منتخب تحریریں

بارہ مولا کا بشیر احمد خان اور جامشورو کا گل محمد چھچھر

Share

سات مارچ 1975 بروز جمعہ کی شام مرنے والی میری دادی غلام فاطمہ کشمیر کے کسی نامعلوم قصبے سے آنے والی یتیم بچی تھی جو لدھیانہ میں دادا کی موجودگی میں باپ کی موت کے باعث جائیداد سے محروم ہونے والے یتیم و یسیر پنجابی راجپوت محمد علی خان سے 1911 میں بیاہی گئی۔ مجھے تفصیل ٹھیک سے معلوم نہیں کہ سفید پوش گھرانوں میں ماضی چھپانے کی ثقافت ہوتی ہے۔ غربت، ذلت اور بے بسی کے سلسلہ وار المیے میں رکھا بھی کیا ہوتا ہے جسے بیان کیا جائے۔ ایک راز لیکن میرے سینے میں دفن ہے۔ گرمیوں کی شاموں میں دادی مجھے گود میں لے کے چھت کے ایک خالی کونے میں جا بیٹھتی تھیں، موتیے کے پھول اپنے کانوں میں ٹکا لیتی تھیں اور ایک کہانی سنایا کرتی تھیں۔

اس دوران اگر گھر سے کوئی اوپر آتا تو دادی پراسرار طور پر خاموش ہو جاتی تھیں۔ غالباً سینت کے رکھا کوئی گہرا دکھ تھا جو صرف کم سن پوتے کو منتقل کرنا تھا۔ یہ کہانی میں نے چند برس کی عمر میں اتنی بار سنی کہ اس کی دہشت میری ہڈیوں میں اتر گئی۔ چند بھائیوں نے اپنی بہن کو قتل کر کے زمیں میں گاڑ دیا تھا اور اس جگہ بیری کا ایک درخت اگ آیا تھا جس کی ٹہنیوں سے مردہ بہن کی آواز سنائی دیتی تھی جو سوال کرتی تھی کہ بھائیوں نے اسے کیوں قتل کیا؟

بہت برس بعد پنجاب یونیورسٹی میں محترمہ شائستہ سونو نے ہمیں یوجین اونیل کا ڈرامہ Mourning Becomes Electra پڑھایا۔ یوجین اونیل نے یونانی ڈرامہ نگار ایسکیلس (Aeschylus) کی المیہ تمثیل کو امریکی خانہ جنگی کے فوراً بعد نیو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں محبت، حسد، قتل، محرمات اور انتقام کے کائناتی موضوعات کا روپ دیا تھا۔ میلان کنڈیرا نے 1968 کے موسم بہار میں پراگ کا جمہوری خواب بیچنے والے ریاستی مجرموں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایسکیلس کے کھیل ایڈی پس کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ مگر اپنی آنکھیں ضمیر کے تقاضے پر نوچی جاتی ہیں، ریاست کا ضمیر نہیں ہوتا۔

امرتا پریتم نے 47ء کے اندولن میں وارث شاہ کو آواز دی تھی۔ لہو کے دریا سے گزرتے ہوئے شاعر ہی کو پکارا جاتا ہے، ولبھ پٹیل، تارا سنگھ، شوکت حیات اور جہاں آرا شاہنواز تو سیاست کی باڑ کو بلوے کا پانی پلا رہے تھے۔ درویش کا درد امروز تین مختصر ویڈیو کلپس سے برآمد ہوا ہے۔ کشمیر کی تحصیل بارہ مولا کے قصبے سوپور میں 65 سالہ بشیر احمد خان اپنے تین سالہ پوتے عیاد کے ہمراہ سودا سلف لینے گھر سے نکلے اور بھارتی سیکورٹی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ مقتول دادا کے سینے پر بیٹھ کر سسکیاں لیتے عیاد کے ویڈیو بیان نے انسانیت کو دہلا دیا ہے۔

سندھ کے ضلع جامشورو کے قریب وڈا چھچھر کے قبرستان میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دھاڑیں مارتے گل محمد چھچھرکی ویڈیو میں صرف چند سیکنڈ ہی سن سکا۔ پنجاب میں پرورش پانے کی وجہ سے میری سندھی کمزور ہے لیکن میں ’مونجھو مولا‘ کی فریاد سمجھ سکتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ سندھ کی زمیں پر وڈیرو اور فقیرو نامی دو بھوتوں کا آسیب پایا جاتا ہے۔ جرم اور جہالت کے راتب پر پلنے والے ان درندوں کے ہوتے ہوئے ’مونجھو اور تنجھو مولا‘ کو سندھ میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ گل محمد کے آنسو خاک میں جذب ہو سکتے ہیں، 24 سالہ وزیراں کے نام نہاد غیرت کے نام پر پتھروں سے مسخ کئے گئے چہرے پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔

تیسرا منظر یہ کہ نارمن فنکل سٹائن نامی ایک 63 سالہ یہودی استاد نیویارک میں کھڑے ہو کر فلسطین کا دکھ بیان کرتا ہے۔ نارمن فنکل سٹائن کے ماں اور باپ نے نازی عقوبت خانوں کا جہنم بھگتا تھا۔ فنکل سٹائن للکار کر کہتا ہے کہ اگر آپ فلسطینی مظلوموں کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے تو آپ کو ہولوکاسٹ کے ظلم کی دہائی دینے کا حق نہیں پہنچتا۔

انسانی معاشرے میں چار بنیادی قوتیں پائی جاتی ہیں۔ سرمایہ، اختیار، محبت اور علم۔ سرمایہ اور اختیار ریاست کے آلات واردات ہیں۔ علم اور محبت شہری کا اثاثہ ہیں۔ سرمایہ احتیاج دور کرنے کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے اور اجارے کے فروغ کا ہتھیار بھی۔ اختیار امن اور انصاف فراہم کرنے کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے لیکن اس میں جنگ کی بربادی اور حاکمیت کی ذلت کا امکان بھی موجود ہے۔ سرمائے اور اختیار نے گٹھ جوڑ کر کے محبت کی کیاری کو روند ڈالا ہے اور علم کو اونچ نیچ کے تسلسل کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ شہری کی ریاست پر بالادستی بحال کئے بغیر محبت کی خوبصورتی اور علم کا امکان واگزار نہیں ہو سکتے۔ سرمائے کا حقیقی منصب متعین نہیں ہو سکتا، اختیار کے خدوخال کا مہربان حسن بے نقاب نہیں ہو سکتا۔ انصاف کے چشمے کا ٹھنڈے پانی کسی منصف کی پسینے میں بسی وگ سے برامد نہیں ہو گا، اسے مظلوم کی آنکھوں کے اتش فشاں میں دریافت کرنا ہو گا۔ یہ وہ خواب ہے جو الف لیلیٰ کی شہرزاد کی آنکھوں میں پتھرا گیا ہے۔ ریاست کا عامل اس سفلی جادو کا توڑ نہیں کرے گا۔

 استاد محترم قمر زمان کائرہ فرماتے ہیں کہ ریاست جمہوریت عطا نہیں کیا کرتی، فرد کو آگے بڑھ کر جمہوریت کا پرچم اٹھانا ہو گا۔ اترپردیش کے قصبے ہاشم پورہ کی مسجد میں اذان کی دل آویز آواز سننے کے لئے ٹھٹھہ کے مندر کی مترنم گھنٹی کو حرکت دینا ہو گی۔ 5 جولائی کے یوم سیاہ کی ہلاکت خیزی کا حقیقی شعور پیدا کرنے کے لئے 12 اکتوبر کی ظلمت کا اقرار کرنا ہو گا۔ سوپور کے تین سالہ عیاد کا دکھ شام کے تین سالہ ایلان کردی کی مظلومیت سے جا جڑتا ہے۔ آپ کو شام کی وہ مہاجر بچی یاد ہے جس نے فوٹوگرافر کے کیمرے کو بندوق سمجھ کر ہاتھ کھڑے کر دیے تھے؟

لندن میں بیٹھے جہانگیر ترین کو احساس ہوا کہ 27 جولائی 2017 کی سہ پہر نواز شریف پر کیا بیتی تھی؟ ظلم ضمیر انسانی پر ملامت اور نسل انسانی پر بے بسی بن کر اترتا ہے۔ اس کی شناخت کے لئے کسی بھاڑے کے ترجمان کی نہیں، اپنے دائیں بائیں موجود جہالت، عصبیت اور ناانصافی سے دوبدو ہونا پڑتا ہے۔ سچ کو اپنے پیروں کے نیچے آنے والی زمیں اور لمحہ موجود کی مہلت ہی ملتی ہے، دلوں کی فتح و شکست اسی ایک سانس کے فیصلے سے بندھی ہے۔

بشکریہ ہم سب

One thought on “بارہ مولا کا بشیر احمد خان اور جامشورو کا گل محمد چھچھر

  • اشرف قریشی

    میں ایک کم علم انسان آپ کے علم ے لبالب بھرے کالم پڑھتاہوں تو احساس ہوتا ہے کہ عمر عزیز رائگاں چلی گئ چلی کہاں گئ میں نے خود رائگاں کردی۔ دیکھیں اب زندگی مجھے کب رائگاں کرتی ہے۔اللہ آپ کو سلامت رکھے۔

Comments are closed.