منتخب تحریریں

ایک نیم سنجیدہ کالم !

Share

ان دنوں سیاست گرگٹ کی طرح ہو گئی ہے۔ ہر لمحے رنگ بدلتی رہتی ہے چنانچہ تجزیہ کاروں کو فیصلہ کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دراصل قومی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والوں کا محبوب ایک دن کوئی اور ہوتا ہے اور اگلے دن پتا چلتا ہے کہ محبوب کو چلتا کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ کسی اور نے لے لی ہے۔ افتخار عارف نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے ؎

یکایک یکایک یہ کیا ہو گیا

کہ انڈے پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا

مگر سچی بات یہ ہے کہ سیاست ہمارے ہاں کبھی مضبوط قدموں پر کھڑی ہی نہیں ہو سکی، تمام سیاستدانوں کا خیال ہے کہ ملکی مسائل کا حل صرف ان کے پاس ہے۔ بقول افتخار عارف ؎

جاتے ہو کدھر کو کدھر کا خیال ہے

بیمار دانتوں کا یہی ہسپتال ہے

مگر دوسری طرف یہ سیاستدان اپنی جماعت کی تنظیم کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے۔ جمہوریت جمہوریت پکارے چلے جاتے ہیں مگر اپنی جماعت میں انتخابات بھی نہیں کراتے۔ یہ مرض ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں بہت عام ہے، ہم سب لوگ آزادانہ اظہارِ رائے کے پرچارک ہیں لیکن جب کوئی ہمارے منہ پر ہمیں برا بھلا کہتا ہے تو اس کا یہ قصور سات پشتوں تک معاف نہیں کرتے چنانچہ ان دنوں جبکہ لوگ منہ پھٹ ہو گئے ہیں ایسے لوگوں سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ بقول افتخار عارف

اپنے سامان کی خود حفاظت کریں

ہماری سیاست کا ایک المیہیہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد اس کا بیٹا اور اس کے بیٹے کے بعد پھر اس کا بیٹا سیاست میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ جمہوریت ہے ہی جمہور کی رائے کے احترام کا نام۔ اب اگر لوگ کسی کو ووٹ دیتے ہیں تو اعتراض کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ تاہم میرے خیال میںپے در پے انتخابات کے نتیجے میں وہ قیادت ضرور سامنے آئے گی جس کا خواب ہم سب دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ بقول افتخارعارف؎

بس اسٹاپ پہ پوچھیں لوگ اور چوک میں کھڑے سپاہی

ٹیوٹا ہائی ایس 2257ابھی تلک نہیں آئی

دراصل قوموں کی زندگی میں اس طرح کے ادوار عارضی ہوتے ہیں ، جو قومیں ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر جدوجہد ترک کر دیتی ہیں وہ ’’لوزر‘‘ (Looser) ہوتی ہیں، اس کے برعکس نامساعد حالات کا مقابلہ جواں ہمتی سے کرنے والی قومیں ایک دن منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام میں پائی جانے والی خرابیوں سے کہیں زیادہ بڑی خرابی آمریت ہے۔ ہمیں کبھی اور کسی بھی حال میں میں اپنی امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے اور اس میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرنے کا سوچا جائے تاکہ یہ جو ہم گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے، اس کا تدارک ہو سکے۔ بقول افتخار عارف ؎

یہ جینا بھی کوئی جینا ہے

جہلم کے آگے دینہ ہے

میرے نزدیک جمہوری نظام میں جن اصلاحات کی ضرورت ہے ان میں سے سب سے اہم اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے دور رہنا ہے اور جو اس کے علاوہ ہیں وہ بھی گنوائے دیتا ہوں:

(1) جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے تاکہ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی گئی موروثی نشستوںکی لعنت سے ہماری جان چھوٹ سکے اور ان نشستوں سے بہتر امیدوار سامنے آسکیں۔

(2) ہر قسم کی مداخلت سے آزاد الیکشن کمیشن قائم کیا جائے جس کا سربراہ ملک کی انتہائی قابل احترام اور غیرمتنازع شخصیت ہو ۔

(3) قبضہ گروپ سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار ،تاجر اور صنعتکار طبقے میں موجود ذخیرہ اندوز اور گراں فروش یا اسی طرح کے کسی دوسرے معاشرتی جرم میں ملوث امیدواروں کو اسی سنجیدگی سے نااہل قرار دیا جائے جس سنجیدگی سے جعلی ڈگری والوں کو نااہل قرار دیا جا تا ہے یا کیا جانا چاہئے۔

(4) الیکشن پر اٹھنے والے اخراجات کو مزید کم کیا جائے اور یہ پابندی صرف کاغذوں میں نہ رہے بلکہ اس پر پوری سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

اس حوالے سے تجاویز تو اور بھی بہت سی ذہن میں تھیں چنانچہ اس موضوع پر ایک نہیں دسیوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ بقول افتخار عارف ؎

یہ کس مضمون سے پالا پڑ گیا ہے

قلم میرے پہ چھالا پڑ گیا ہے

سو میرا ارادہ ابھی اس داستان کو مزید دراز کرنے کا تھا لیکن ایک دوست نے اچانک دخل در معقولات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھے بغیر یہ کالم پڑھنا شروع کر دیا۔ کالم پڑھنے کے بعد اس نے غصیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’اس بے ہودہ سے کالم میں تم نے افتخار عارف کے نام سے جتنے بھی شعر درج کئے ہیں ان میں سے ایک بھی اس کا نہیں‘‘ میں نے جواب دیا ’’افتخار میرا دوست ہے، اور میں دوست نواز ہوں چنانچہ شعر کسی کا بھی ہو اور کیسا بھی ہو، میں تو نام اسی کا لکھوں گا‘‘ یہ سن کر اس نے ’’نان سینس‘‘ کہا اور زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے ’’سینس ‘‘کی کوئی بات کی تھی۔