ابھی تک نئے کورونا وائرس کی روک تھام ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے دنیا بھر میں کام ہورہا ہے.
مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ اس وقت موجود ویکسینز کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے فائدہ مند ہوسکتی ہیں، حالانکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ٹی بی کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی بی سی جی ویکسین پر کلینیکل ٹرائلز ہورہے ہیں کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کووڈ 19 کی روک تھام کے حوالے سے موثر ثابت ہوکتی ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بی سی جی ویکسین لوگوں کے مدافعتی ردعمل کو مضبوط کرسکتی ہے، نئے کورونا وائرس کے اثرات کو کم اور کووڈ 19 سے جڑی علامات یا مسائل کا خطرہ کم کرسکتی ہے۔
اب طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ایم ایم آر (خسرہ، کن پیڑے،روبیلا یا جرمن خسرہ) ویکسین بھی ٹی بی کی ویکسین جیسے اثرات کی حامل ہوسکتی ہے۔
یہ ویکسین دنیا بھر میں بچوں کو عام استعمال کرائی جاتی ہے اور تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں کووڈ 19 کے مریضوں میں شدید ترین ورم اور اموات کا خطرہ کم ہوسکتا ہے جبکہ طبی عملے میں اس کے کلینیکل ٹرائل کی تجویز دی گئی۔
اس طرح کی ویکسین میں حقیقی وائرس یا بیکٹریا ہوتے ہیں جن کو سائنسدان لیبارٹری میں کمزور بناتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ اس طرح کی ویکسینز مدافعتی نظام کی ‘تربیت’ کرکے دیگر بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
یہ ویکسینز غیر روایتی مدافعتی ردعمل میں مدد فراہم کرتی ہیں اور بیماری کے خلاف اولین دفاعی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔
اس نئی تحقیق میں شامل لوزیانے اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ اسکول آف ڈینٹسیٹی کے ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر پال فیڈل جونیئر نے بتایا کہ ایسی ویکسینز کسی مخصوص جراثیم کے خلاف مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیرروایتی فوائد بھی فراہم کرتی ہیں۔
ڈاکٹر پال فیڈل نے تولان یونیورسٹی آف میڈیسین کے مائیکرو بائیولوجی اور امیونولوجی کی پروفیسر ڈاکٹر میری نوور کے ساتھ مل کر کام کیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ان ویکسینز سے تحفظ مدافعتی خلیات کی ایک قسم ایم ڈی ایس سی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
طبی ماہرین نے چوہوں پر تجربات میں ثابت کیا ہے کہ یہ خلیات کسی بیماری سے ورم اور اموات کا خطرہ کم کرتے ہیں جبکہ اس نئی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا کہ اس طرح کی ویکسینز سے عفونت کے مرض سے بھی ایم ڈی ایس سی کی بدولت ممکنہ تحفظ مل سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایک ایم ایم آر ویکسین کووڈ 19 کے شکار افراد میں ایم ڈی ایس سی خلیات کو شامل کرکے پھیپھڑوں کے ورم اور عفونت سے لڑنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے جو اس بیماری کے سنگین کیسسز میں عام مسائل ہیں۔
اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے یو ایس ایس روزویلٹ کے 955 ملاحوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کیا جن میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی مگر اس کی شدت معتدل تھی۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایسا ممکنہ طور پر اس لیے ہوا ککیونکہ امریکی بحریہ میں تمام افراد ایم ایم آر ویکسینیشن کے عمل سے گزرتے ہیں، تاہم ان افراد کی عمریں اور جسمانی فٹنس بھی بحالی صحت میں کردار ادا کرنے والے عوامل ہیں۔
دیگر شواہد بھی ایم ایم آر ویکسین اور کووڈ 19 کے درمیان ایک تعلق کو سپورٹ کرتے ہیں، ڈیٹا کو دیکھ کر دریافت کیا گیا کہ ایسے علاقوں میں رہنے والے افراد جہاں ایم ایم آر ویکسین معمول ہے، وہاں کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح کم دیکھی گئی۔
کووڈ 19 ممکنہ طور پر بچوں کو بھی کم متاثر کرنے والی بیماری ہے اور اس کی وجہ بھی ویکسینیشن ہیں، یعنی ٹی بی یا ایم ایم آر جیسی ویکسینز بچوں کے تحفظ میں ممکنہ کردار ادا کررہی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جن بالغ افراد کو بچن میں ایم ایم آر ویکسین دی گئی، ان میں خسرہ اور دیگر امراض سے تحفظ کے لیے اینٹی باڈیز تو ہوسکتی ہیں مگر ایم ڈی ایس سی خلیات کی موجودگی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بوسٹر ویکسینیشن کی ضرورت ہے تاکہ وہ کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک تحفظ حاصسل کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایم ڈی ایس سی طویل العمر خلیات ہیں مگر وہ زندگی بھر باقی نہیں رہتے، تو ایک بوسٹر ایم ایم آر سے انہیں نئی زندگی دی جاسکتی ہے،ہمیں توقع ہے کہ دوبارہ ویکسینیشن سے گزرنے والے افراد میں یہ خلیات زندگی بھر موجود رہیں گے اور وہ اس وبا کے مشکل وقت سے گزر سکیں گے۔
محققین نے طبی عملے میں ایم ایم آر ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کی تجویز دی جبکہ انہیں کووڈ 19 کے حوالے سے ایم ایم آر اور بی سی جی ویکسینز کے موازنے کے لیے فنڈ بھی دیا گیا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر ان کا خیال درست ثابت ہوا تو ایم ایم آر ویکسین سے کووڈ 19 کی وبا کے دوران زندگیاں بچانے میں مدد مل سکے گی۔