دو تقریریں دو عمران
قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم صاحب نے ایک نہیں دوبار کھڑے ہوکر اپنے دل میں جمع ہوئی کئی باتوں کا اظہار کیا۔ان کی دونوں تقاریر کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک نہیں بلکہ دو عمران خان متوازی خیالات کی لہروں سے مغلوب نظر آئے۔
انکی پہلی تقریر کا لہجہ بہت دھیما تھا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو اس کے ذریعے انہوں نے ’’چور اور لٹیرے‘‘ پکارنے سے کافی حد تک اجتناب برتا۔نہایت فکر مندی سے بنیادی طورپر کرونا کی لائی اذیتوں پر توجہ دیتے رہے۔اس ضمن میں ان کی ایک غیر لچکدار رائے ہے۔یہ رائے لاک ڈائون کی شدید مخالف ہے۔اصرار کرتی ہے کہ اس کی بدولت دیہاڑی دار تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔کم آمدنی والوں میں روزمرہّ اخراجات کو برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔اسی باعث امریکہ جیسے امیر ترین ممالک بھی کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین کی ایجاد کا انتظار کرنے کے بجائے بتدریج اپنے کاروبار کھولنے کو مجبور ہورے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک اس تناظر میں لاک ڈائون مسلط کرنے کو سوچ بھی نہیں سکتے۔
وزیر اعظم کی مذکورہ رائے سے اختلا ف کی گنجائش کئی بنیادوں پر موجود ہے۔اس حقیقت سے مگر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لاک ڈائون کے خلاف انکی سوچ اس ملک کے غریب عوام کی مشکلات کا پُرخلوص انداز میں ادراک کرتی نظرآتی ہے۔لاک ڈائون کو بھلاکر ملکی معیشت کی بحالی کو یقینی بناناعمران حکومت کی ترجیح نظر آئی۔ اس ترجیح کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم لوگوں کو حوصلہ اور تسلی دیتے سنائی دئیے۔یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم ’’قوم کے باپ‘‘ کی مانند ہوتا ہے۔اسے عوام کو شفقت وہمدردی کی چھتری فراہم کرنا چاہیے۔
قوم کو حوصلہ دیتی تقریر کے بعد گزشتہ منگل کی سہ پہربجٹ منظوری کے تمام مراحل کی تکمیل کے بعد وہ ایک بار پھر ایوان میں کھڑے ہوگئے۔ اب کی بار جو تقریر فرمائی وہ عمران خان صاحب کی ذات سے منسوب’’غصے‘‘ کی بھرپور ترجمان تھی۔ ماضی کے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو انہوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔خواجہ آصف کے لتے لئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی نقل اُتارتے ہوئے بھداُڑائی۔اس کے بعد مگر ’’مائنس ون‘‘ کا تذکرہ کرناشروع ہوگئے۔ پیغام یہ دیا کہ وزیر اعظم کی ’’کرسی‘‘ جاتی ہے تو جائے۔ وہ اصولوں پرسمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اپنی حکومت کا بجٹ بخیروخوبی منظور ہوجانے کے بعد انہیں یہ تاثر اجاگر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کہ وزیر اعظم کے منصب سے انہیں ہٹانے کی سازش ہورہی ہے۔وہ اس سے مگر گھبرا نہیں رہے۔اقتدار آنی جانی شے ہے۔اس سے ہر صورت چمٹے رہنے کی خواہش ان کے دل میں موجود ہی نہیں ہے۔
سو طرح کی مشکلات میں گھرے عوام کو وباء کے موسم میں بقو ل عمران خان ان کے وزیر اعظم کی صورت میں میسر ہوا ’’باپ‘‘ ایسا پیغام نہیں دیتا۔منگل کے دن ہوئی تقریرکے ذریعے مگر انہوں نے پیغام یہ دیا کہ حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا تاثر پھیلاتی کہانیاں اتنی بھی بے بنیاد نہیں ہیں۔
عمران خان صاحب کے اندازِ حکمرانی کے بارے میں میرے ہزاروں تحفظات ہیں۔ان تحفظات کو میں نے منافقانہ رویے کے ذریعے چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔اس کے باوجود ایک لمحے کو بھی ان کہانیوں پر کبھی اعتبار نہیں کیا جو وزیر اعظم کے عہدے سے ان کی رخصت کے دعوے کررہی ہوتی ہیں۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری اس ا مر کی گواہی دیں گے کہ گزشتہ برس جب ’’اکتوبر-نومبر‘‘ والی سرگوشیاں پھیل رہی تھیں تو بارہا یہ سوال اٹھاتا رہا کہ 342اراکین پر مشتمل ایوان میں فقط 85ووٹوں کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ (نون) کس بنیاد پر ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے خواب دیکھ رہی ہے۔
کرونا کی وباء ان دنوں ابھی نازل نہیں ہوئی تھی۔اس برس کے مارچ سے وطنِ عزیز میں نمودار ہوئی۔اس سے نجات کی فی الوقت کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔کرونا سے قبل ہی ہماری معیشت کی حالت البتہ پتلی ہوچکی تھی۔اسی باعث کڑی شرائط کے ساتھ IMFسے ایک ’’امدادی پیکیج‘‘ لینا پڑا۔عالمی معیشت کے حتمی نگہبان ادارے نے ہمارے لئے جو نسخہ تیار کیا تھا اس کا استعمال ستمبر2022تک لازمی ٹھہرایا گیا۔اس نسخے کی ابتدائی Dosageنے مگر ہمارے ہاں پھیلی کسادبازاری کو سنگین تر بنانا شروع کردیا۔اس نسخے کے اطلاق کے ساتھ ہی کرونا بھی آگیا۔ ہماری تاریخ میں 1951-52کے مالی سال کے بعد پہلی بار ملکی معیشت کی شرح منفی سے نیچے چلی گئی۔
کرونا کی وجہ سے مسلط ہوئے معاشی جمود کاٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ جائزہ لینے کے لئے ہمیں ستمبر-اکتوبر تک انتظار کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی مگر دل دہلادینے والی خبر یہ بھی آرہی ہے کہ 25برس کے طویل وقفے کے بعد اس ہفتے کے اختتام کے ساتھ ٹڈی دل کے جو لشکر افریقہ سے چلتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور ہوں گے وہ ہمارے زرعی رقبوں کو خوفناک حد تک تباہ کرسکتے ہیں۔ٹڈی دل کے علاوہ موسمیات کے موضوع پر پیشہ وارانہ نگاہ رکھنے والے ان خدشات کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ اس برس کا ساون بھادوں معمول سے زیادہ بارشیں برسا سکتا ہے۔سیلابوں کے خطرات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کو نگاہ میں رکھیں تو عقل وفہم سے قطعاََ عاری کوئی سیاست دان ہی عمران خان صاحب کو ’’سازشوں‘‘ کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹاکر اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواہش مند ہوگا۔آفتوں کے دور میں ’’متبادل قیادتیں‘‘ بہت سوچ بچار کے بعد عوام کے سامنے کوئی حکمت عملی لاتی ہیں جو عملی اعتبار سے معمول یا انگریزی زبان والی Doableنظر آئے۔
ایسی حکمت عملی کی ’’نقاب کشائی‘‘کے لئے حزب اختلاف کی جماعتیں قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔حکومت کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کا بے رحمی سے جائزہ لیتے ہوئے ’’متبادل‘‘ کے ٹھوس اشارے فراہم کئے جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران ہوئی تقاریر کو میں نے اپنے کمرے میں محصور ہوکر بہت توجہ سے سنا ہے۔عددی اعتبار سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت-پاکستان مسلم لیگ (نون)- بجٹ تجاویز پر بحث کے دوران کوئی ’’رونق‘‘ نہیں لگاپائی۔ اس جماعت کے صدر -شہباز شریف صاحب-کرونا کی زد میں آنے کی وجہ سے اپنے گھر میں محصور ہیں۔احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کو بھی اس مرض سے شفایاہونے میں کافی وقت لگا۔ان کی عدم موجودگی میں خواجہ آصف صاحب اپنی جماعت کی ترجمانی کرتے رہے۔
پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (نون) کی صفوں میں نظر آتی اداسی کے باعث پیداہوئے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بنچوں پر لیکن جاندار تقاریر کرنے کے قابل افراد مؤثر تعداد میں موجود نہیں۔کراچی کے آغا رفیع اور عبدالقادر پٹیل ،مراد سعید صاحب جیسے وزراء کو اشتعال دلانے تک محدود رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری یقینا ایک جاندار خطیب بھی ہیں۔وہ مگر ایک جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے تقریباََ ہر موقعہ پر مائیک طلب نہیں کرسکتے۔
حقیقت یہ بھی رہی کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایوان میں بھاری بھر کم تعداد کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے یہ وعدہ نبھایا کہ اس کی جانب سے پیش کردہ کٹوتی کی تحاریک پر نشستوں سے کھڑے ہوکر رائے شماری کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
’’دوستانہ اپوزیشن‘‘ کو بھی لیکن مراد سعید صاحب نے معاف نہیں کیا۔’’ذاتی وضاحت‘‘ کے بہانے 23منٹ طولانی تقریر فرمادی۔ ان کے فوری بعد مائیک خواجہ سعد رفیق کو ملا۔لاہور سے منتخب ہوئے مسلم لیگ نون کے یہ رکن ’’سخت گیر‘‘ تصور ہوتے ہیں۔عمران حکومت کے قیام کے بعد انہوں نے نیب کی وجہ سے جیل میں بھی کئی ماہ گزارے ہیں۔اپنی شہرت اور جیل کی وجہ سے جمع ہوئی تلخیوں کے باوجود خواجہ صاحب حکومتی بنچوں کو یقین دلاتے رہے کہ اپوزیشن عمران خان صاحب کو وزیر اعظم کے منصب سے ہٹانا نہیں چاہ رہی۔بارہا بلکہ وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ اگر ان کی جماعت کی جھولی میں یہ منصب کوئی فراخ دلی سے ڈالنا بھی چاہے تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔ اقتدار کے حوالے سے اپنی بددلی کا اظہار کرتے وہ اس حد تک چلے گئے کہ کھل کر بیان کردیاکہ سیاست دانوں کے ساتھ جو سلوک ان دنوں ہورہا ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص وزیر اعظم تو کجا وفاقی وزیر بننے کو بھی تیار نہیںہوگا۔ ان کے اس بیان کو میں کسی سیاستدان کا روایتی بیان تصور نہیں کرتا۔
ٹھوس مگرتلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جن مشکلات میں گھرچکا ہے اس کا مقابلہ عمران خان صاحب ہی کو کرنا ہوگا۔ انہیں ’’مائنس‘‘ کرنے کو کم از کم حزب اختلاف کی جماعتوں میں سے فی الوقت کوئی بھی تیار نہیں ہے۔وزیر اعظم عمران خان صاحب کو پاکستان کے درپیش چیلنجوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہوگی۔