دادا بھائی ناؤروجی: ہندوستان کا وہ زیرک آدمی جو برطانیہ کا پہلا ایشیائی رکنِ پارلیمان بنا
سنہ 1892 میں ایک ہندوستانی کو برطانوی پارلیمان کے لیے کس طرح منتخب کیا گیا؟ اور یہ تاریخی واقعہ ہمارے لیے موجودہ دور میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟
دادا بھائی ناؤروجی کا نام آج کل ایک غیر معروف نام ہے تاہم ہاؤس آف کامنز یا برطانوی ایوانِ زیریں کے رکن بننے والے پہلے ایشیائی ہونے کے علاوہ وہ مہاتما گاندھی سے پہلے ہندوستان کے سب سے اہم رہنما تھے۔
اس کے علاوہ وہ نسل پرستی اور سامراجیت کے خلاف عالمی اہمیت کی حامل شخصیت بھی تھے۔
موجودہ دور میں جہاں دنیا مختلف عالمی بحرانوں سے گزر رہی ہے اُن کا نام پہلے وقتوں کی نسبت کہیں زیادہ یاد رکھے جانے کا مستحق ہے۔
ان کی زندگی ترقی پسند سیاست کی طاقت کے اظہار کی اعلیٰ مثال ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ اس طرح کی سیاست پر ثابت قدم رہ کر تاریخ کے تاریک ترین ابواب میں بھی روشنی کی کرن بن کر اسے منور کیا جا سکتا ہے۔
ناؤروجی بمبئی میں نسبتا غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اُس دور میں مفت ابتدائی تعلیم کے منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے اولین افراد میں شامل تھے۔ ان کے نزدیک عوامی خدمت ان کو ملنے والی تعلیم کا شکرانہ ادا کرنے کا بہترین ذریعہ تھی۔
چھوٹی عمر سے ہی وہ ترقی پسندانہ مقاصد کے فروغ کے لیے سرگرم رہے جو انتہائی غیر مقبول تھے۔
سنہ 1840 کی دہائی کے آخر میں، انھوں نے ہندوستان میں لڑکیوں کے لیے سکول کھولے اور ہندوستان میں قدامت پسند سوچ رکھنے والے مردوں کے عتاب کا رخ اُن کی طرف ہوا لیکن انھیں رائے عامہ کے خلاف ڈٹے رہنے اور رویوں کو بدلنے کا طریقہ آتا تھا۔
پانچ سال کے اندر ہی بمبئی میں لڑکیوں کے سکول طالبات سے بھر چکے تھے۔
ناؤروجی نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا اور صنفی برابری کامطالبہ کرنے والی کوششوں میں پہل کرنے والوں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے استدلال کیا کہ ہندوستانی ایک دن سمجھ جائیں گے کہ عورت کو اس دنیا میں تمام حقوق، مراعات اور کاموں میں حصہ لینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کو ہے۔
سنہ 1855 میں ناؤروجی نے برطانیہ کا پہلا دورہ کیا۔
وہ برطانیہ میں دولت اور خوشحالی دیکھ کر بالکل دنگ رہ گئے اور اس بات پر غور کرنا شروع کیا کہ ان کا اپنا ملک اس قدر غریب کیوں ہے؟
اور یوں دو دہائیوں پر محیط اُس معاشی تجزیے کا آغاز ہوا جس کی بنیاد پر ناؤروجی نے برطانوی سلطنت کے سب سے مقدس نظریے کو چیلینج کیا۔ وہ نظریہ جس کے مطابق سامراجی دور محکوم عوام کے لیے خوشحالی لایا۔
وظیفوں کی بہتات میں، انھوں نے ثابت کیا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکمرانی ہندوستان کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اور اس کی وجہ سے تباہ کن قحط آ رہے ہیں۔ بہت سے مشتعل برطانوی افراد نے اُن پر بغاوت اور سرکشی کے الزامات لگائے۔ اُن کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا کہ محکوم قوم کا ایک شخص کھلے عام اس طرح کے دعوے کیسے کرسکتا ہے۔
تاہم، دوسروں نے ناؤروجی کے نو آبادیاتی مخالف خیالات سے فائدہ اٹھایا۔
ان کے خیالات کہ سامراجیت کی وجہ سے نو آباد کار علاقوں سے دولت نکل کر سامراج کے قبضے میں گئی یورپ میں اشتراکی خیالات رکھنے والوں اور امریکی ترقی پسند افراد جن میں ولیم جیننگز برائن شامل ہیں، اُن کو متاثر کیا۔
ممکنہ طور پر کارل مارکس کا شمار بھی ان افراد میں ہو سکتا ہے جو ان کے خیالات سے فیض یاب ہوئے۔ جیسا کہ ہندوستان میں خواتین کی تعلیم کو فروغ ملا اس بارے میں بھی ناؤروجی نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں مدد دی۔
ناؤروجی کے سیاسی عزائم کے پیچھے ایک وجہ ہندوستان میں غربت تھی۔
برطانوی نو آبادیاتی دور میں محکوم کی حیثیت سے، وہ برطانوی پارلیمان کے لیے کھڑے ہو سکتے تھے بشرطیکہ وہ ایسا برطانیہ کی سرزمین سے کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ویسٹ منسٹر میں آئرلینڈ میں قوم پرست نظریات رکھنے والے افراد کی طرح ہندوستان کے لیے سیاسی تبدیلی کی مہم بھی اقتدار کے ایوانوں سے ہی چل سکتی ہے۔ ہندوستان سے اس مقصد کو حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور اسی لیے سنہ 1886 میں، انھوں نے ہولبرن سے اپنی پہلی مہم چلائی اور اس میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگلے چند برسوں میں، انھوں نے ہندوستانی قوم پرستی اور برطانیہ میں ترقی پسند تحریکوں کے مابین اتحاد قائم کیا۔ ناؤروجی خواتین کے حق رائے دہندگی کی مہم کے حامی بھی بنے۔
انھوں نے آئرلینڈ کی داخلی خود مختاری کی مہم کی خوب حمایت کی یہاں تک کہ وہ آئرلینڈ سے پارلیمان کی نشست کے لیے کھڑے ہونے والے تھے۔ وہ محنت کش طبقے اور اشتراکیت پسند عناطر کے ساتھ صف بندھ ہوئے، سرمایہ دارانہ سوچ پر تنقید کی اور مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی۔
ناؤروجی نے بھرپور استقامت دکھاتے ہوئے برطانیہ کے ایک بڑے طبقے کو یہ باور کرایا کہ ہندوستان کے معاملے میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے بالکل اُسی طرح جیسے خواتین ووٹ ڈالنے کی مستحق ہیں اور نوکری پیشہ افراد کو ایک دن میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
اس پر انھیں مزدوروں، یونین رہنماؤں، زرعی ماہرین، حقوق نسواں کے لیے متحرک کارکنان اور پادریوں کی طرف سےحمایت کے خطوط موصول ہوئے۔
مگر تمام برطانوی افراد اس ہندوستانی شخص سے خوش نہیں تھے جو ممکنہ طور پر رکنِ پارلیمان بن سکتا تھا۔ انھیں انگریزی میں ’کارپٹ بیگر‘ اور ’ہاٹٹنٹ‘ جیسے نام دیے گئے۔
برطانوی وزیراعظم ، لارڈ سیلسبری جیسی شخصیت نے بھی ان کے بارے میں تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال کیا اور ناؤروجی کے بارے میں کہا کہ وہ ایک سیاہ فام آدمی کی حیثیت سے ایک انگریز کے ووٹ کے مستحق نہیں ہیں۔
لیکن انھوں نے اتنے افراد کو اپنا حامی بنا لیا جو ان کی مہم کے لیے کافی ثابت ہوئے۔
سنہ 1892 میں، لندن میں سنٹرل فنسبری میں رائے دہندگان نے انھیں پانچ ووٹوں کے فرق سے پارلیمان کا رکن منتخب کرلیا (اس کے بعد انھیں دادا بھائی نارو میجوریٹی کا نام دیا گیا)۔
رکنِ پارلیمان دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا مؤقف پیش کرنے میں ذرا بھی وقت ضائع نہ ہونے دیا۔
انھوں نے برطانوی حکمرانی کو سفاکانہ قرار دیا جس نے ان کے ہم وطن ہندوستانیوں کو غلاموں کی طرح بنا دیا تھا۔ انھوں نے نو آبادیاتی نوکر شاہی کو تبدیل کر کے اسے ہندوستانی ہاتھوں میں دینے کے لیے قانون سازی کی حمایت کی۔
مگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکا۔ ارکان پارلیمان نے ان کی درخواستوں کو زیادہ تر نظرانداز کیا اور ناؤروجی 1895 میں دوبارہ ہونے والے انتخاب میں ہار گئے۔
یہ ناؤروجی کی زندگی کا تاریک ترین لمحہ تھا۔
سنہ 1890 کی دہائی کے آخر میں اور 1900 کی دہائی کے اوائل میں، برصغیر میں برطانوی حکمرانی میں مزید سفاکی آئی اور قحط اور طاعون کی وبا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا، ایسے حالات میں بہت سے ہندوستانی قوم پرستوں کے خیال میں ان کی مہم کا کوئی مستقبل باقی نہیں بچا تھا۔
مگر پھر بھی ناؤروجی نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ انھوں نے اپنے مطالبات کو بڑھاوا دیتے ہوئے مزید ترقی پسند حلقوں، ابتدائی لیبرائٹ، سامراج مخالف امریکیوں، افریقی نژاد امریکی اور سیاہ فام برطانوی کارکنان کے حامی بنے اور اُن سے اپنی مہم کے لیے بھی حمایت حاصل کی۔
انھوں نے اعلان کیا کہ اب انڈیا کو خود مختاری یا سوراج کی ضرورت ہے جو سامراجیت کی جانب سے دولت ہتھیانے سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے۔
انھوں نے برطانوی وزیر اعظم، ہنری کیمبل بینر مین سے کہا کہ سوراج سامراجی دور کی خطاؤں کی تلافی کرے گے۔
یہ الفاظ اور نظریات پوری دنیا میں پھیل گئے۔ انھیں یورپ کے اشتراکیت پسند حلقوں، افریقی نژاد امریکی صحافتی حلقوں اور گاندھی کی سربراہی میں جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے ایک گروہ نے اٹھایا۔
سوراج ایک بے باک مطالبہ تھا، ایک مظلوم اور پسماندہ نسل کے لوگ انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور سلطنت سے اقتدار واپس کیسے چھین سکتے تھے؟
ناؤروجی نے اپنی رجائیت پسندی کو برقرار رکھا اور کبھی بھی ہار نہ ماننے والا رویہ نہیں چھوڑا۔
اپنی آخری تقریر میں، جب وہ 81 برس کے تھے انھوں نے اپنے سیاسی کریئر میں پیش آنے والی مایوسیوں کا اعتراف کیا۔
انھوں نے کہا کہ ایسی مایوسیاں جن سے کسی کا بھی دل ٹوٹ جائے اور ایسے شخص کو نا امید کر دیں یہاں تک کہ میں خود بھی ڈرتا ہوں کہ میں باغی ہو جاؤں۔ تاہم، ثابت قدمی، عزم اور ترقی پسند نظریات پر اعتماد ہی واحد حقیقی راستہ ہے۔
انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے اراکین سے کہا کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے تو ہمیں ایسے طریقے اپنانے ہوں گے جو ہر مرحلے کے لیے موزوں ہوں لیکن ہمیں ثابت قدم رہتے ہوئے انجام تک پہنچنا ہو گا۔
اس طرح کے الفاظ آج کے دور میں سیاسی مباحثے کو کیسے تقویت دے سکتے ہیں؟
ایک صدی کے بعد شائد ناؤروجی کے جذبات نا سمجھی لگیں۔ عوامیت کے دور میں زمانے کا تعین کرنے میں غیر معمولی غلطی، جب آمریت اپنے عروج پر تھی اور بے جا سیاسی طرف داری کا دور تھا۔
لیکن موجودہ دور بالکل مختلف ہے۔
برطانوی ایوان زیریں میں ایشیائی اراکین پارلیمان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو یورپ سے برطانیہ کے انخلا کے حامی ہیں اور برطانیہ کی سامراجی تاریخ کے بارے میں اُن کے نظریات مبہم ہیں۔
انڈیا ہندو قوم پرستی کی لپیٹ میں ہے جو اس کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے، جن اصولوں کو شکل دینے میں ناؤروجی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ جعلی خبروں اور متبادل حقائق جو آج کل عام ہیں، ان کے بارے میں ناؤروجی کا کیا رویہ ہوتا، ایک ایسا شخص جس نے وظائف اور متحمل مطالعے کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دی تھی۔
تاہم ثابت قدمی، استقامت اور پیشرفت پر یقین جو ناؤروجی کے اپنے کیریئر کی علامت تھیں موجودہ دور میں ترقی کا راستہ دکھا سکتی ہیں۔
جب ناؤروجی نے 1900 کے اوائل میں عوامی طور پر سوراج کا مطالبہ کرنا شروع کیا تھا تو انھیں یقین تھا کہ اس کے حصول میں کم از کم 50 سے 100 سال لگیں گے۔
برطانیہ اپنے سامراجی دور میں عظمت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا اور بیشتر ہندوستانی بھوک اور غربت کی حالت میں خود مختاری جیسے بلند خیالات کی طرف توجہ دینے سے قاصر تھے۔
وہ یہ جان کر دنگ رہ جاتے کہ ان کے پوتے پوتیاں ایک آزاد ہندوستان میں رہتے ہیں اور انھوں نے برطانوی سلطنت کے زوال کو دور سے دیکھا۔
اس طرح کے کچھ اور اہم اسباق: سلطنتیں گر جاتی ہیں، آمرانہ دور حکومت کی ایک حد ہوتی ہے، عوامی رائے اچانک تبدیل ہوجاتی ہے۔
آج شاید دائیں بازو کی عوام پسند اور آمرانہ طاقتیں عروج پر ہیں لیکن ناؤروجی ہمیں ایک طویل مدتی نقطہ نظر اپنانے کا مشورہ دیتے۔
وہ ہم سے ترقی پسند نظریات پر اعتماد برقرار رکھنے اور سب سے بڑھ کر ثابت قدم رہنے کی تاکید کرتے۔
ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ سب سے غیر متوقع نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک صدی قبل برطانوی پارلیمان میں ایک ہندوستانی کے انتخاب جیتنے سے کہیں زیادہ غیر متوقع۔
ناؤروجی: ہندوستانی قوم پرستی کا علمبردار، ہارورڈ یونیورسٹی پریس اور ہارپرکولینس انڈیا نے مئی 2020 میں شائع کیا۔