43 سال، تقریباً نصف صدی بیت گئی، مسئلہ تاریخ کا ہو تو ریکارڈ درست رکھنے یا درست کرنے میں کوئی مداہنت روا نہیں۔ ”چار جولائی1977 کو معاہدہ ہو گیا تھا‘‘ یہ دعویٰ نواب زادہ صاحب (مرحوم) کی طرف سے سب سے پہلے ایم آر ڈی کے قیام کے وقت سامنے آیا، تب مارشل لاء کا چوتھا سال تھا اور بھٹو صاحب کی پھانسی کو بھی دو سال ہو چکے تھے۔ ”معاہدہ ہو گیا تھا‘‘ تو جناب بھٹو نے اور پی این اے کے قائدین نے یہ بات مری میں ”حفاظتی تحویل‘‘ سے رہائی کے فوراً بعد کیوں نہ کہی؟ بلکہ یہ سوال تو انہیں اس وقت ضیاء الحق سے کرنا چاہیے تھا، جب مارشل لاء کے نفاذ کے اگلے ہفتے وہ ان سب سے ملاقات کے لیے مری گئے تھے، ”معاہدہ ہوگیا تھا، آپ نے مارشل لاء کیوں لگا دیا‘‘؟
ضیاء الحق نے 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا۔ ”حفاظتی تحویل‘‘ سے رہائی کے بعد بھٹو صاحب سمیت ساری قیادت رہا کر دی گئی۔ بھٹو نے ضیاء الحق اور ان کے مارشل لاء کے خلاف تندوتیز حملوں سے انتخابی مہم کا آغاز کیا لیکن ان کی کسی تقریر، کسی بیان میں یہ بات موجود نہ تھی کہ ہم معاہدے پر پہنچ گئے تھے، تم نے شب خون کیوں مارا؟ انہی دنوں پی این اے کے لیڈروں کی جو بیانات، انٹرویوز اور تقاریر ریکارڈ پر ہیں، ان میں سے بھی کسی میں ”معاہدہ ہوگیا تھا‘‘ کا دعویٰ موجود نہیں تھا بلکہ ان کا تو الزام تھاکہ بھٹو صاحب مذاکرات کو طول دے کر خانہ جنگی کی تیاری کررہے تھے۔ اس کے لیے مارشل لاء سے ایک دو روز قبل غلام مصطفیٰ کھر کی زیر قیادت جیالوں کے سٹین گن بردار جلوس کا حوالہ بھی دیا جاتا اور پی این اے والوں کے مکانوں اور دکانوں کو نشان زد کرنے کی بات بھی کہی گئی تھی کہ سرکار کی سرپرستی میں انہیں نشانۂ انتقام بننا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے سپریم کورٹ میں 5جولائی کے اقدام کو چیلنج کیا تو انہیں ”معاہدہ ہوگیا تھا‘‘ کے دعوے کے ساتھ پی این اے کی لیڈرشپ کو گواہوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا۔لاک ڈائون کی فراغت میں پرانی چیزوں پر ایک نظر ڈالنے کا موقع بھی نکل آیا۔ ان میں جنرل فیض علی چشتی سے وہ طویل انٹرویو بھی ہے جو میں نے جولائی 2006 میں، ان سے جدہ میں کیا تھا۔ جنرل صاحب عمرہ پر آئے تھے۔
ہمارا سوال تھا: فوج نے کب ٹیک اوور کا سوچنا شروع کیا؟ جواب ملا ”معاملہ اس وقت بہت سیریس ہوگیا تھا جب تین بریگیڈیئروں نے استعفے دے دیئے۔ کوثر نیازی کی کتابیں پڑھیں ”اور لائن کٹ گئی‘‘۔ اس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء اور کور کمانڈرز کے ساتھ بھٹو کی میٹنگ ہورہی تھی کہ جنرل عبداللہ ملک نے کوئی بات کی جس پر جنرل چشتی نے بگڑ کر کہا کہ یہ پولیٹیکل پرابلم ہے‘ اس کا حل بھی پولیٹیکل ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ بحران کا سیاسی حل نکلے۔ سات مارچ کو الیکشن ہوتے ہیں اس کے فوری بعد تحریک شروع ہو جاتی ہے۔ کیا ہم نے 7مارچ سے 4جولائی تک حکومت کو سپورٹ نہیں کیا تھا؟ آخر ہم کب تک اپنی قوم پر گولیاں چلاتے؟ کیا چار ماہ کافی نہیں تھے، ملک کو بحران سے نکالنے اور سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے؟ تو پھر فوج کیا کرتی؟ اب کہتے ہیں کہ سمجھوتہ ہوگیا تھا‘ قوم کو وہ دستخط شدہ معاہدہ دکھائیں۔ میں اس رات ضیا کے پاس بیٹھا تھا، جنرل عارف بھی تھا کہ پیغام ملتا ہے:
These bastards are not coming on the correct path.
یہ بھٹو صاحب ضیاء کو کہہ رہے ہیں۔ مزید کہتے ہیں: You dont worry, I ‘ll do the needful ۔ مارشل لاء کا فیصلہ کور کمانڈرز کا متفقہ فیصلہ تھا۔ یہ بات بھی سامنے تھی کہ یہ High Treason ہے جس کی سزا موت ہے‘ لیکن ہم سب اس نتیجے پر پہنچے کہ اب مارشل لاء کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ آپ اکیلے نہیں، پھانسی چڑھیں گے تو سب چڑھیں گے‘‘۔
میرا سوال تھا: اس وقت آرمی چیف اور ان کے رفقا مخلص تھے کہ ملک کو بحران سے نکالنا ہے۔ بھٹو سے مخاصمت کب شروع ہوئی اور پھر آپ لوگ اس بحران میں دھنستے چلے گئے؟
جنرل چشتی نے جواب دیا ”ابتداء میں یہی منصوبہ تھا کہ 90روز میں الیکشن کروا کے واپس چلے جائیں گے۔ 5جولائی کو بھٹو کوفارغ کیا۔ پی این اے کے لیڈروں کی طرح وہ بھی ”حفاظتی حراست‘‘ میں تھے۔ کوئی انہیں گرفتار کرنے نہیں گیا۔ انہوں نے وہ رات بھی پرائم منسٹر ہائوس میں گزاری۔ 10 روز بعد ضیاء الحق انہیں ملنے گئے تھے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ ہم پہلے پی این اے والوں سے ملے۔ پھر بھٹو صاحب کے پاس گئے۔ میجر جنرل امتیاز (بھٹو کے ملٹری سیکرٹری) نے ہمیں ریسیو کیا۔ بھٹو صاحب کی معزولی کے بعد بھی ہم نے جنرل امتیاز کو واپس نہیں بلایا تھا۔ ہماری نیت تو 90روز میں الیکشن کروا کے واپس چلے جانے کی تھی۔ بھٹو آئے، ہاتھ ملایا، حال احوال پوچھا۔ ضیاء الحق نے بھٹو سے پوچھا، سر! چشتی یہاں رہے یا آپ تنہائی میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں؟ بھٹو نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی بیٹھے۔ چنانچہ دونوں میں جو بات چیت ہوئی، میری موجودگی میں ہوئی۔ بھٹو نے کہا: اچھا ہوا، آپ نے ٹیک اوور کر لیا۔ Now clean the mud۔ پھر ہم اکٹھے ملک چلائیں گے…‘‘۔
سوال: کیا بھٹو صاحب کی طرف سے ضیاء الحق کو آرٹیکل 6 کی دھمکی دی گئی تھی؟
جواب ”آپ خود سوچیں، فوج نے ٹیک اوور کرلیا ہے۔ کیا ایک معزول وزیر اعظم کی جرأت ہو سکتی ہے کہ جرنیلوں کے ساتھ اس طرح بات کرے۔ ادھر ہمارا معاملہ دیکھیں۔ We were respectful to him‘ ہمیں پتہ ہے کہ کل یہ پھر پرائم منسٹر ہو سکتا ہے۔ ہم تو پہلے بھی کہتے رہے تھے کہ آپ نئے الیکشن کروا دیں، دوبارہ منتخب ہو جائیں‘‘۔
سوال: تو پھر بھٹو کے ساتھ تعلقات کب خراب ہوئے؟
جنرل چشتی: 15جولائی کی ملاقات میں ہم نے ان سے کہا کہ ہم سب کو چھوڑنے والے ہیں‘ آپ جائیں اور اپنی سرگرمیاں شروع کریں۔ اگلے روز میں نے خود بھٹو صاحب کو چکلالہ ایئر پورٹ پر لاڑکانہ کے لیے روانہ کیا۔ شاید یہ 18 اگست تھا جب ضیاء الحق کے ساتھ پنڈی میں ان کی دوسری ملاقات ہوئی۔ مجھے بھی ضیاء نے بلا لیا۔ بھٹو نے شکایت کی کہ اخبار والے میری کردار کشی کررہے ہیں‘ انہیں روکیں۔ ضیاء نے کہا، ”یہ ہمارا کام نہیں، پریس فری ہے، وہ غلط لکھ رہے ہیں تو آپ ان پر مقدمہ کردیں‘‘ پھر بھٹو صاحب نے پولیٹیکل کیمپین شروع کی۔ میرا خیال ہے، یہ ملتان کی بات ہے‘ جب انہوں نے کہا کہ میں جرنیلوں کو الٹا لٹکا دوں گا۔ اس دن ہم مری جا رہے تھے۔ چیف آف آرمی سٹاف ہائوس پہنچ کر میں نے اجازت چاہی کہ میں میس میں ٹھہروں گا۔ ضیاء الحق نے چائے کے لیے کہا۔ میں لان میں بیٹھ گیا۔ برآمدہ آٹھ دس قدم کے فاصلے پر تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ظفر نے آ کر بتایا
Sir, The prime minister wants to talk to you
سوال: برطرفی کے بعد بھی بھٹو صاحب کو پرائم منسٹر کہا گیا؟
جواب: جی‘ تو ضیاء الحق فون سننے چلے گئے۔ بھٹو کیا کہہ رہے تھے، یہ میں نہیں سن سکتا تھا؛ البتہ ضیاء الحق کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے: نہیں نہیں سر! ایسا نہیں ہو سکتا… آپ زیادتی کر رہے ہیں‘ میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ ضیاء الحق کے یہ الفاظ بھی میں نے سنے کہ موقع ملے گا تو آپ یہ کریں گے ناں! لیکن میں یہ موقع نہیں آنے دوں گا۔ گویا کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ ضیاء الحق annoy ہو گئے۔ بھٹو نے کوئی ایسی بات کی جو انہیں ناگوار گزری۔ میرے خیال میں یہی وقت تھا جب The Things Changed۔ اس کے بعد ضیاء الحق ایک مختلف آدمی تھے‘ A Different Man۔