وبا کے سو دن پورے ہوئے اور اسد عمر نے قوم کو مبارکباد دی، حوصلے کی داد دی اور کہا کہ اگر ہم سب اکٹھے ہو جائيں تو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
پہلے حیرت ہوئی کہ تعزیتوں کے موسم میں مبارکبادیں کس بات کی۔ پھر اپنی حیرت پر بھی خوف آیا کہ کیا دو سال سے سوئے ہوئے تھے۔ گھبرانا نہیں گھبرانا نہیں کی لوری اتنی پسند آ گئی تھی کہ اب آنکھ کھلنے لگی ہے تو واپس سو جانے کو دل چاہتا ہے۔ لیکن پھر اسد عمر جیسا کوئی آ کر مبارکباد دیتا ہے اور دوبارہ جگا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری پارٹی ہے اور ابھی تو صرف شروع ہوئی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس بچے کی برتھ ڈے پارٹی والدین دھوم دھام سے کرتے ہیں وہ باقی سارا سال اپنے برتھ ڈے کے خواب دیکھتا ہے۔
نارمل زندگی اس کو بے معنی لگتی ہے، ایک بڑا سا کیک سجا ہو، جھلمل موم بتیاں ہوں، رنگ برنگے کاغذوں میں لپٹے تحفے ہوں، بچوں کی ایک فوج آپ کی طرف حاسدانہ نظروں سے دیکھ رہی ہو، آپ کے بزرگ مسخروں والی ٹوپیاں پہنے تالیاں بجا رہے ہوں، آپ پر فخر کر رہے ہوں، باقی سال بچہ اس دن کے انتظار میں گزارتا ہے۔ کسی دوسرے بچے کی برتھ ڈے پارٹی ہو تو بچہ روہانسا ہو جاتا ہے کہ میری برتھ ڈے کیوں نہیں ہے۔
ایسے بچے بڑے ہو کر بڑی کمپنیوں کے بڑے افسر بنتے ہیں جہاں پر خوشامدیوں کی اتنی آمد ہوتی ہے کہ وہ ہر دن آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ سر آج تو ہیپی برتھ ڈے نہ ہو جائے۔ اور اگر والد محترم فاتح جنرل رہے ہوں تو باقی خالو چاچے بھی سمجھتے ہیں کہ ہم تو پلاٹ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ہمارا ہونہار بچہ اربوں کھربوں کی کمپنی چلا رہا ہے۔ اس کو ایک برتھ ڈے کارڈ بھیجتے ہیں تو شاید ہمارے بہی کھاتے بھی یہی سنبھال لے۔
اسد عمر نے پاکستان کا بہی کھاتہ سنبھالا یعنی وزیر خزانہ بنے (وہ تو عاطف میاں کا بعد میں پتا چلا کہ دنیا کا شاید انتہائی ذہین معاشی ماہر ہو لیکن بنے تو۔۔۔) تو انھوں نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں تو ہر دن کا آغاز جنید جمشید کا گایا ہوا نغمہ سن کر کرتا ہوں۔
مجھے تھوڑا سا خوف آیا کہ یہ ہمارا خزانہ گانے سنتے سنتے کیسے سنبھالے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ سٹرنگر والے بھی اپنے گھریلو مسائل حل کرنے کے لیے اپنے گانے نہیں گاتے ہوں گے۔ پھر یہ خیال آیا کہ عمران خان نے بھی ورلڈ کپ نصرت فتح علی خان کو سن کر ہی جیتا تھا۔
اسد عمر وزارت خزانہ سے فارغ ہوئے پھر پتا نہیں سٹرنگر کو سنتے رہے یا بینڈ بدل لیا۔ ہمارے چینی وغیرہ کے مسائل حل کرکے آجکل اس محکمے کے سربراہ ہیں جس نے ہمیں وبا سے بچانا ہے اور ایک بار پھر ہمیں مبارکبادیں بھیج رہے ہیں یعنی کہہ رہے ہیں مجھے دیکھو اور بولو ہیپی برتھ ڈے۔
سو دنوں کی جدوجہد میں کہیں ذکر نہیں کہ ہم نے کورونا کے لیے حفاظتی کٹ مانگنے والوں کے سر پر ڈنڈے برسائے، لاک ڈاؤن کریں نہ کریں کی تکرار کرتے رہے، علما سے مشورے اتنے مانگے کہ علما بھی تنگ آنے لگے، آخر میں وبا نے شیخ رشید کا گھر دیکھا تو بقول ان کے بقول ان کے انھیں ٹیکا نہیں ملا اور آخر میں جنرل صاحب نے ڈھونڈ کر دیا۔ آخر ایک جنرل کتنے لوگوں کے لیے ٹیکے ڈھونڈوا سکتا ہے۔
اپنے ادارے میں اسد عمر صاحب نے ایک دیوار بنا رکھی ہے جس پر آنے جانے والے پیغامات لکھتے ہیں۔ ایک طریقے سے اسد عمر نے اپنے لیے برتھ ڈے کارڈ کا مستقل بندوبست کر رکھا ہے۔
وبا کے سو دن پورے ہونے پر انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کا لکھا ہوا پیغام ہم سے شیئر کیا جس میں ظاہر ہے اسد عمر کے لیے جیتے رہو، پھولو پھلو ٹائپ کا پیغام تھا۔ تو وبا کے سو دن پورے ہونے پر ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسد عمر کو پیغام بھیجیں کہ ‘ہیپی برتھ ڈے بے بی، مے یو ہیو مینی مور۔