منتخب تحریریں

روشن تیرا نام منوّر!

Share

سیاست سے دلچسپی سید منور حسن کی گھٹی میں شامل تھی۔ والد صاحب سید اخلاق حسن دہلی میں سکول ٹیچر تھے‘ لیکن مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں بھی مقدور بھر حصہ ضرور ڈالتے۔ والدہ محترمہ بھی ”بٹ کے رہے گا ہندوستان‘ لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے لگانے میں مسلم لیگی خواتین میں پیش پیش ہوتیں۔ منور حسن چھ سال کے تھے‘ جب والدین نے اپنی آرزوئوں اور امنگوں کی سرزمین کیلئے رختِ سفر باندھا۔ تھوڑا عرصہ لاہور میں قیام کیا اور پھر کراچی جا بسے۔ یہاں اخلاق صاحب سندھ مدرستہ الاسلام میں ٹیچر ہو گئے۔ وہی مدرسہ تھا‘ جہاں محمد علی جناحؒ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی‘ جنہیں بعد میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کے بانی ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہونا تھا۔ منور حسن کے دورِ طالب علمی میں کراچی کے تعلیمی اداروں میں ترقی پسند نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا غلغلہ تھا۔ کچھ کر گزرنے اور معاشرے کو بدل ڈالنے کا رومانس سید منور حسن کو اُدھر لے گیا۔ترقی پسند این ایس ایف سے ان کی علیحدگی اور اسلام پسند اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے حوالے سے ایک واقعہ شامی صاحب گزشتہ روز ”باغِ بہشت کا تازہ پھول‘‘ میں بیان کر چکے۔ یہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تھا۔ ترقی پسندی سے اسلام پسندی کی طرف سفر کی کہانی سید منور حسن نے ہمیں بھی ایک انٹرویو میں سنائی تھی۔ سید صاحب کے الفاظ میں یہ حکایت لذیذ: ”یہ ایوب خاں کے مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی تھی۔ میں ”لیفٹ‘‘ کی ایک انڈر گرائونڈ تنظیم کا صدر تھا۔ ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ نظریاتی بحث مباحثے کے ذریعے انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ میں نے جمعیت کے جن تین کارکنوں کا ذمہ لیا ان میں دو تو قدرے آسان شکار تھے لیکن تیسرے صاحب لوہے کا چنا ثابت ہوئے۔ تین چار ماہ یہ سلسلہ یوں رہا کہ صبح ٹہلنے کیلئے نکلتے‘ وہ اسلام کی بات کرتے‘ میں سوشلزم کی بات کرتا ۔ رفتہ رفتہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں اندر سے کچھ کمزور ہو رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے عبدالحمید صدیقی مرحوم کی کتاب ”انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘‘ دی۔ میں نے اسے پڑھے بغیر واپس کر دیا۔ انہوں نے دو تین اور کتابیں دیں۔ جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ میں یہ کتابیں پڑھے بغیر واپس کر دیتا ہوں۔ ایک دن وہ مجھے گھر لے گئے اور ایک کتاب کے تین چار صفحے بآواز بلند پڑھ کر سنائے۔ یہ مولانا مودودی کی ”دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات تھی‘‘۔ میں کتاب گھر لے گیا۔ میں نے اس کتاب کو کوئی سترہ بار پڑھ ڈالا۔ اب میں یکسو تھا۔ میری دنیائے دل مکمل طور پر تبدیل ہو گئی تھی۔ یہ نئے سفر کا آغاز تھا۔
منور حسن 1964ء سے 1967ء تک تین سال ناظم اعلیٰ رہے۔ اسی دوران غالباً 1967ء میں وہ ہمارے ضلع بہاولنگر کے دورے پر تشریف لائے اور ہمیں ”امیدوارِ رکنیت‘‘ بنا لیا۔ ان کے بعد دو سال ڈاکٹر محمد کمال ناظم اعلیٰ تھے۔ اسی دور میں حیدرآباد کے نیاز سٹیڈیم میں جمعیت کا کل پاکستان تاریخی اجتماع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جب ایوب خاں کے خلاف آتش فشاں پھٹنے کو تھا۔ اگلے ماہ (اکتوبر میں) لاوا بہہ نکلا۔ یہاں تک کہ مارچ 1969ء میں ایوب خاں رخصت ہوئے ۔ ڈھاکا کے مطیع الرحمن نظامی متحدہ پاکستان کی اسلامی جمعیت طلبہ کے آخری ناظم اعلیٰ تھے۔ 1971ء کے اواخر میں‘ سقوط ڈھاکا سے دو اڑھائی ماہ پہلے‘ ملتان میں جمعیت کا آخری کل پاکستان اجتماع تھا‘ جس میں ناظم اعلیٰ مطیع الرحمن نظامی سمیت کچھ ساتھی مشرقی پاکستان سے شریک ہوئے تھے۔ اسی اجتماع میں ناظم اعلیٰ کے دستخط کے ساتھ ہماری رکنیت منظور ہو گئی۔ یہ کٹھن مرحلہ طے کرنے میں ہمیں چار سال لگ گئے تھے۔
جمعیت سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سید منور حسن کا فطری انتخاب تھی۔ کراچی قیام پاکستان کے بعد تیس پینتیس سال ”دائیں بازو‘‘ کا مضبوط قلعہ رہا۔ آمریت کے خلاف تحریکوں میں بھی کراچی پیش پیش تھا جس میں رائٹ اور لیفٹ شانہ بشانہ ہوتے۔ 1964ء کے صدارتی انتخاب میں‘ ادھر کراچی واحد شہر تھا‘ جہاں دھونس اور دھاندلی‘ جبر اور تشدد کے تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو فیلڈ مارشل ایوب خاں پر سبقت حاصل ہوئی۔ 1970ء کے الیکشن میں کراچی میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں میں سے دو جماعت اسلامی نے جیت لیں (پروفیسر غفور احمد اور محمود اعظم فاروقی) دو جمعیت علماء پاکستان کے حصے میں آئیں (مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالمصطفیٰ الازہری) اور دو پیپلز پارٹی جیت گئی (عبدالستار گبول اور حفیظ پیرزادہ) ساتویں نشست جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما مولانا ظفر احمد انصاری آزاد امیدوار کے طور پر جیتے۔بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بھی کراچی پیش پیش تھا‘ یہ ان تین شہروں میں تھا‘ جہاں بھٹو صاحب کے حکم پر جزوی مارشل لاء لگا (باقی دو شہر‘ لاہور اور حیدرآباد تھے)۔
1977ء کے انتخابات میں سید منور حسن نے پورے ملک میں ریکارڈ ووٹ حاصل کیے۔ پیپلز پارٹی کے جمیل الدین عالی کے مقابلے میں انہیں 89 ہزار ووٹوں کی سبقت حاصل تھی۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ ”لیڈ‘‘ حیدرآباد میں میاں محمد شوکت (شامی صاحب کے سسر محترم) کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ذکا اشرف کے والد چودھری محمد اشرف گوجر ان کے مدمقابل تھے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف جماعت اسلامی کراچی کا مؤقف منصورہ کے مؤقف سے سخت تر رہا۔ کراچی والے ضیا کے ریفرنڈم کے بھی مخالف تھے لیکن جماعت کے ڈسپلن نے انہیں باندھے رکھا۔فروری 1985ء کے انتخابات کے بعد نیا سیاسی عمل شروع ہوا تو کراچی (اور حیدرآباد) میں نئے سیاسی حقائق اُبھر چکے تھے۔ 1973ء کے آئین میں دس سال تک کوٹہ سسٹم‘ اردو سپیکنگ مہاجروں نے گوارا کر لیا تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سندھیوں کی خوشنودی کے لیے کوٹہ سسٹم میں دس سال کا اضافہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ مہاجروں کی نئی نسل کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا تھا۔ یہی ”احساسِ محرومی‘‘ ایم کیو ایم کی بنیاد بنا اور کراچی و حیدرآباد کو بہا لے گیا۔ منور حسن کی زیر قیادت کراچی کی جماعت اسلامی اور اس کے نوجوان‘ اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان میں موجود رہے۔ لیکن ”صبح منور‘ شام منور‘ روشن تیرا نام منور‘‘ کے نعرے لگانے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد اب برگشتہ ہو چکی تھی۔1987ء میں قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے تو انہوں نے سید منور حسن کو سیکرٹری جنرل کے طور پر منصورہ بلا لیا۔
2009ء میں (بائیس سالہ امارت کے بعد) قاضی صاحب کی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر 68 سالہ سید منور حسن جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔ یہ امارت سے ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ مولانا مودودی نے 69 سال کی عمر میں‘ میاں طفیل محمد نے 74 سال کی عمر میں اور قاضی صاحب نے 71 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ منور حسن کا دورِ امارت پاکستان میں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا دور تھا۔ اس حوالے سے منور صاحب کا اپنا نقطہ نظر تھا۔ 2014ء میں وہ اگلی مدت کے لیے منتخب نہ ہو سکے‘اس حوالے سے بہت سی گفتنی و ناگفتنی باتیں کہنے سننے میں آ چکیں۔ جناب سراج الحق کے حلف وفاداری میں سید منور حسن کے اس ”مطالبے‘‘ کی گونج دیر تک موجود رہی کہ اس انتخاب کے لیے جاری کیے گئے بیلٹ پیپرز میں سے 5 ہزار بیلٹ پیپر کہاں گئے؟دنیاوی آسائشوں سے منور حسن کی بے رغبتی‘ فقر و درویشی‘ تقویٰ اور جرأت و بے خوفی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا۔ ان کی شخصیت‘ تحریکِ اسلامی کے لیے ان کی خدمات اور ان کا تحریکی کردار کتابوں کا موضوع ہے۔
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت