یار ناصر زیدی، تم بھی چلے گئے!
جمعرات کو ممتاز شاعر، ادبِ لطیف کے ایڈیٹر اور میرے بچپن کے دوست ناصر زیدی بھی اِس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے، میری اس کی دوستی 65برس پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم ماڈل ہائی اسکول ماڈل ٹائون لاہور میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے، ہمارے اسکول فیلوز میں شمشاد احمد خاں سابق سیکریٹری خارجہ، عباس حیدر زیدی سابق سفیر پاکستان، افسانہ نگار ذکاء الرحمٰن اور کتنے ہی دوسرے نامور لوگ تھے، جن کی اس وقت مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں مگر میری یاری ناصر زیدی سے بہت مستحکم رہی، اس کی وفات سے صرف کچھ عرصہ قبل اس سے ملاقات نہ ہو سکی کہ وہ اپنی علالت کے باعث اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد منتقل ہو گیا تھا۔ میں اس کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا مگر جنازے میں کورونا کے سبب اسلام آباد نہ جا سکا، مجھے کورونا سے مزید نفرت ہو گئی!
ناصر شروع میں اپنا پورا نام سید ناصر رضا عشرتؔ زیدی لکھا کرتا تھا، عشرتؔ اس کا تخلص تھا، اس کے پورے نام کے ساتھ جب میں اسے مخاطب کرتا تو ایک عدد ’’المعروف‘‘ بھی لگاتا تھا اور اس ’’المعروف‘‘ کا ذکر یہاں چنداں ضروری نہیں، میں اور ناصر شروع ہی سے شعر و ادب کے ساتھ متھا لگاتے تھے۔ صبح اسکول میں کلاسوں کے آغاز سے پہلے سارے طالبعلموں کو اسکول گرائونڈ میں جمع ہونے کا حکم ہوتا تھا جہاں کوئی تقریر کرتا تھا، کوئی شاعری سناتا تھا، ایک دن ذکاء الرحمٰن نے وہاں ایک بہت خوبصورت نظم سنائی جس کے ایک دو بند مجھے ابھی تک یاد ہیں۔
سن اے قہاری! مجرم ہیں
سن اے جباری! مجرم ہیں
حق گوئی ہی ہے جرم اگر
تو یہ بھی بھاری مجرم ہیں
ہم یہیں پہ ہیں، مفرور نہیں
پھر ہم کو جواب کوئی نہیں
کچھ کہنا بھی منظور نہیں
تعزیر کو ہم خود حاضر ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری! مجرم ہیں
تقریب کے بعد میں اور ناصر زیدی ذکاء الرحمٰن کے پاس گئے، وہ ہم سے سینئر تھا چنانچہ ہم نے ادب آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی نظم کی بہت تعریف کی، ذکاء نے اس کے جواب میں بہت مشفقانہ انداز میں ہمیں مخاطب کرکے کہا ’’تم لوگ میرے پاس آتے رہا کرو، میں جب تک یہاں ہوں، مجھ سے کچھ سیکھ لو‘‘۔ یہ تو کالج کے زمانے میں مجھے پتا چلا کہ یہ نظم نعیم صدیقی کی تھی جو جماعت اسلامی کے رہنما اور بہت عمدہ شاعر تھے۔
میں اپنے دیرینہ مرحوم دوست کے ساتھ اپنی اس دور کی یادیں شیئر کرتے ہوئے اپنے ایک ذی وقار استاد ماسٹر محمد حسین تاباں کا ذکر بھی ضرور کروں گا۔ وہ اپنے لیکچر کے دوران میری اور ناصر کی عدم دلچسپی اور ہماری باہمی شرارتوں سے بہت نالاں تھے۔ ایک روز جلال میں آ گئے اور ہمیں مخاطب کرکے کہا ’’تم دونوں میری ایک بات نوٹ کر لو، بڑے ہو کر تم گنڈیریاں بیچو کرو گے گنڈیریاں۔ مجھے یقین ہے کہ آج ان کی روح اپنی پیش گوئی جزوی طور پر صحیح نہ نکلنے پر بہت خوش ہو رہی ہو گی۔ بہرحال میٹرک کے بعد میں نے ایم اے او کالج میں داخلہ لے لیا اور ناصر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں ایف اے کی کلاس میں داخل ہو گیا، یہاں تک تو کنفرم ہے کہ اس نے ایف اے میں داخلہ لیا تھا، مگر مولانا ابوالاعلیٰ کا داماد اور ہمارا مشترکہ (مرحوم) دوست مسعود مسعود ثمرہ اللہ جانے کیوں اس سے ایف پاس کرنے کی بابت شرطیں لگاتا تھا اور جواب میں ناصر اس کے ساتھ وہی سلوک کرتا تھا جو ایسے موقع پر کرنا چاہئے!پھر ایک وقت آیا کہ میں ایم اے کرکے نوائے وقت میں کالم نگاری اور اس کے ساتھ ایم اے او کالج ہی میں بطور لیکچرار بھی کام کرنے لگا۔ ناصر اسلام آباد چلا گیا تھا کہ اس کے بیوی بچے وہیں تھے، وہاں میرے محبوب شاعر احمد فراز سے اس کی گاڑھی چھننے لگی، ان دونوں سے میری ملاقات اسلام آباد ہوٹل میں ہوتی، جب کبھی میں اسلام آباد جاتا۔ (جاری ہے)