چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
میں جس پرائیویٹ آرگنائزیشن میں نوکری کیاکرتا تھا اس کے مالک اکرم سلطان تھے۔ وہ تب سندھ سے سینیٹر بھی تھے۔ حیات ہیں اورعمر کے تقاضوں کے باعث اپنا کاروبار بچوں کو منتقل کرکے فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑے مزے اوردھڑلے کے آدمی تھے۔ گفتگو بڑی مزیدار کیا کرتے تھے۔ دلچسپ اوردانائی سے بھرپور۔ ایک محاورہ کبھی کبھار سناتے تھے کہ پیسہ اوہ جیڑا پلے‘ گھوڑی اوہ جیڑی تھلے‘ حکم اوہ جیڑا چلے‘ یعنی پیسے وہ جو آپ کی جیب میں ہوں‘ گھوڑی وہ جو آپ کے نیچے ہو اورحکم وہ جس پر عمل ہو۔ فی الحال اس محاورے کے تیسرے حصے، یعنی ‘حکم اوہ جیڑا چلے‘ پر بات ہوجائے۔
یہ جو لفظ ہے حکمران‘ یہ ایسا ہی سمجھیں جیسا جہازران کا مطلب جہاز چلانے والا ہے ویسے ہی حکمران کا مطلب حکم چلانے والا۔ اسے اگر درست لکھا جائے تو دراصل اسے حکم ران لکھا جانا چاہیے؛ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لفظ‘ حکومت بھی اسی حکم سے نکلا ہے۔ اب ہمارے ہاں صورتحال ایسی عجیب ہے کہ صدیوں سے مستعمل الفاظ کے مفاہیم کا تیاپانچہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اب حکمران سے مراد حکم چلانے والا نہیں بلکہ مال کمانے والا، موج میلہ کرنے والا، ہمارے پیسوں پر عیش کرنے والا اورکسی قاعدے، ضابطے سے بالاتر شخص ہے کیونکہ یہ وہ سب کام ہیں جو ہمارے حکمران کرتے ہیں۔ ایک نہیں کرتے تووہ حکم پر عملدرآمد والا کام ہے۔ اپنے بزدار صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ آئے روز فرماتے ہیں‘ مہنگائی کرنے والوں کونہیں چھوڑیں گے‘ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کواب کوئی رعایت نہیں دی جائے گی‘ آٹا اورچینی مافیا کو لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اسی قسم کے دیگر درجنوں بیانات لیکن مجال ہے کسی ایک بات پر عمل ہوجائے۔بندہ پوچھے‘ ایسے حکمران کس کام کے جب ان کا کوئی حکم ہی نہ چلتا ہو؟
ویسے تو کئی عشروں سے ہی ملک میں طوائف الملوکی اور افراتفری کا عالم ہے لیکن جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے سارا کچھ چوڑ چپٹ ہو گیا ہے۔ اب گزشتہ ایک دوسال میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو صاف نظرآتا ہے کہ حکمران نظام کی بہتری اورمافیاز کے قلع قمع کیلئے مخلص نہیں۔ ان کے پاس ان معاملات سے نمٹنے کا نہ کوئی منصوبہ ہے اورنہ ہی ارادہ۔ دھمکیوں، بیانوں اور تقریروں کے علاوہ اور کوئی کام نہ آتا ہے اور نہ ہی کرنے کا ان کے ذہن میں کوئی خیال ہے۔
چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی، حکومت سوئی رہی۔ قیمت بیالیس روپے فی کلو سے پچاس ہوئی کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ پچاس سے ساٹھ ہوئی سب چین سے سوئے رہے۔ ساٹھ سے ستر ہوئی، کمیشن بنا دیا۔ ستر سے پچھتر ہوئی، کمیشن کی رپورٹ جاری کردی گئی۔ پچھتر سے اسّی ہوئی کمیشن کی سفارشات پر عمل کا اعلان کردیا۔ اسی سے پچاسی روپے ہوگئی۔ جیسے لوگ دیوان حافظ سے فال نکالتے ہیں حکومت نے اس پچاسی روپے کلووالے ہندسے سے ویسے ہی فال نکالی اور 1985ء سے چینی ملوں کا فرانزک آڈٹ کروانے کا اعلان کردیا۔ اگر کام نہیں کیا توچینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے نہیں کیا۔ بیانات کی حد تک اور کمیشنوں کے قیام تک سب ٹھیک نظرآتا ہے لیکن عوام کو لٹنے سے بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ حکومت فضول بھاگ دوڑ اور کاغذی کارروائی میں مصروف رہی اورچینی مافیا نے عوام کی جیب سے اڑتالیس ارب روپے نکال لیے۔ کسی ستم ظریف نے ایک شعر بھیجا ہے۔ قارئین کی تفنن طبع کیلئے حاضر خدمت ہے:
جے ویکھاں تیرے عملاں ولے کجھ نہیں تیرے پلے
جے ویکھاں تقریراں ولے، بلے، بلے، بلے
یعنی جب میں تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا تو دامن میں کچھ بھی نظر نہیں آتا؛ تاہم جب تقریروں کو دیکھوں توکیا ہی کہنے۔
آٹے کا بحران آیا تو حکمران کہیں نظر نہ آئے۔ آٹا چالیس، بیالیس روپے فی کلو سے ستر روپے فی کلو تک فروخت ہوتا رہا‘ حکمران سوئے رہے۔ جب کہرام مچا تب ہوش آیا‘ تب صورتحال یہ تھی کہ وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے ہوئے کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ایک بہت تگڑے بیوروکریٹ اور اسمبلی میں کے پی کے سے تعلق رکھنے والی طاقتور لابی کے خوف سے پنجاب حکومت لاچار بنی بیٹھی رہی اور یہاں سے سستی گندم خیبر پختونخوا چلی گئی جہاں وہ مہنگے داموں فروخت ہوئی اوریہاں پنجاب میں گندم کی شارٹیج کا شورمچا تو یہاں ذخیرہ اندوزوں اور فلورملز مالکان نے گوداموں میں موجود گندم اور آٹا مہنگے داموں فروخت کرکے کروڑوں کما لیے گئے۔دونوں طرف کے عوام کو لوٹ کر جیبیں بھرلی گئیں۔ مزید یہ ہواکہ کے پی کے لے جانے کی آڑ میں گندم پنجاب سے سمگل ہو کرپہلے کے پی کے اور پھر وہاں سے افغانستان چلی گئی، سمگلروں نے اربوں روپے کما لیے اورحکومت ایسے تماشائی کاکردار ادا کرتی رہی جو سٹیڈیم میں بیٹھا اپنا گلا پھاڑتا رہتا ہے، لیکن اس شورشرابے کا کھیل پر رتی برابراثر نہیں پڑتا۔
کورونا کے مسئلے پر حکومت کی کسمپرسی پرسب سے زیادہ ترس آتا ہے۔ شروع شروع میں ہینڈ سینی ٹائزرز بلیک ہوئے‘ پھر جس نے جیسا جی چاہا ویسا سینی ٹائزر بنایا اور مارکیٹ میں بیچ کر پیسے کمانے شروع کر دیئے۔ نہ کسی نے قیمت کو کنٹرول کیا نہ کسی نے کوالٹی چیک کی۔ یہی حال فیس ماسک کا ہوا‘ کسی کو یقین نہیں کہ وہ اپنے منہ پر جو دھجی لپیٹے ہوئے ہے وہ کس حد تک کارآمد ہے ؟ پھر دوائیوں کا مسئلہ شروع ہوگیا۔ امریکہ میں عمران خان کے طبیعت شریک برادر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک گولی کو کورونا کیلئے قابل استعمال قراردیا‘ یہاں پاکستان میں لوٹ پڑ گئی۔ دوائی کی قیمت دس گنا بڑھ گئی اور وہ مارکیٹ میں غائب کر دی گئی۔ کسی ستم ظریف نے ایک وڈیو میں سنامکی کو کورونا کا تیربہدف علاج قراردیا۔ یہ مقبولیت میں سال کی تیسری مقبول ترین وڈیو قرار پائی۔ پہلے نمبر پر مختارا، دوسرے پر ہمارے وسیب کی دانشور ٹائپ وزیر ماحولیات زرتاج گل اور تیسرے نمبر پر سنامکی والی وڈیو رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محض قبض کشائی کیلئے استعمال ہونے والی یہ دیسی جڑی بوٹی دوسو روپے فی کلو سے اڑھائی ہزار روپے فی کلو ہو گئی۔
آکسیجن گیس کا سلنڈر اول تو ملتا نہیں اور اگر ملتا ہے تو چارگنا قیمت پر۔ کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریض اپنا پلازما تین لاکھ سے پانچ لاکھ روپے فی بیگ علاوہ جہاز کی ٹکٹ (دوسرے شہر سے آنے کی صورت میں) بیچ رہے ہیں۔ اس اخلاقی دیوالیہ پن اور لوٹ مار پر نہ بیچنے والوں کو حیا آئی اور نہ حکومت کو ہوش آیا۔ اڑتالیس روپے والی اے زیڈ ایم گولی بائیس سو روپے کی، ڈیڑھ سو روپے والی میتھائل فینی ڈیٹ بارہ سو روپے کی۔ بیکلوفن 100 روپے کے بجائے 1100روپے کی اور ایچ سی کیو کی گولی 363 روپے کے بجائے 1000 روپے میں بک رہی ہے۔ نیوروبیان، ہائیڈروکلوروکوئین، فلیجل، اریتھرومائی سین، اور ڈیکسا میتھاسون بلیک میں بک رہی ہیں۔ تھرمل گن بارہ سو روپے سے اڑھائی ہزار روپے اور خون میں آکسیجن کی شرح فیصد ماپنے والا آکسی میٹرڈیڑھ ہزار سے پانچ ہزار روپے کا ہوگیا ہے۔ کورونا کے مریض دواؤں اور درکار آلات کی شارٹیج اور بلیک میں فروخت کے باعث خوار و خستہ ہو رہے ہیں۔ ڈریپ سویا ہوا ہے۔ حکومت بیہوشی کی کیفیت میں ہے۔ وزیراعظم کو سوائے نواز شریف اور زرداری کو رگڑنے کے اور کوئی کام نہیں جبکہ بائیس کروڑ عوام لاوارث، بے حال اور لاچار ہیں۔ وزیر، مشیر اپنی اپنی جگہ پر مصروف عمل ہیں۔ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے موقعے پر ایک شعر پڑھا جاتا ہے کہ
نہ انجن کی خوبی، نہ کمالِ ڈرائیور/ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
دوسرا دوست بولا: اسے آپ ابھی تک چلنا کہتے ہیں؟