مسلم لیگ کے سیاسی حقوق اور کانگریس کا ردعمل (قسط 6)
“احمد علی کورار”
جیسا کہ پچھلے کالم میں بات کی گئی کہ 1909 کے انڈین ایکٹ میں جسے عرف عام میں منٹو مارلے اصلاحات بھی کہا جاتا ہے مسلمانوں کے لیے اس ایکٹ میں جداگانہ انتخابات کے حق کو تسلیم کیا گیا۔امپریل لیجسلیٹیو کونسل میں سیٹیں بڑھا کر 60 کی گئی تھیں جن میں 27 سیٹیں انڈینز کے لیے مختص کی گئی تھیں اور ان 27 میں مسلمانوں کا جو کوٹہ بنتا تھا وہ تھی چھ نشستیں باقی 21 جنرل سیٹوں پربھی مسلمان الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔کانگریس کے لیے بڑا دھچکا تھا اور وہ کسی صورت جدا گانہ انتخابات کے حق میں نہ تھی۔
ایک طرف تقسیم بنگال،ایک طرف شملہ وفد ،ایک طرف سیاسی پارٹی کا قیام اوراب 1909 کے انڈین ایکٹ میں جدا گانہ انتخابات کا حق۔بھائی مسلمان تو اپنی جدو جہد میں کامیابی ہوتے نظر آرہے تھے اب یہ سب کچھ کانگریس کو کیسے ہضم ہوتا عدم تعاون تحریک peak پر جارہی تھی ۔برٹش کو پریشر کر نے کے لیے ان کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کیا گیا۔
لیکن مسلم لیڈرشپ آگے کا سوچتی جاتی۔۔
کانگریس کا جب برٹش پر پریشر بڑھتا گیا تو 1911 میں برٹش انڈیا میں دو ایگز یکٹیو آرڈرز پاس ہوئے۔
1 دہلی برٹش انڈیا کا دارالحکومت 2.تنسیخ تقسیم بنگال۔
1911 تک کلکتہ برٹش انڈیا کا دارالحکومت رہا۔اب تنسیخ تقسیم بنگال سے مسلمان افسردہ ہو گئے، یہ کیا ہو گیا؟
ایک بات تو عیاں ہو گئی کہ برٹش Violence کی زبان سمجھتی ہے ۔
دلچسپ بات یہ کہ 1912 میں پھر بنگال کی تقسیم ہوئی لیکن اس بار کوئی شور شرابا نہیں ہوا کانگریس خاموش رہی۔1912 میں اسی یونائیڈڈ بنگال کے مغربی حصوں سے بہار جبکہ جنوبی حصوں سے اڑیسہ کا صوبہ بنایا گیا۔یہ دو صوبے بنے اس میں 90 فیصد اکثریت ہندووں کی تھی۔ان دو صوبے بننے سے کانگریس کو کیونکر فرق پڑتا۔مشرقی بنگال تو اب بھی یونائیڈڈ بنگال میں ہے کانگریس کے مفاد تو مشرقی بنگال سے جڑے تھے۔
ایک بہت بڑی سازش عیاں ہو گئی۔
مسلم لیگ خائف تھی اگر وہ تنسیخ تقسیم بنگال پہ اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہےتو کانگریس پھر جدا گانہ انتخابات کے حق کو لیکر برٹش پر پریشر ڈالے گی۔اس میں کوئی شبہ نہیں،مسلم لیگ Violence سے دور تھی وہ اپنے سیاسی حقوق سیاسی طریقے سے منوانا جانتی تھی۔
اب وقت آگیا تھا کہ کوئی بیچ کا راستہ نکالا جائے کسی طرح اختلافات ختم کیے جائیں کیونکہ کانگریس کو اب بھی جدا گانہ انتخابات کا حق ہضم نہیں ہو رہاتھا۔اب ان دونوں سیاسی پارٹیوں کو ایک ہی پیج پر لانا کو ئی سہل کام نہ تھا۔لیکن ایک شخص تھا محمد علی جناح جنھوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے ان دونوں سیاسی پارٹیوں کو ایک پیج پر لانے کی بھر پور کوشش کی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ایک ہی پیج پہ لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب ان سیاسی پارٹیز کا مقصد ایک ہی ہوگا بلکہ جو اختلافات اور اعتراضات تھے وہ دور کرنا تھا۔یاد رہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کانگریس کے ممبر تھے اور 1910 میں کانگریس کی طرف سے امپریل لیجسلیٹیو کونسل کے ممبر بنے تھے۔دلچسپ بات یہ کہ 1906 سے 1920 تک قائداعظم کانگریس کے ممبر رہے لیکن انھیں پارٹی میں اس عرصے میں کوئی عہدہ نہیں ملا۔
(جاری ہے)