گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں متواتر اضافے کے بعد حالیہ دنوں میں مصدقہ متاثرین کی تعداد میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ مریضوں کی تعداد میں اس کمی کا براہِ راست اثر ملک کے نظامِ صحت پر پڑا ہے جو ماہرین صحت کے مطابق تقریباً مفلوج ہونے کے قریب تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختص 40 سے 50 فیصد انتہائی نگہداشت کے بستر اور یونٹس اب زیادہ تر خالی ہو گئے ہیں۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے سیکریٹری نبیل اعوان نے بی بی سی کو بتایا کہ محض چند روز قبل تک ہسپتالوں میں کورونا وارڈز 90 سے 95 فیصد تک مریضوں سے بھر چکے تھے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہمارے پاس ہسپتالوں میں مریض کم آ رہے ہیں اور ہائی ڈیپینڈنسی یونٹس، آئی سی یو بستر اور وینٹیلیٹرز 50 فیصد کے قریب دستیاب ہیں۔‘ تاہم انھوں نے بتایا کہ ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خود کو گھروں میں قرنطینہ کیے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ علامات نہ ہونے یا معمولی نوعیت کی علامات ہونے والے مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ کی اجازت حکومت نے تقریبا دو ماہ قبل دی تھی اور اس کا مقصد بھی ہسپتالوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنا تھا۔
تاہم اس کے بعد بھی پاکستان خصوصا کراچی اور لاہور میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ لگانے کا فیصلہ کیا تھا یعنی شہروں کے اندر صرف ان علاقوں کو بند کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جہاں مریضوں کی تعداد زیادہ تھی۔
مریضوں کی تعداد میں نظر آنے والی حالیہ کمی سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کا عروج گزر چکا ہے؟ یا پھر یہ محض وقتی ہے اور اس کی وجہ ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کا حکومتی لائحہ عمل ہے؟
مریضوں کے اعداد و شمار میں حالیہ کمی کے ساتھ صوبوں میں کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی یومیہ شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کم ٹیسٹ ہونے کی وجہ سے مریض سامنے نہیں آ رہے ہیں؟
مریضوں کی تعداد میں کمی ٹیسٹ کم ہونے کا نتیجہ؟
محکمہ صحت کے حکام کا ماننا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ در حقیقت ’ٹیسٹ اس لیے کم ہو رہے ہیں کیونکہ مریض کم سامنے آ رہے ہیں۔‘
پرائمری اینڈ سیکینڈری ہیلتھ پنجاب کے سیکریٹری کیپٹن (ریٹائرڈ) عثمان یونس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیسٹ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کوئی کورونا سے متعلقہ شکایت لے کر سامنے آئے۔
’ٹیسٹ کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی مشتبہ مریض علامات کی شکایت کے بعد سامنے آئے اور خود سے ٹیسٹ کروائے۔ اور دوسرا یہ کہ رینڈم ٹیسٹنگ کی جائے۔ وہ مشتبہ علاقوں میں کی جاتی ہے جو ہم کر چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ٹیسٹ کے اعداد و شمار میں حالیہ کمی کا مطلب یہ ہے کہ مریض نہیں ہیں جو آ کر ٹیسٹ کروائیں۔
کیا سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمتِ عملی کامیاب ہو رہی ہے؟
زیادہ تر علاقوں میں لگایا جانے والا حالیہ سمارٹ لاک ڈاؤن تاحال قائم ہے تاہم لاہور میں حال ہی میں چند ایسے علاقوں کو کھولا گیا جہاں سب سے پہلے سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ان علاقوں کو یہ یقین کر لینے کے بعد کھولا کہ وہاں موجود متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی ہو چکی تھی۔
تاہم وزیرِ اعظم پاکستان کے کورونا وائرس کے حوالے سے فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی حکمتِ عملی کو کورونا کے مریضوں کی تعداد میں حالیہ کمی کا سبب ماننے کے حوالے سے محتاط ہیں۔
’اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہو گا۔ ابتدا میں انتظامی حوالے سے کچھ کامیابی ظاہر ہوتی ہے تاہم وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کوئی بھی حکمتِ عملی کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کے لیے مقررہ وقت سے پہلے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کی تعداد میں کمی کی وجوہات میں سمارٹ لاک ڈاؤن ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
تو مریضوں کی تعداد میں کمی کے وجہ کیا ہے؟
اس حوالے سے مکمل یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم محکمہ صحت کے حکام متفق ہیں کہ اس کے پیچھے ایک سے زیادہ عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔
سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب کیپٹن (ریٹائرڈ) عثمان یونس کا کہنا تھا کہ اس کمی کی دو بنیادی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ ’لوگوں نے حفاظتی اقدامات پر زیادہ سختی سے عملدرآمد کیا ہے اور حکومتی سطح پر لاک ڈاؤن پر بھی عملدرآمد کروایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
’اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غالبا سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمتِ عملی کام کر رہی ہے کیونکہ پنجاب میں لاک ڈاؤن زیادہ کیا گیا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی زیادہ کیا گیا ہے۔‘
عثمان یونس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے علاقوں کی نشاندہی اور پھر نگرانی کا نطام پہلے سے موجود تھا جن میں مریضوں کی تعداد شہر کے دوسرے علاقوں سے زیادہ تھی اور اس ہی کے نتیجے میں وہاں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا گیا۔
’اس کے علاوہ ہماری ٹیمیں ان علاقوں میں جا کر یہ یقینی بناتی تھیں کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں ان ٹیموں نے جرمانے بھی کیے ہیں اور دیگر قانونی کارروائی بھی کی گئی ہے۔‘
’عید الفظر کے دوران وائرس بہت زیادہ پھیلا تھا‘
حکام کے مطابق کورونا کے مریضوں کی تعداد میں حالیہ کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عیدالفطر کے دنوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے وائرس کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوا تھا جس پر اب جا کر قابو پا لیا گیا ہے۔
سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب کے مطابق ’وہ افراد جو ان دنوں میں وائرس کا شکار ہوئے ان کی کانٹیکٹ ٹریسنگ وغیرہ مکمل کرنے کے بعد ان میں وائرس کے خاتمے تک جتنا عرصہ چاہیے تھا وہ حال ہی میں پورا ہوا جس کے بعد مریضوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘
وزیرِاعظم پاکستان کے کورونا فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان بھی ان عوامل کے حالیہ کمی کا سبب ہونے سے اتفاق کرتے ہیں تاہم ان کے خیال میں جو ٹھہراؤ اس وقت مریضوں کی تعداد میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا رجحان ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔
’حیاتیاتی مداخلت بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے‘
ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن سے قبل ہی مریضوں کی تعداد میں کمی کی بنیاد نظر آ رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن وہ واحد تدبیر نہیں ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی گئی تھی۔
’ماسک پہننے کی افادیت کے حوالے سے بھی لوگوں میں شعور بڑھا ہے اور بنیادی طور پر کورونا وائرس سے بچاؤ کی بنیادی تدابیر کے حوالے سے بھی آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حفاطتی اقدامات اور تدابیر پر عملدرآمد کرنے اور کروانے میں بہتری آئی ہے جو کہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی ایک وجہ ’بائیولوجیکل انٹرپلے‘ یعنی حیاتیاتی مداخلت بھی ہو سکتی ہے۔‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جراثیم یعنی وائرس، آبادی اور قدرتی ماحول بھی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عوامل بھی مریضوں کی تعداد میں کمی کا باعث بنے ہوں۔‘
’کورونا کا عروج گزر چکا ہے اگر عید پر احتیاط کا دامن نہ چھوڑا گیا‘
کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اس حالیہ کمی کے حوالے سے ڈاکٹر فیصل سلطان سمیت دیگر ماہرینِ صحت کا استدلال ہے کہ اس کے باوجود احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وبا کا ایک لمبے عرصے تک مقابلہ کرنا ہو گا جب تک کہ اس کا علاج نہیں آ جاتا۔
سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب کیپٹن (ر) عثمان یونس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ’پاکستان میں وائرس کا عروج گزر چکا ہے، جب تک کہ عید پر ایک مرتبہ پھر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد جاری رہے۔‘
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق اس وقت یہ کہنا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا عروج آ کر گزر چکا ہے قبل از وقت ہو گا۔ ’اس سوال کا صحیح جواب جاننے میں ہمیں دو ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس عرصے میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ مریضوں کی تعداد میں کمی کا یہ رجحان برقرار رہتا ہے یا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہسپتالوں اور صحت کی سہولیات میں کمی دیکھنے میں آتی ہے یا نہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کورونا کا عروج آ کر گزر بھی گیا ہو تو ’ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دوبارہ بھی وائرس کا پھیلاؤ سامنے آ سکتا ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔‘