نگار جوہر پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل بن گئیں
‘آپ کسی مسلم ملک کا نام لیں یا کسی بھی ترقی پذیر ریاست کا، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں دو خواتین جنرل آفیسر کے عہدے پر تعینات ہیں’۔
یہ ڈاکٹر نگار نے کچھ سال قبل اس وقت ایک انٹرویو میں کہا تھا جب وہ پاکستانی فوج میں بریگیڈیئر کے عہدے پر تعینات تھیں۔ اس وقت ان کا اشارہ میجر جنرل ریٹائرڈ شاہدہ ملک اور میجر جنرل ریٹائرڈ ڈاکٹر شاہدہ بادشاہ کی جانب تھا۔
آج وہ خود تھری سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد ملک کی پہلی لیفٹننٹ جنرل بنی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان کی پہلی خاتون سرجن جنرل تعینات ہو گئی ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر خان کا تعلق خیبرپختونخواہ کے ضلع صوابی سے ہے۔
انھوں نے راولپنڈی کے پریزینٹیشن کانوینٹ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر 1985 میں آرمی میڈیکل کالج سے گریجویشن کی۔
ان کا تعلق آرمی میڈیکل کور کے جی ڈی ایم او یعنی جنرل ڈیوٹی میڈیکل آفیسرز برانچ سے ہے۔ یہ میڈیکل میں مینیجمنٹ کا شعبہ ہے۔
انھوں نے ایڈوانس میڈیکل ایڈمنسٹریشن میں آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے 2015 میں ڈپلومہ مکمل کیا تھا۔
جب پاکستان آرمی کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے اس وقت ڈاکٹر نگار جوہر سی ایم ایچ جہلم کی کمانڈنگ آفیسر تھیں جس کو ایک اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔
وہ ڈپٹی کمانڈنٹ سی ایم ایچ راولپنڈی رہیں۔ وہ آرمی میڈیکل کالج کی وائس پرنسپل بھی تعینات رہیں اور بطور میجر جنرل وہ ملٹری ہسپتال راولپنڈی کی کمانڈنٹ تعینات ہوئیں۔ انھیں 2017 میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی اور وہ پاکستان آرمی میں میجر جنرل کے عہدے پر تعینات ہونے والی تیسری خاتون تھیں۔
لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر کو فوج کی میڈیکل کور میں ’مُوور‘ کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسی افسر جو کام روکتی نہیں ہیں۔ ملٹری ہاسپٹل راولپنڈی میں ان کے ماتحت کام کرنے والی ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’جب جنرل نگار کسی دفتر میں ہوں تو وہ وہاں چار مرد آفیسرز کے برابر کام کرتی ہیں’۔ انھیں پیشہ ورانہ زندگی میں انتہائی تندہی سے کام کرنے والی افسر کی شہرت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان آرمی کی میڈیکل کور میں افسران کی ترقی فوج کے دیگر شعبوں کی نسبت سخت مقابلے کی وجہ سے خاصی مشکل سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شعبے میں مرد ڈاکٹر افسران کی تعداد کئی گنا زیادہ ہونا بھی خواتین کی پروموشن میں رکاوٹ ہے تاہم جنرل نگار جوہر کا کرئیر خاصہ مختلف نظر آتا ہے۔
ان کی بطور کمانڈنگ آفیسر سی ایم ایچ جہلم تعیناتی بھی اہم تھی کیوں کہ یہ فیلڈ ہسپتال ہے جہاں انڈیا کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی کارروائیوں میں زخمی ہونے والوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر کے والد کا تعلق بھی پاکستانی فوج سے تھا۔ ان کے شوہر بھی پاکستانی فوج سے میجر کے رینک سے ریٹائر ہوئے تھے اور گذشتہ برس ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں میجر جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون آفیسر ڈاکٹر شاہدہ ملک تھیں، جبکہ ڈاکٹر شاہدہ بادشاہ دوسری خاتون آفیسر تھیں جو میجر جنرل کے عہدے تک پہنچیں۔