کورونا: جاپان میں متاثرین اور ہلاکتوں کی شرح کم کیوں ہے؟
جاپان میں کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ اموات کیوں نہیں ہو رہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس نے جاپانی افراد کے طرز زندگی کے حوالے سے اعلیٰ طور پر قوتِ مدافعت کے حامل ہونے کے دعوے کے بعد درجنوں نظریات کو جنم دیا ہے۔
جاپان میں کورونا وائرس کی وجہ سے شرح اموات کم نہیں بلکہ خطے میں جنوبی کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ اور ویتنام میں بھی یہ مرض کم پھیلا ہے۔
لیکن رواں برس کے آغاز میں جاپان میں اوسط اموات کی نسبت کم اموات ہوئی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اپریل میں ٹوکیو میں 1000 سے زائد اموات ہوئیں۔ شاید یہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا۔ لیکن ممکن ہے کہ مجموعی طور پر اب تک پورے سال کے دوران اموات کم ہوں گی۔
یہ خاص طور پر اس لیے بھی نمایاں ہے کیونکہ جاپان کی صورتحال اسے کورونا کے خطرے سے غیر محفوظ نہیں رکھتی۔ لیکن اس نے کھبی بھی اپنے ہمسایوں کی مانند وائرس سے نمٹنے کے لیے مضبوط طریقہ کار نہیں اپنایا۔
جاپان میں کیا ہوا؟
فروری میں ووہان میں وبا کے عروج کے دوران جب شہر کے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا تو دنیا بھر میں چینی مسافروں کے لیے دروازے بند کر دیے گئے تھے لیکن جاپان نے تب بھی ان کے لیے اپنی سرحدیں کھول رکھی تھیں۔
جیسے ہی یہ وائرس پھیلا جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ کوویڈ ایک بیماری ہے جو بنیادی طور پر بوڑھوں کو ہلاک کرتی ہے اور ہجوم یا طویل دورانیے تک قریبی رابطے کے ذریعہ بڑے پیمانے پر اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
جاپان میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں فی کس عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہیں۔ جاپان کی آبادی بھی شہروں میں گنجان ہے۔
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کی آبادی 37 ملین ہے اور بیشتر افراد کا شہر میں سفر کرنے کا واحد ذریعے وہاں کی پر ہجوم ٹرین سروس ہے۔
ایسے میں جاپان نے کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے عالمی ادارہ صحت کی ٹیسٹ اور صرف ٹیسٹ کرنے کی تجویز کو بھی رد کیا حتیٰ کہ اب بھی ملک میں آبادی کے لحاظ سے کورونا کے متاثرین کے ٹیسٹ کی شرح 0.27 فیصد یا محض 348000 ہے۔
جاپان نے یورپ کی صورتحال کی طرح وبا کے پھیلاؤ کے لیے سخت لاک ڈاؤن بھی نافذ نہیں کیا تھا۔ اپریل کے آغاز میں جاپان کی حکومت نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کیا تھا تاہم گھروں میں رہنے کی ہدایات عوام کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر تھی۔ غیر ضروری کاروبار کو بند کرنے کا کہا گیا تھا مگر ان کاروبار کو بند نہ کرنے کی صورت میں کوئی قانونی جرمانہ عائد نہیں کیا گیا تھا۔
نیوزی لینڈ اور ویتنام کی طرح بہت سے ممالک نے کوویڈ 19 کی روک تھام کے پیش نظر ملک میں سخت پابندیاں نافذ کی تھیں جن میں سرحدوں کی بندش، سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ، بڑے پیمانے پر مشتبہ متاثرین کی ٹیسٹنگ اور سخت قرنطینہ کے قوانین شامل تھے مگر جاپان نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
جاپان میں کورونا کے پہلے کیس رپورٹ ہونے کے پانچ ماہ بعد بھی اب تک وہاں 20 ہزار سے کم متاثرین اور ایک ہزار کے لگا بھگ اموات ہوئی ہیں۔ ملک سے ہنگامی حالت کا نفاذ ہٹا لیا گیا ہے اور زندگی تیزی سے معمول پر آ رہی ہے۔
اس کے سائنسی شواہد بھی مل رہے ہیں کہ جاپان نے واقعتاً اب تک وبا کے پھیلاؤ کو قابو کر لیا ہے۔
جاپان کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی سافٹ بینک نے اپنے 40 ہزار ملازمین کے کورونا کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیے جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ صرف 0.24 فیصد افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔
دارالحکومت جاپان اور دو دیگر شہروں میں کورونا کے آٹھ ہزار ٹیسٹوں کی رینڈم سیمپلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کے بہت کم افراد کورونا کی وبا کا شکار ہوئے۔ ٹوکیو میں یہ شرح 0.1 فیصد تھی۔
ملک سے ہنگامی حالت کے نفاذ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جاپان کے وزیر اعظم شینزو ابے نے فخریہ انداز میں ’جاپان ماڈل‘ کا ذکر کیا اور کہا کہ دنیا کو جاپان سے اس وبا پر قابو کرنے کے بارے میں کچھ سیکھنا چاہیے۔
کیا جاپان میں کچھ خاص بات ہے؟
اگر آپ کو جاپان کے نائب وزیر اعظم تارو آسو کو سننے کا موقع ملتا تو وہ اس کا سہرا جاپانی عوام کے ’اعلیٰ معیار‘ کے سر باندھتے ہیں۔ اپنے بدنام تبصرے میں نائب وزیر اعظم آسو کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک ان سے جاپان کی کامیاب کے متعلق بتانے کا کہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کہا کہ ’آپ کے ملک اور ہمارے ملک میں فرق منڈؤ یعنی عوام کے معیار کا ہے۔ اور میری اس بات نے انھیں لاجواب کر دیا۔‘
منڈو کے لفظی معانی لوگوں کے معیار کے ہوتے ہیں البتہ چند افراد اس کا مطلب ثقافتی معیار بھی کہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا تصور ہے جو جاپان کے شاہی دور کا ہے اور اس میں نسلی برتری اور ثقافتی شاوی ازم کا احساس ہے۔ مسٹر آسو کی اس اصطلاح کے استعمال پر وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے جاپانی شہری اور چند سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ جاپان میں کچھ تو خاص ہے، ایک نام نہاد ’فیکٹر ایکس‘ جاپانی عوام کو کورونا سے بچا رہا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ جاپان کی سماجی زندگی میں ملاقات کرتے وقت ایک دوسرے کو کم بوسے کرنا اور گلے لگانا، پہلے سے موجود سماجی دوری اس کی ایک وجہ ہو لیکن کسی کے خیال میں بھی یہ اس کی حتمی وجہ نہیں ہے۔
کیا جاپانی عوام میں خاص قوت مدافعت ہے؟
ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر تتشوہیکو کوڈاما، جو جاپان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد پر تحقیق کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ جاپان کے عوام کا اس وائرس کے خلاف ردعمل دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جاپان میں کووڈ وائرس پہلے کبھی ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے ’یہ کوویڈ 19 نہیں مگر اس جیسا کوئی وائرس ہو سکتا ہے جس نے آبادی میں اس کے خلاف تاریخی قوت مدافعت پیدا کر دی ہو۔‘
وہ اس کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ جب وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو انسان کا مدافعتی نظام اس کے خلاف اینٹی باڈیز بناتا ہے اور وہ داخل ہونے والے وائرس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
انسانی جسم میں دو طرح کی اینٹی باڈیز بنتی ہیں ایک آئی جی ایم اور دوسری آئی جی جی۔ جس طرح سے یہ دونوں اینٹی باڈیر انسانی جسم میں وائرس کے خلاف ردعمل دیتی ہیں اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ کیا متاثرہ شخص پہلے بھی اس وائرس یا اس جیسے وائرس سے متاثر ہو چکا ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اس نوول وائرس کے خلاف ابتدائی طور پر آئی جی ایم اینٹی باڈیر پہلے ردعمل ظاہر کرتیں ہیں پھر آئی جی جی اینٹی باڈیر ردعمل دیتی ہیں۔ لیکن دوسری صورت میں جب کوئی انسان پہلے سے اس وائرس سے متاثر ہو چکا ہوں تو صرف آئی جی جی اینٹی باڈیر اس کے خلاف تیزی سے ردعمل دیتی ہیں۔‘
ان کے مریضوں کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟
جب ہم نے ان مریضوں کے ٹیسٹ دیکھے جن پر ڈاکٹر کوڈاما تحقیق کر رہے تھے تو ہم حیران رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان تمام مریضوں میں وائرس کے خلاف پہلے آئی جی جی اینٹی باڈیر نے جلدی سے ردعمل دیا اور اس کے بعد آئی جی ایم اینٹی باڈیز متحرک ہوئیں جن کا ردعمل کمزور تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مریض اس سے قبل بھی ایسے کسی وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔‘
ان کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ اس خطے میں سارز کی طرح کا کوئی وائرس پہلے آیا ہو اور جس کی شرح اموات کم ہو لیکن یہ صرف جاپان ہی نہیں بلکہ چین، جنوبی کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں ہو۔‘
لیکن ان کے اس خیال میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
برطانوی حکومت کے ایک سابق سنئیر مشیر اور کنگز کالج لندن میں ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ پروفیسر کینجی شھبویا کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں یقین کہ ایسا کوئی وائرس صرف ایشیا تک محدود رہ سکتا ہے۔‘
وہ دنیا کے مختلف خطوں میں انسانوں کی مختلف قوت مدافعت ہونے سے اختلاف نہیں کرتے اور نا ہی اس وائرس کے خلاف ان کی پہلے سے جنیٹک مدافعت پر سوال اٹھاتے ہیں لیکن وہ ’فیکٹر ایکس‘ کے نظریہ کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جن ممالک نے کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اور بر وقت اقدامات کیے ہیں وہاں بھی نتائج کچھ ایسے ہی ہیں اور انھوں نے وبا پر ڈرامائی انداز میں قابو پا لیا ہے۔‘
ان کے مطابق جاپانی باشندوں نے سو برس سے بھی پہلے سنہ 1919 کے ہسپانوی فلو کی وبا کے دور میں ماسک پہننے شروع کر دیے تھے اور تب سے انھوں نے اس کو ختم نہیں کیا۔ اگر آج بھی وہاں کسی کو کھانسی یا نزلہ زکام ہو جائے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے منھ ماسک کے ڈھانپے تاکہ اپنے ارد گرد افراد کو محفوظ رکھ سکے۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے انفلوئنزا ماہر اور سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر کیجی فوکوڈا کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ (ماسک) ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ لیکن یہ ہر ایک کو ذہن نشین رکھنے کی یاد دلانے کا کام بھی کرتا ہے کہ ہمیں اب بھی ایک دوسرے سے سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے محتاط رہنا ہے۔‘
جاپان کا ٹریک اور ٹریس کا نظام بھی سنہ 1950 سے موجود ہے جب وہاں تپ دق کی لہر آئی تھی حکومت نے پورے ملک میں صحت عامہ کے مراکز قائم کیے تھے تاکہ اس وقت تپ دق کے نئے مریضوں کی شناخت کی جا سکے اور ان کے متعلق وزارت صحت کو آگاہ کیا جا سکے۔
ایسے میں اگر مقامی منتقلی کا شبہ ہوتا تو ایک ماہر ٹیم کو ان متاثرہ افراد کی تلاش کے لیے بھیجا جاتا اور متاثرہ شخص سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں اس سے رابطے میں آنے والے افراد کی نشاندہی کرنے کے بعد انھیں تنہائی یا قرنطینہ اختیار کرنے کا کہا جاتا۔
جاپان کو چند چیزوں کا علم پہلے ہو گیا تھا
جاپان نے وبا کے آغاز میں ہی دو رحجانات کا پتہ چلا لیا تھا۔
کویوٹو یونیورسٹی میں طبی محقق ڈاکٹر کازوکی جنڈئی کا کہنا تھا کہ ایک تہائی متاثرین ایک جیسی جگہوں پر پائے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے وہ لوگ متاثر ہوئے تھے جو گانے بجانے کے مقامات یا محفلوں میں گئے تھے جہاں چیخنا اور گانا ہوتا ہے، ہم جانتے تھے کہ لوگوں کو ان مقامات سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ماہرین کی ٹیم نے علاقے میں پارٹیز اور پارلرز میں گانے، کلبز میں شور شرابا، بارز میں گفتگو اور جم میں ورزش والے مقامات کو ہائی رسک قرار دیا۔
ماہرین کی دوسری ٹیم کے سامنے یہ بات آئی کہ متاثرہ افراد کی جانب سے وائرس کی منتقلی کی شرح کم ہے۔
ایک ابتدائی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کے سارز کووی ٹو وائرس سے متاثرہ ہونے والے 80 فیصد افراد نے دوسروں کو متاثر نہیں کیا جبکہ 20 فیصد بہت زیادہ انفکیشن منقتل کر رہے تھے۔
ان معلومات نے حکومت کو کورونا کے وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں ایک احتیاطی مہم چلانے میں مدد دی جس میں عوام کو تین چیزوں سے دور رہنے اور احتیاط کرنے کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
- کم ہوا کے گزر والی بند جگہوں سے احتیاط کی جائے۔
- بھیڑ والے مقامات سے دور رہا جائے۔
- عوام کے درمیان قریبی جسمانی رابطہ جیسے بالمشافہ گفتگو سے پرہیز کی جائے۔
ڈاکٹر جنڈئی کے مطابق ’میرے خیال میں لوگوں کو گھروں میں رہنے سے بہتر اس نے کام کیا۔‘
حالانکہ دفتروں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیاتھا لیکن یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان تین نکات والی مہم کے نتیجے میں کم وبا کا پھیلاؤ کم ہو گا تاکہ لاک ڈاؤن سے بچا جائے اور کم متاثرین کا مطلب تھا کہ کم ہلاکتیں۔‘
کچھ عرصے تک اس کے مثبت نتائج بھی سامنے لیکن پھر مارچ کے وسط میں ٹوکیو میں متاثرین کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوا اور ایسا لگنے لگا کے ٹوکیو بھی میلان، لندن اور نیویارک کی طرح ایک بے قابو اضافے کی راہ پر گامزن ہے۔
اس وقت میں جاپان یا تو خوش قسمت رہا یا اس نے اچھے انداز میں اس پر عمل کیا۔ اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
بروقت اقدامات
پروفیسر کینجی شھوبیا کے خیال میں جاپان میں بھی حالات دنیا سے مختلف نہیں ہونے تھے تاہم جس چیز نے فرق ڈالا وہ بروقت اقدامات ہیں۔
جاپان کے وزیر اعظم شینزو آبے نے سات اپریل کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ’غیر جبری طور پر لوگوں کو اگر ممکن ہو سکے تو گھروں میں رہنے‘ کا حکم دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ایسے اقدامات میں تاخیر کی جاتی تو شاید ہمیں بھی ممکنہ طور پر نیویارک یا لندن جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ جاپان میں شرح اموات کم ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی نے ایک تحقیق میں یہ کہا ہے کہ اگر نیو یارک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ دو ہفتے قبل کر دیا جاتا تو لاکھوں افراد کی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔‘
امریکہ کے سنیٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، موٹاپا اور ذیابیطس کے شکار افراد اگر کورونا سے متاثر ہو جائے تو ان کے ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان چھ گنا زیادہ ہوتا جبکہ موت کا 12 گنا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
جاپان میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں دل کے امراض اور موٹاپے کا شکار افراد کی شرح سب سے کم ہے۔ پھر بھی سائنسدان ان اہم وجوہات کے باوجود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ وجوہات ملک کے کورونا سے کم متاثرہ ہونے کی وجہ نہیں ہیں۔
پروفیسر فوکوڈا کہتے ہیں کہ ’جاہانی شہریوں کی جانب سے سماجی دوری کا کچھ اثر ہوسکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دوسری وجوہات زیادہ اہم ہیں۔ ہم نے کوویڈ سے سیکھا ہے کہ کسی بھی مظاہر کی کوئی آسان وضاحت نہیں ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ حتمی نتائج میں بہت سارے عوامل کا کردار ہے۔‘
حکومت نے جو کہا عوام نے عمل کیا
اگر جاپان کے وزیر اعظم شینزو کے ’جاپان ماڈل‘ کا جائزہ لیں جس کی انھوں نے شیخی بگاڑی تھیت تو ہمیں ایک سبق سیکھنے کو ملتا ہے۔
کیا یہ حقیقت ہے کہ جاپان نے بنا لاک ڈاؤن کیے یا لوگوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دئے بغیر اب تک اس وبا پر قابو پایا ہے اور ملک میں متاثرین اور اموات کی تعداد کم ہے، اور ہمیں آگے کے لائحہ عمل میں مدد دیتا ہے؟ تو اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نا بھی۔
یہاں کوئی ’فیکٹر ایکس‘ نہیں ہے کہ سب کچھ اس پر منحصر ہوں اور اس نے ہی کورونا وائرس کی منتقلی کے عمل کو توڑا ہو۔ مگر جاپان میں حکومت عوام پر اس کے احکامات کو ماننے کا اعتبار کر سکتی ہے۔
بے شک اس کے کی عوام کو مکمل طور ہر گھروں میں رہنے کے لیے نہیں کیا گیا لیکن وہ گھروں تک محدود رہے۔
پروفیسر شھوبیا کہتے ہیں ’یہ خوش قسمتی بھی ہے اور حیران کن بات بھی کہ جاپان کے معمولی اور نرم لاک ڈاؤن کے اثرات ایسے آئے جیسے کسی سخت اور اصل لاک ڈاؤن کے ہوتے ہیں۔ جاپانی عوام نے سخت پابندیوں کے باوجود عمل کیا۔
پروفیسر فوکوڈا کہتے ہیں کہ ’آپ وائرس سے متاثرہ اور غیر متاثرہ افراد کے درمیان رابطے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو عوام کی جانب سے ایک خاص ردعمل کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں جاپان کی طرح دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں اپنایا جا سکتا۔‘
جاپان نے لوگوں کو پرہجوم مقامات سے دور رہنے، ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے کا کہا اور زیادہ تر عوام نے اس پر مکمل عمل کیا۔