Site icon DUNYA PAKISTAN

سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

Share

اس دفعہ معاملہ سیاست کا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ حساس، سنجیدہ اور پیچیدہ ہے۔ کرکٹ کی جس طرح تباہی ہو رہی ہے اس پر خاموش بیٹھنا کسی پاکستانی کے بس میں نہیں ہے۔

ہم سب کرکٹ کے کھیل کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، کرکٹ ہمارا جوش، جنون اور شوق ہے۔ ہم سیاست کی غلطیاں تو معاف کر سکتے ہیں مگر کرکٹ ٹیم کی سلیکشن میں غلطیوں کو معاف نہیں کریں گے۔

سلیکٹرز کے پاس اس بار اختیار تھا، انھیں سب کھلاڑیوں کے ماضی اور حال کا علم تھا۔ سب کی پرفارمنس بھی پتا تھی مگر اس کے باوجود غلط ٹیم چنی گئی۔ کھلاڑی کورونا کے شکار تھے، وہ کارکردگی دکھا ہی نہیں سکتے تھے تو پھر آخر انھیں چُنا کیوں گیا؟

سوال یہ ہے کہ ٹیم کی غلط سلیکشن پر سلیکٹرز سے کون پوچھے؟ چیف سلیکٹر کرکٹ کھیلتے بھی رہے ہیں اور کرکٹ کے داؤ پیچ کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ کافی عرصے سے کھلاڑی سے متاثر تھے، ان کے اہلِ خاندان بھی اس کے کرشمے میں تھے۔ اس لیے کھلاڑی کی بطور کپتان نامزدگی میرٹ سے زیادہ ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی ہے۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ سلیکٹرز، سابق ٹیموں اور ان کے کپتانوں کی کارکردگی اور رویے سے ناراض تھے اور وہ چاہتے تھے کہ میدان میں نسبتاً نئی ٹیم اتاریں۔ اس لیے انھوں نے اس ٹیم کو سلیکٹ کیا۔ اب اس میں اپنے زیادہ تر کورونا زدہ نکل آئے ہیں تو انگلیاں سلیکشن کمیٹی کی طرف تو اٹھیں گی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

سلیکٹرز، سابق ٹیموں اور ان کے کپتانوں کی کارکردگی اور رویے سے ناراض تھے اور وہ چاہتے تھے کہ میدان میں نسبتاً نئی ٹیم اتاریں۔ اس لیے انھوں نے اس ٹیم کو سلیکٹ کیا

ہو سکتا ہے کہ سلیکٹرز کا خیال ہو کہ ٹیم دیکھنے میں جوان ہے، فٹ ہے، ٹی وی سکرینوں پر بولتے ہوئے مخالفین کے چھکے چھڑا دیتی ہے، اس لیے میدان میں بھی چوکے چھکے مارے گی۔ اسی خیال سے سلیکٹرز نے پچھلے کپتان کو نو بال پر آؤٹ دے دیا۔ مگر موجودہ ٹیم کے اکثر کھلاڑی ’ڈک‘ پر آؤٹ ہوتے رہے، اب سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

کپتان درست کہتا ہے کہ اسے وکٹ ہی اچھی نہیں ملی، پچ پر گھاس نام کو نہیں بچا تھا، برسوں سے میدان کی گھاس کو برباد کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں کپتان اور اس کے بولر کیا کرتے۔ فیصل آباد کی مردہ وکٹ بولرز کا قبرستان کہلاتی ہے۔ یہاں تو دنیا کا تیز ترین بولر ڈینس لیلی بھی ہاتھ جوڑ کر کہہ گیا تھا کہ اس مردہ وکٹ پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

اب وکٹ تیار کرنے والے گراؤنڈ مین یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ وکٹ شروع سے ہی ایسی ہے، اسی وکٹ میں جان ڈال کر نتائج دکھانا پڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاسٹ بولر نہیں چلتے تو کپتان کو چاہیے تھا کہ پرانے اور تجربہ کار سپنرز کو آزماتا، وہ لازماً مثبت نتائج دیتے۔

مگر ہوا یہ کہ کپتان کو ٹیم چننے میں مکمل آزادی دے دی گئی، اس نے سرائیکی اور پٹھان دو اٹیک بولر ایسے ڈال دیے جن کا بال وکٹوں تک پہنچ ہی نہیں رہا۔ پوچھنا تو سلیکٹرز سے چاہیے کہ سب سارے کھیل کا انتظام آپ کا تھا تو ان دو اہم ترین کھلاڑیوں کے انتخاب پر آپ چُپ کیوں رہے مگر سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

کپتان کو ٹیم چننے میں مکمل آزادی دے دی گئی، اس نے سرائیکی اور پٹھان دو اٹیک بولر ایسے ڈال دیے جن کا بال وکٹوں تک پہنچ ہی نہیں رہا

کرکٹ کا حال بُرا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے پی ایس ایل کو چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ جو بھی کرکٹ بورڈ کے لیے ماضی میں کام کرتا رہا ہے اس کا احتساب ہو رہا ہے۔ مالی اور چوکیدار تک نہیں بخشے جا رہے۔ ہر میٹنگ میں کہا جاتا ہے کہ بورڈ کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، قذافی سٹیڈیم کے ارد گرد مارکیٹس میں قائم ہوٹلز اور ریسٹورنٹ کا بزنس تباہ ہو چکا ہے۔

کرکٹ بورڈ کے معاملات بہت حد تک ملکی معاملات سے مشابہہ چل رہے ہیں۔ لیکن کرکٹ بورڈ ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے سربراہ کو وزیر اعظم نے مقرر کر رکھا ہے، نہ کوئی وزیراعظم کے انتخاب پر بول سکتا ہے اور نہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے انتخاب پر۔ آخر سیلیکٹرز سے کون پوچھے؟

دورہِ انگلینڈ، بجٹ اور کورونا کا موسم، اوپر سے عوامی توقعات، ٹیم اور کپتان دونوں بہت دباؤ میں ہیں۔ مگر کھلاڑی ہمیشہ سے تھوڑے بے پرواہ، تھوڑے اکھٹر اور تھوڑے منھ پھٹ ہوتے ہیں، اسی لیے کوئی ان کے منھ نہیں لگتا۔ شاید یہی وجہ ہے کرکٹ ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کا کوئی احتساب، کوئی باز پرس نہیں، یہ باز پرس کرنی بھی سلیکٹرز نے ہوتی ہے مگر وہ چُپ ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان سے پوچھیں آپ کیوں نہیں بولتے مگر سلیکٹرز سے یہ کون پوچھے؟

توقع یہ تھی کہ نئی ٹیم چونکہ اوور سیز میں بڑی پاپولر ہے اور کپتان کی ٹیم کو بیرون ملک پاکستانی بہت سراہتے ہیں اس لیے وہ ٹیم پر سرمایہ کاری کریں گے۔ کرکٹ کے میدانوں کو سرمایہ کے ذریعے سجا دیں گے، کھلاڑیوں اور کھیل سے وابستہ لوگوں کو مالا مال کر دیں گے۔

شاید یہی توقع سلیکٹرز کو بھی تھی۔ مگر اوور سیز پاکستانی گیم کو دیکھ کر تالیاں بجانے تک محدود ہیں۔ وہ اس سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ اس پر کپتان بھی پریشان ہو گا، تماشائی کرکٹ کی معیشت کی تباہ حالی پر شدید پریشان ہیں۔ میدان اجڑ گئے ہیں۔ تماشائی شکستہ حال ہیں۔ چولہے بجھ گئے ہیں۔ کرکٹ سے وابستہ لوگ ٹیم کے اس انتخاب پر سلیکٹرز سے بہت سوال کرنا چاہتے ہیں مگر سیلیکٹرز سے کون پوچھے؟

Exit mobile version