Site icon DUNYA PAKISTAN

اعتراف، سچ، اور حق گوئی

Share

اعترافِ جرم ہو یا اعترافِ گناہ، ان دونوں باتوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے سچائی کا سامنا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ’سچائی‘ کا سامنا کرنا سخت تکلیف دہ اور دشوار ہوتاہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنا یا اس پر عمل کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ جب انسان کوئی جرم کرتا ہے تو پولیس کو اس جرم کی حقیقت کوجاننے اور اس مجرم کو سزا دلانے کے لیے پوری محنت اور ذہانت سے معاملے کی تہہ تک جانا پڑتا ہے۔ عدالت گواہوں اور ثبوت کے بغیر کوئی فیصلہ سنانے سے قاصر ہوتی ہے جس کی وجہ سے پولیس ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ وہ مجرم کو سزا دلانے کے لیے تمام شواہد کو یکجا کرکے عدالت میں پیش کر سکے۔
اعتراف ِ گناہ ایک ایسا سخت اور مشکل عمل یا احساس ہے جو انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتا ہے اورکبھی نہ کبھی انسان کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ صدق دل سے گناہ کا اعتراف کر لے۔تاہم ایسا بھی ہوتاہے کہ بہت سارے لوگ اعتراف گناہ کبھی نہیں کرتے۔ کبھی کبھی غلط الزام لگاکر اعتراف گناہ کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کسی پر الزام لگاکر اور بغیر ثبوت کے اسے سماج میں ذلیل یا رسواکرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس شخص کی زندگی عذاب بن جاتی ہے اور اس کا جینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی جان تک دے دیتے ہیں اور کچھ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے زندگی سے تنگ آکر دنیا والوں کی نظر میں پاگل کہلانے لگتے ہیں۔
اعتراف کرنا کیوں اتنا دشوار اور سخت ہوتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً سماج، خاندان، وقار، عظمت، عہدہ وغیرہ ایسی باتیں ہیں جس کے دباؤ میں آکر انسان کسی طرح جھوٹ کا سہارا لے کر اپنی غلطیوں کے اعتراف کرنے سے گریز کرتا ہے۔تاہم کبھی کبھی ان الزامات کے ذریعہ اس شخص کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ اُس انسان کی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے یا جلن یا حسد کی وجہ سے اُس سے بدلہ لینے کے لیے اس شخص کے خلاف جھوٹے الزامات لگا کر اسے ذلیل یا رسو ا بھی کیا جاتا ہے۔
سیاستدانوں میں یہ صفت عام طور پر زیادہ پائی جاتی ہے اور آئے دن ایسی خبریں سنتے ہیں کہ ہم کچھ پل کے لیے دم بخود رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئے دن جھوٹی خبروں اور الزامات سے جہاں عام آدمی پریشان ہے وہیں کچھ لوگ سوشل میڈیا کے سہارے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ کسی فرضی نام یا ٹھکانے سے کسی کو پریشان کرنا اور اس کی زندگی کو عذاب بنا دینا ایک عام بات ہو چکی ہے۔
حال ہی میں لندن کے ایک دوست کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاجب اس کے کسی جاننے والے دوست نے سوشل میڈیا پر ایک لڑکی کے پروفائل کے ذریعہ پہلے تو اس سے پیار و محبت کی باتیں شروع کیں اور پھر اسے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ کہتے ہیں کہ قاتل اپنا کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ جاتا ہے۔اس احمق انسان نے جس موبائل فون کا استعمال کیا تھا بعد میں انٹر نیٹ کی مدد سے پتہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ دراصل وہ موبائل فون نمبر اس کے قریبی دوست کا تھا۔لیکن حیرانی کی بات یہ ہوئی کہ ثبوت ملنے کے باوجود اُس نے اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ نمبر اُ س کا ہے ہی نہیں اور الٹے پریشان ہونے والے دوست پر الزام لگا دیا کہ اُس کا موبائل نمبر کسی نے ہیک کر لیا ہے۔
انگلینڈ میں ایک ایسا ہی واقعہ سامنے آیا جب 18سالہ نوجوان کے باپ نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کے بیٹے نے ریپ کیا ہے۔ دراصل کچھ مہینے قبل بیٹے نے دو لڑکیوں کا ریپ کیا تھا اور ان لڑکیوں نے مارے خوف کے پولیس کو شکایت نہیں کی۔ لیکن ایک دن باپ نے بیٹے کے موبائل پر جب اس کا یہ پیغام پڑھا کہ ’میں نے تمہاری عزت لوٹی جس کے لیے میں شرمندہ ہوں‘ تو اس باپ نے فوراً پولیس کو اپنے بیٹے کی کالی کرتوت اور موبائل فون کے ثبوت کے ساتھ پولیس کو ا طلاع دی۔ اس کے بعد باپ بیٹے کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن لے گیا اور پولس کی حراست میں بیٹے نے اقبالِ جرم کیا اور پولیس نے بیٹے کو عدالت میں پیش کیا۔ اس کے بعد عدالت نے بیٹے کو ریپ کے جرم میں دو سال کی قید کی سزا سنائی۔اس وقعہ کے بعد باپ نے کہا کہ یہ ایک نہایت دردناک اور افسوس ناک واقعہ ہے کہ جب ایک باپ کو پتہ چلے کہ اُس کے بیٹے نے کسی کا ریپ کیا ہو اور اس سے بھی تکلیف دہ یہ ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو اس کی جرم کی سزا کے لیے پولیس کو اطلاع دے۔باپ نے یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تمہارا اقرار نامہ اور سزاسے دنیا سبق لے گی اور لوگ اس جرم کے کرنے سے پہلے سوچیں گے۔

اب اس واقعہ کو سن کر ایک بات کا احساس ہوتا ہے کہ بیٹے کے جرم کو باپ نے پوشیدہ کیوں نہیں رکھا؟ یا باپ نے بیٹے کے جرم کو پولیس کو بتا نا کیوں ضروری سمجھا؟ یہ دونوں سوالات ہمارے ذہن کو جہاں جھنجھوڑ رہے ہیں وہیں ہمیں اس کا بھی درس دے رہے ہیں کہ آدمی اگر سچائی اور حق گوئی پہ قائم رہے تو اس کی زندگی پریشانیوں اور الجھنوں سے پاک رہے گی۔ اگر باپ،بیٹے کے جرم کو پوشیدہ رکھتا توبیٹا زندگی میں اسی ہمدردی اور جھوٹ کے سہارے اور کتنے جرائم انجام دیتا۔ لیکن سچائی اور حق گوئی کے سبب باپ نے بیٹے کے جرم کی پولیس کو اطلاع دے کر غلط کو غلط قرار دینے کا اصول واضح کیا اور آنے والی زندگی میں بیٹے کو جرم سے دور رکھنے کی راہ نکال لی۔
دونوں واقعات کا جائزہ لینے سے ایک بات تو صاف طور پر عیاں ہے کہ الزام اور اعتراف دونوں میں رشتہ بھی ہے اور تناؤ بھی۔ الزامات لگنا یا لگانا جہاں معہ دلیل ضروری ہے وہی اعتراف کرنا یا کروانا بھی آسان نہیں ہے۔انگلینڈ کے اٹھارہ سالہ بیٹے کے جرم نے جہاں باپ کی حق گوئی اور سچائی کے اعتراف نے بیٹے کو مجرم بنا دیا،وہیں ہمیں اس بات کا بھی پتہ چلا کہ جب کوئی جرم کرتا ہے تواس کا کوئی نہ کوئی نشان ضرور چھوڑ دیتا ہے اور جب وہ ثبوت مل جائے تو اس کی سزا یقینی ہے۔ لیکن دوسری مثال میں الزام اس قدر نا قص اور بیہودہ ہے کہ الزام لگنے والے شخص کو پریشانی اور الجھن میں مبتلا کردیتا ہے جو ایک غیر مناسب فعل ہے۔
جب ہم اس بات کاجائزہ لیتے ہیں کہ آپ نے اُس غلط کام کو نہ کیا ہو یا اُ س بات کو نہ کہا ہو تو اس کا اعتراف کرنا بذاتِ خود ایک مصیبت ہے۔مثلاً جب کوئی بغیرثبوت اورجھوٹا الزام لگائے تواُس وقت انسان ذہنی طور پر پریشان ہو جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس شخص کو کسی بات کا علم ہی نہیں ہے۔ الزام لگانے والا شخص اکثر یہ کہتے ہوئے بھی پایا جاتا ہے کہ ’اُس کا دل کہتا ہے کہ تم نے ایسا کیا ہے‘۔ تاہم جس پر الزام لگایا گیا ہے اسے اس سے کافی برہمی ہوتی ہے اور وہ ان الزاموں میں الجھ کر پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں تناؤ پیدا ہوجاتاہے۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا ایک ایسی خوبی ہے جس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے لیکن میں اس بات سے بھی پریشان ہوں کہ آج کل کچھ لوگ زبردستی اپنی انا اور ضد کے لیے آپ کو ذلیل کرنا یا آپ کی عزت کو خاک میں ملانااپنی شان سمجھتے ہیں اور یہ جھوٹی اور فریبی شان ایک نہایت کریہہ ا ور باعث شرمندگی ہونا چاہیے لیکن ایسے لوگ اس پر فخر کرتے ہیں جو کسی بھی صورت اور شکل میں سماج میں قابل قبول نہیں ہے۔

Exit mobile version