ بھارت کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال کرکے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘ ہم اس جنگی جرم کے خلاف عالمی فورم میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟ دوست کہنے لگا میں کوئی قانون دان نہیں لیکن کامن سینس یہ کہتی ہے کہ اگر عالمی عدالت مصدقہ جاسوس کو انسان قرار دیتے ہوئے اس کیلئے ناجائز رعایتوں کا حکم دے سکتی ہے تو معصوم کشمیریوں کے درد کا درماں کیسے نہیں کرے گی ؟
میں نے اپنے اس دوست سے کہا تمہاری ساری باتیں درست ہیں لیکن مسئلہ ہماری ترجیحات کا ہے‘ جب بھارت اپنی خارجہ پالیسی کی تیز قینچی سے اقوام متحدہ میں غیر مستقل ممبر کی سیٹ کاٹ کر اپنی جھولی میں ڈال رہا تھا عین اسی وقت سوشل میڈیا پر ایک کلپ چل رہا تھا جس میں ہمارے وزیر خارجہ مزار پر بیٹھے مریدین کے بالوں کی لٹیں قینچی سے کاٹ کر نذرانے کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ جس وقت بھارتی وزارت ِخارجہ کو اقوام متحدہ میں غیر مستقل رکن کی سیٹ کی فکر پڑی ہوئی تھی ہمارے وزیر خارجہ کو اپنی گدی نشینی سے جڑے ہوئے لوازمات بھگتانے سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔بقول شعیب بن عزیز:ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں