قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے دورہ انگلینڈ کی تیاریوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن انگلینڈ کے خلاف 3 ٹیسٹ میچوں کے خلاف انہیں ٹیم کی تیاری نامکمل محسوس ہوتی ہے۔
کپتان اظہر علی اور ان کے اسکواڈ کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس بات سے نبرد آزما ہونا ہو گا کہ کورونا وائرس کے بعد کرکٹ کس حد تک بدل چکی ہے کیونکہ وائرس کے باعث تھوک سے گیند چمکانے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور کھیل شائقین کے بغیر کھیلا جائے گا۔
کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے بعد 20 رکنی اسکواڈ اتوار کو انگلینڈ پہنچا تھا اور میچز انتہائی محفوظ ماحول میں منعقد کیے جائیں گے جس کا عادی ہوتے ہوتے کھلاڑیوں کو تھوڑا وقت لگے گا۔
تاہم اس کے برعکس انگلینڈ کی ٹیم پاکستان سے زیادہ بہتر طریقے سے ان نئی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کر سکے گی کیونکہ پاکستان کے خلاف سیریز سے قبل وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف انہی نئے قوانین کے تحت سیریز کھیلے گی۔
واضح رہے سیریز سے قبل قومی ٹیم کے حوصلے کافی بلند ہیں کیونکہ قومی ٹیم نے گزشتہ دنوں سیریز انگلینڈ میں ڈرا کی تھیں جس میں سے حال ہی میں 2018 میں سرفراز احمد کی زیر قیادت ڈرا کی تھی۔
تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر 2014 کے بعد سے کوئی بھی ٹیسٹ سیریز نہیں ہاری اور پاکستان کا نوجوان پیس اٹیک ان کے تسلسل کے خاتمے کے لیے ناتجربہ کار محسوس ہوتا ہے۔
قومی ٹیم کی پہلی ترجیح تصور کیے جانے والے پیس اٹیک میں سے محمد عباس کے سوا کسی بھی کھلاڑی نے انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا کیونکہ عباس کے علاوہ بقیہ ترجیح تصور کیے جانے والے شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ پہلی مربتہ انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ کھیلیں گے۔
اسکواڈ میں موجود سہیل خان بھی نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے تجربے سے مستفید کریں گے جنہوں نے 2016 میں انگلینڈ کا دورہ کیا تھا لیکن 2016 میں آسٹریلیا کے خلاف باکسنگ ڈے ٹیسٹ کے بعد سے قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کی۔
قوی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی نے انگلینڈ روانگی سے قبل تسلیم کیا تھا کہ میچوں کی تعداد کے اعتبار سے انگلینڈ کا باؤلنگ میں بہت تجربہ ہے لیکن ہمارے پاس ہنر موجود ہے، ہمارے باؤلرز نوجوان ہیں اور یہ دنیا میں کسی بھی ٹیم کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انگلینڈ کی ٹیم میں ابتدائی 3 پوزیشنز پر بیٹنگ کے لیے رورے برنز، ڈوم سبلی، جو ڈینلی اور زاک کرالی کے درمیان مقابلہ ہے اور اظہر علی کو اسی میں ایک موقع نظر آ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹنگ کو دیکھیں تو ایلسٹر کک کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے یہ کمزور نظر آ رہی ہے۔
اس سیریز میں قومی ٹیم کے باؤلرز کو باؤلنگ کوچ وقار یونس اور اسپن باؤلنگ کوچ مشتاق احمد کے تجربے سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملے گا جو 1996 میں انگلینڈ کے خلاف سیریز جیتنے والی قومی ٹیم کا حصہ تھے۔
سابق کپتان یونس خان بھی بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے اسپورٹ اسٹاف کا حصہ ہیں او وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو سیریز میں پہلی اننگز میں 300 سے زائد رنز بنانا ہوں گے۔
اس سیریز میں پاکستانی بیٹنگ لائن کا اصل انحصار اظہر علی اور بابر اعظم پر ہو گا اور دیگر کو بھی پارٹنرشپ بھی قائم کرنا ہوں گی جہاں ان کے لیے اصل خطرہ تجربہ کار جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کے ساتھ ساتھ خطرناک جوفرا آرچر پر ہو گا۔
واضح رہے کہ بیرون ملک کھیلی گئیں گزشتہ دونوں سیریز میں پاکستان کو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں کلین سوئپ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں انگلینڈ کے خلاف اسی طرح کی شکست سے بچنے کا چیلنج درپیش ہے۔