یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کی جانب سے پاکستان انٹرنیشل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپین ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں جہاں پی آئی اے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے وہیں ان سینکڑوں پائلٹس کے روزگار بھی داؤ پر لگتے نظر آ رہے ہیں جنھوں نے پاکستان سے پائلٹس لائسنس حاصل کر رکھے ہیں اور پی آئی اے کے علاوہ دوسری ملکی اور بین الاقوامی ایئرلائنز کے لیے کام کرتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان سول ایوی ایشن اور ریاست پاکستان کی ساکھ بھی شدید متاثر بلکہ مشکوک ہو گئی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اس تمام صورتحال کا آغاز 2012 میں اس وقت ہوا جب حکومتِ پاکستان نے ٹیسٹنگ کا نیا نظام متعارف کروایا جس میں دو امتحانی پرچوں کی جگہ آٹھ پرچے متعارف کروائے گئے اور جس کے نتیجے میں پائلٹس میں مختلف نوعیت کے ذرائع کے استعمال کے ساتھ پرچے پاس کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو موجودہ سکینڈل کی بنیاد ہے۔
وفاقی وزیر برائے ہوابازی کا اپنے ادارے پر ’خودکش حملہ‘
پاکستان انٹرنیشل ایئرلائن کے ایک سابق اہلکار کے مطابق یہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کا اپنے ہی ادارے یعنی سول ایوی ایشن پر براہِ راست اور پی آئی اے پر بالواسطہ ’خود کش حملہ‘ ہے جس کے نتیجے میں انھوں نے نہ صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پوری صنعت اور ریاست کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔
یہ بات پہلے دن سے مختلف طریقوں سے کہی جا رہی ہے اور اس کا مرکز وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان کا پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان ہے جس سے انھوں نے اگلی ہی پریس کانفرنس میں بیک ٹریک کیا اور ’جعلی لائسنس‘ سے شروع ہونے والا معاملہ ’مشکوک‘ بن گیا۔
ان معاملات میں شامل رہنے والے ایک سے زیادہ اہلکاروں نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس ساری صورتحال کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کیا ااور انھوں نے وزیرِ ہوابازی کو کہا کہ اس معاملے پر کھل کر بات کی جائے اور پائلٹس کے معاملے پر وزیراعظم کا موقف کچھ زیادہ ہمدردانہ نہیں ہے۔ پائلٹس کی تنظیم پالپا کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں۔‘
تو کیا کراچی فضائی حادثہ میں تباہ ہونے والی طیارے کی رپورٹ کے ساتھ اس معاملے کو جوڑنا کیونکہ موزوں تھا اور بظاہر خودکش حملہ لگنے والی تقریر کہیں سرجیکل سٹرائیک تو نہیں تھی؟
اس بارے میں پی آئی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’ایئرلائن کی انتظامیہ کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں اور یہ سارا عمل کچھ ٹھیک نہیں لگتا۔‘
جبکہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس صورتحال پر حکومت کی کارکردگی پر طنز کرتے ہوئے دو ٹوئٹس کیں جس میں انھوں نے لکھا کہ ’عمران خان کی حکومت نے پی آئی اے کا بحران حل کر دیا ہے، ایک طیارہ حادثے کو سلجھاتے پوری ائیر لائن بند۔‘
پی آئی اے کے ٹکڑے کر کے اسے بیچے جانے اور باقی ماندہ ایئرلائن میں ایئرفورس کے مزید ریٹائرڈ افسران کو بھرتی کیے جانے کی خبروں کو پی آئی اے کے ترجمان مسترد کرتے ہیں تاہم اس بات کا مزید جواب ہمیں یورپیئن ایجنسی کے خط سے ملتا ہے اور اس خط کے سیاق و سباق میں اس کے بارے میں اشارے موجود ہیں۔ جس کے لیے ہمیں اس خط کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
خط میں ایسا کیا ہے؟
یوروپیئن ایئر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹرک کائی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’پی آئی اے کی تھرڈ کنٹری آتھرائزیشن (غیر یوروپی ممالک کے لیے پروازوں کا اجازت نامہ) 17 مئ 2016 کو جاری کیا گیا تھا۔‘
یاد رہے کہ ایازا کے اجازت نامے کی شرائط کے تحت ایازا پی آئی اے کے معاملات کی گاہے بگاہے نگرانی کرتی رہتی ہے اور یہ اس کے نگرانی کے عمل کا حصہ ہے جس کے تحت ایئرلائن بلاروک ٹوک یورپی ممالک کے لیے پروازیں چلا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ایازا اور پی آئی اے کے درمیان دو مشاورتی اجلاس جرمنی کے شہر کولون میں واقع ایازا کے صدر دفتر میں 13 جون 2019 اور 3 ستمبر 2019 کو ہوئے تھے۔
ان دونوں اجلاسوں کے نتیجے میں ملنے والی معلومات یا آڈٹ کے تجزیے کے نتیجے میں ایازا نے چھ ایسے نکات اٹھائے جو اس کے معیار کے مطابق لیول ٹو یعنی دوسرے درجے کے بنتے ہیں۔
ایازا کے دوسرے درجے کے نکات کا مطلب ہے ایسی باتیں جو عدم تعمیل کے زمرے میں آتیں ہیں۔ یعنی ایسے افعال یا غلطیاں جو ایئرلائن کی جانب سے ایازا یا شکاگو کنونشن کے عدم تعمیل کے زمرے میں آتی ہیں۔
اس کے نتیجے میں پی آئی اے نے اپنی جانب سے ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کا منصوبہ پیش کیا جسے ایازا نے منظور کیا۔ اس منصوبے پر علمدرآمد کے حوالے سے پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر ایازا نے پانچ نکات پر مطمئن ہو کر معاملہ ختم کر دیا۔
جبکہ ایک معاملے پر جو ’سیفٹی مینیجمنٹ‘ کے حوالے سے تھا پی آئی اے ایازا کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی حالانکہ اس کی تکمیل کے لیے پی آئی اے کو کافی مہلت دی گئی تھی۔
جس کی وجہ سے ایازا نے اس معاملے کی درجہ بندی لیول ٹو سے لیول ون کر دی۔ لیول ون کا مطلب ہے ایاسا کے قوانین کی ایسی خلاف ورزی جس کے نتیجے میں ’طیاروں کے تحفظ کے لیے درکار ضروریات پر سمجھوتہ ہو سکتا ہو۔‘ اس لیول کے نکات یا نتائج کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
ایازا کے مطابق ’ایئرلائن حفاظتی اقدامات کے نظام کے تمام عناصر کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس کی توقع اس سے شکاگو کنونشن کے ضمیمہ چھ کے حصہ نمبر 1 اور 19 کے تحت اس سے کی جاتی ہے۔‘
ایوی ایشن سیفٹی مینیجمنٹ سسٹم ایک منظم طریقہ ہے جس کے تحت ایئرلائنز اپنے انتظام معاملات اور احتساب کے حوالے سے پالیسیوں اور طریقہ کار کو مربوط کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد طیاروں اور عملے کے تحفظ کو بہتر بنانا ہے جو کہ نتیجتاً مسافروں کے تحفظ پر منتج ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر کا خط، کراچی حادثہ اور ریاست پاکستان کے ساکھ پر عدم اعتماد کا اظہار
اس کے بعد خط میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی کے بیانات کا تذکرہ ہے۔ مگر اس تذکرے کے بعد حکومت پاکستان اور پاکستانی پائلٹس کے لائسنسز کے حوالے سے وہ تبصرہ ہے جو بہت ہی تباہ کن ہے۔ دو مقامات پر ایازا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کھل کر ریاست پاکستان یعنی خصوصی طور پر سول ایوی ایشن کے کردار اور اس کے نظام پر مکمل طور پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’ایازا کو ان معلومات (غلام سرور خان کی تقریر) کی بنیاد پر تشویش ہے کہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنس اور یہ پاکستان جو کہ آپریٹر (پی آئی اے) کو چلانے والی ریاست ہے موجودہ صورتحال میں اس قابل نہیں ہے کہ وہ آپریٹرز (پائلٹس) اور طیاروں کی تصدیق اور نگرانی کا کام قابل اطلاق بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کر سکے۔ اس کی بنیاد پر ایازا کا کہنا ہے کہ اسے یہ قدم اٹھانے کی ضرورت پڑی۔
اس سب کے نتیجے میں ایازا نے 26 جون کو پی آئی اے کو خط لکھا اور شو کاز طلب کیا کہ کیوں نا پی آئی اے کا یورپ آنے جانے کا اجازت نامہ معطل کر دیا جائے۔ جس کے نتیجے میں پی آئی اے کو اپنی رائے دینے کا ایک اور موقع دیا گیا۔
اس کا جواب پی آئی اے نے 28 جون کو ایک جوابی خط میں دیا جس میں پی آئی اے نے اپنی رائے اور اضافی معلومات فراہم کیں مگر ایازا نے اس سب کو ناکافی قرار دیا۔
اس خط میں ایازا کے ڈائریکٹر نے لکھا ہے کہ اسے بہت ساری ’بے ضابطگیاں‘ ملیں جن میں سے بعض ’غیر منطقی‘ بھی ہیں۔ اس کی ایک مثال انھوں نے خط کے اندر درج بھی کی ہے۔
لیکن پی آئی اے کے کراچی طیارہ حادثے کے بعد آنے والی ابتدائی رپورٹ کے جو نتائج سامنے آئے ان سے ایازا کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ اس حادثے میں حفاظتی انتظامات کے نظام میں دفاع اور بچاؤ کے متعدد اقدامات کی خلاف ورزیاں کی گئیں تھی جس کی بنیاد پر ایازا کا کہنا ہے کہ اسے تشویش ہے کہ سیفٹی مینیجمنٹ کا نظام اپنے بنیادی مقصد کا حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کو 24 روز کی توسیع دی گئی جو 24 مئی سے 17 جون تک تھی۔
پائلٹس کے لائسنس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایازا کا کہنا ہے کہ پی آئی اے نے اسے بتایا تو ہے کہ اس نے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ فہرست میں موجود پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا ہے مگر ایازا کی تشویش اس سے کم نہیں ہوئی کیونکہ اسے اس بات کے قوی اشارے ملے ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی پائلٹس کے لائسنس غلط ہیں۔
لہذا ایازا کو اب یہ اعتماد نہیں کہ پاکستان بحیثیت پی آئی اے آپریٹر کے قابل ہے یا نہیں اور دوسرا یہ کہ کیا پاکستان موثر طریقے سے ملک میں تصدیق شدہ آپریٹرز عملے (پائلٹس) کی قابلیت اور خاص طور پر شکاگو کنونشن میں وضع کردہ معیارات کے مطابق درکار قابلیت کی ہر وقت پابندی کر سکتا ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے دوسری بار سنگین اقدام
دس جولائی 2006 کو پی آئی کا ایک طیارہ ملتان کے ہوائی اڈے سے اڑنے کے بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پی آئی اے پر باریک بینی سے چھان بین شروع ہوئی جو پانچ مارچ 2007 کو پی آئی اے کے 42 میں سے صرف نو طیارے چھوڑ کر باقی سب پر یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی نے یورپ آنے جانے پر پابندی لگا دی تھی۔
یاد رہے کہ اسی دوران پی آئی اے کے یورپ میں اہم ترین روٹس بند کیے گئے جن پر اب خلیجی ممالک کی ایئرلائنز یا ٹرکش ایئرلائنز مسافروں کو لاتی لے جاتی ہیں۔ ان میں ایمسٹرڈیم، فرینکفرٹ اور دوسرے کئی روٹس شامل ہیں۔
یہ پابندی چار مہینے رہی جسے یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی کے معائنے کے بعد جزوی طور پر جولائی میں اٹھا لیا گیا اور 29 نومبر2007 میں تمام طیاروں پر سے یہ پابندی اٹھا لی گئی۔
کیا ان حالات کو روکا جا سکتا تھا؟
پی آئی اے میں حالات آج سے نہیں کافی عرصے سے خراب ہیں جنھیں ٹھیک کرنے کی سنجیدہ کوششیں 2016 سے شروع کی گئیں جب ایازا نے پاکستان کو اجازت نامہ دیا۔ ان میں بڑے پیمانے پر بہتری اس وقت آئی جب چھ نکات میں سے پانچ پر ایازا کی تسلی ہوئی تھی۔
ہوابازی سے متعلق مختلف افراد سے بات کرنے پر یہ علم ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے بارے میں عدم توجہی جس کا اظہار موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں دیگر حکومتی بحرانوں کی وجہ سے ہوا اس کی وجہ سے یہ حادثہ ہونے کو تھا۔
حکومت کی جانب سے پوچھ گچھ ختم ہونے اور مشرف رسول سیان کے برطرف ہونے کے بعد یہ معاملہ پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
یہاں تک کے ابتدائی دنوں میں اس وقت کے وزیرخزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم کے ساتھ بڑی شد و مد کے ساتھ اجلاس ہوئے، پی ائی اے کی بحالی کے لیے نئے بزنس پلان پیش کیے گئے، بڑے دعوے کیے گئے اور پھر پلٹ کر خبر ہی نہیں لی گئی۔
حال ہی میں کراچی طیارہ حادثہ کے بعد ہونے والے اجلاسوں میں پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک نے وزیراعظم سے اس متعلق شکوہ بھی کیا جس پر وزیراعظم نے اگلے ہی روز اجلاس رکھنے کا فیصلہ صادر فرمایا مگر وہ اجلاس بھی دو تین دن کے بعد ممکن ہوا۔
اس دوران ارشد ملک کا کیس بھی عدالت پہنچا جس دوران ارشد ملک کئی ہفتے غیر موثر رہے اور انتظام ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جاتا رہا۔
حد تو یہ ہے کہ ایئر مارشل عاصم سلیمان کو جبری طور پر رخصت کیے جانے کے بعد موجودہ حکومت نے گذشتہ تقریباً دو برسوں سے سول ایوی ایشن کا ڈائریکٹر جنرل ہی مقرر نہیں کیا۔ یعنی دو برسوں سے سیکرٹری ایوی ایشن ایڈ ہاک بنیادوں پر سول ایوی ایشن کو چلا رہے ہیں۔
جبکہ ذمہ داریاں سول ایوی ایشن بورڈ کے ذمہ ہیں جس کی سربراہی ایئرمارشل احمر شہزاد کے پاس ہے جو وائس چیف آف ایئر سٹاف بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایئر وائس مارشل تنویر بھٹی اور ایئر کموڈور ناصر رضا ہمدانی اس کے رکن ہیں۔ ان کے علاوہ چند سویلین اراکین بھی ہیں۔
یاد رہے کہ تاریخی طور پر سول ایوی ایشن ایئرفورس کے حاضر یا ریٹائرڈ افسران ہی چلاتے رہے ہیں۔
اپیل کا مرحلہ
پی آئی اے اس فیصلے کے خلاف اگلے دو مہینوں میں فیس ادا کر کے اپیل دائر کر سکتا ہے جس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ ایازا چھ مہینے کے دوران پی آئی اے کے اجازت نامے کو بحال کر سکتا ہے جب وہ پی آئی اے کے اصلاحات کے منصوبے سے مطمئن ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہونے کی صورت میں اس معطلی میں تین ماہ کی توسیع کر سکتا ہے جس کے بعد اس اجازت نامے کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
پی آئی اے کی اپیل اس بار اتنی آسان نہیں ہو گی کیونکہ سوالیہ نشان صرف پی آئی اے پر نہیں، سول ایوی ایشن کی نااہلی اور ریاست پاکستان کی قابلیت، اس کی نگرانی اور اس کے طرزِ عمل پر لگایا گیا ہے جس کو درست کرنے کے لیے صرف پی آئی اے کے اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان اس معاملے کو سدھارنے میں سنجیدہ ہے اور اس بارے میں وزیر برائے ہوا بازی اور وزیر اعظم کہہ چکے ہیں تو حکومتِ پاکستان کو ایک بین الاقوامی کمیشن کا اعلان کرنا چاہیے جس میں ایازا، امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن ایجنسی، عالمی سول ایوی ایشن کی تنظیم آئی سی اے او، عالمی ایئر ٹریول تنظیم ایاٹا اور عالمی فیڈریشن آف ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن کی نمائندگی ہو اور جو پائلٹس کے لائسنسگ کے نظام کا جائزہ لے۔
اس میں موجود سقم کا جائزہ لیا جائے، اس میں کرپشن کا راستہ کھولنے والے در بند کرے اور اس معاملے پر اپنی رپورٹ کے ساتھ ایک جامع شفاف منصوبہ پیش کرے۔
پائلٹس کا کہنا ہے کہ اس طرح کا ایک کمیشن اپنی نگرانی میں تمام پائلٹس کے امتحانات اور لائسنسگ کا دوبارہ انعقاد کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے کیونکہ وفاقی وزیر ہوا بازی کے بیان کے مطابچ نہ تو اس وقت سول ایوی ایشن میں ایسے لوگ موجود ہیں جو لائسنسگ کے معاملات پر قابلیت رکھتے ہیں نہ ہی ان کا نظام ایسا ہے جس پر پائلٹس یا عالمی تنظیمیں اعتماد کر سکتی ہیں۔
مثال کے اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے کہ سول ایوی ایشن کے ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر خالد محمود کا پائلٹنگ سے کیا تعلق ہے کیونکہ پیشہ وارانہ طور پر وہ ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر رہے ہیں۔
جب پی آئی اے کے ایک سینیئر اہلکار سے پوچھا کہ اب آگے کیا ہو گا تو انھوں نے ایک سطر میں جواب لکھا ’ایمانداری سے بتاؤں یہ بقا کی جدوجہد ہے، ورنہ ہماری دکان تو بند ہو چکی ہے۔‘
تاہم ایک اہلکار کے خیال میں ’پی آئی اے بند نہیں ہو گی مگر انھیں سخت اقدامات کر کے اپنے گھر کی صفائی کرنی ہو گی اور ریگولیٹر (سول ایوی ایشن اتھارٹی) کی مکمل تنظیم نو کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو ایسا ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔‘
ان کے خیال میں کیونکہ ’ایوی ایشن ڈویژن اور سول ایوی ایشن کسی بھی قسم کی اصلاحات کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ وہ ان پانچوں ‘ذمہ دار سمجھے جانے والے‘ افراد کو دفن کرنا چاہتے ہیں اور یوں ان کے نزدیک یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ سول ایوی ایشن کو بند بھی کردیتے ہیں تو بھی کسی کو پرواہ نہیں ہوگی کیونکہ قوم کے جذبات صرف پی آئی اے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘