بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی
بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں اتوار کو بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔
مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 4 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک شہری نذر آتش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ چھٹے شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔
یاد رہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے 11 اکتوبر کو پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
مغربی بنگال کی ریاست میں ہزاروں مظاہرین نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے ریاست میں کرفیو نافذ کرکے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی حالانکہ وزیراعلیٰ مماتا بینرجی نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔
بھارتی کے مغربی بنگال، پنجاب، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع قانون پرعمل درآمد نہیں کریں گے۔
مظاہرین نے ٹائر نذر آتش کیے اور ریلوے پٹڑی اور مرکزی شاہراہوں پر دھرنا دیا اس کے علاوہ ریلوں اور بسوں کو بھی آگ لگا دی تاہم پولیس نے موقع پر پہنچ کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور ریل سروس بھی معطل کردی گئی۔
بی جے پی کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے اپنے بیان میں عوام سے پرامن رہنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
دوسری جانب عوام خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ اس متنازع بل کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہاجرین کو شہریت دی جائے گی۔
جھاڑ کھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ ‘ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے ثقافت، زبان، سماجی پہچان اور سیاسی حقوق محفوظ رہیں گے’۔
شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔
اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔