اسلام آباد میں مندر کی تعمیر سے متعلق درخواستیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق دائر درخواستیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پیر کے روز ان درخواستوں کی سماعت کی۔
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے ڈائریکٹر اربن نے عدالت کو بتایا کہ اس مندر کا بلڈنگ پلان نہ ہونے کی وجہ سے کام رکوا دیا ہے۔
بینچ کے سربراہ نے سی ڈی اے کے افسر سے استفسار کیا کہ پلاٹ کس جگہ واقع ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوگا۔
جواب میں سی ڈی اے حکام نے جواب دیا کہ مندر کمپلکس کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں سنہ 2016 میں پلاٹ دینے کے حوالے سے ہندو برادری کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی طرف سے دی گئی درخواست پر کارروائی شروع ہوئی۔
حکام نے بتایا کہ اس درخواست پر قانونی کارروائی کے لیے اسے مختلف اداروں کو بھجوایا گیا جس میں خفیہ ادارے بھی شامل تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2017 میں چار کنال کے قریب یہ اراضی مندر، کمیونٹی سنٹر یا شمشان گھاٹ کے لیے ہندو کمیونٹی کو الاٹ ہوئی۔
سی ڈی اے ڈائریکٹر اربن نے عدالت کو بتایا کہ وزارت مذہبی امور اور پولیس کی سپیشل برانچ کے علاوہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی سفارشات کی روشنی میں ہندو برادری کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اُنھیں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں مندر کمپلکس کی تعمیر کے لیے پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔
سی ڈی اے کی طرف سے مندر کی تعمیر کے حوالے سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق اس زمین کی کوئی قیمت نہیں لی گئی۔
یہ پلاٹ 33سال کی لیز پر دیا گیا گیا ہے جس میں لگاتار اتنے ہی عرصے کے لیے دو بار توسیع ہوسکتی ہے۔
اُنھوں نے عدالت کو بتایا کہ ہندو پنچایت کے نام یہ پلاٹ الاٹ ہوا ہے اور اس کے علاوہ اسلام آباد میں رہنے والی دیگر اقلیتوں کے لیے بھی سنہ 90 کی دہائی کے شروع میں قبرستان بنانے کے لیے پلاٹ الاٹ ہوئے۔
سی ڈی اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ شروع میں آرچرڈ سکیم بنائی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں مسلمانوں کے لیے قبرستان کی جگہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے بھی ان کے مذہب کے مطابق میتوں کو دفنانے کے لیے جگہ آلاٹ کی گئی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے سی ڈی اے کے ڈائریکٹر اربن سے استفسار کیا کہ مندر کی عمارت کا نقشہ آیا ہے منظوری کے لیے یا نہیں؟
جواب میں سی ڈی اے کے حکام کا کہنا تھا کہ یہ بات وہ تصدیق سے نہیں کہہ سکتے لیکن ان کی معلومات کے مطابق تقشہ ابھی تک منظوری کے لیے سی ڈی اے کے متعقلہ محکمے میں نہیں آیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ابھی تک مندر کی تعمیر کے لیے کوئی فنڈنگ نہیں کی۔
اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار چوہدری تنویر کے بقول مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کی طرف سے دس کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے اس مندر کی تعمیر کے لیے فنڈنگ نہیں دی ۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے مندر کے لیے فنڈنگ کے معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارشات مانگی ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں دینے کے اقدام سے دنیا میں اچھا پیغام نہیں جا رہا کیونکہ پاکستان کا آئین بھی غیر مسلموں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ مندر کی تعمیر کے لیے جگہ مختص کرنا اور اس کے لیے فنڈنگ دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت نہ فنڈنگ دے سکتی یےنہ مندر بنانے کی منظوری دے سکتی ہے۔
عدالت نے فریقین کے لائل سننے کے بعد اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ محفوظ کرلیا۔
مندر کی تعمیر متنازع ہونے کی وجہ سے مقامی پولیس نے اس علاقے میں پولیس کی پیٹرولنگ کو بڑھا دیا ہے۔
ایس پی انڈسٹریل ایریا شیخ زبیر احمد کے مطابق ہندوں کے اس کمپلیکس کی تمعیر پر کام کرنے والے ٹھیکیدار نے چوری کے خدشے کے پیش نظر اپنا عمارتی سامان کہیں دوسری جگہ منتقل کردیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جب ٹھیکیدار وہاں سے اپنا سامان منتقل کررہا تھا تو پولیس وہاں پر موجود تھی اور تصدیق ہونے کے بعد ٹھیکیدار کو اپنا سامان لے جانے کی اجازت دی گئی۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے سوشل میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی تھیں جس میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مندر کی تعمیر کے حوالے سے لاکھوں روپے مالیت کا عمارتی سامان چوری کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں اقلیتوں کو پلاٹ دینے کی پالیسی کیا ہے؟
سی ڈی اے کے حکام کے مطابق سیکٹر ایچ نائن ٹو میں مسیحی برادری کے علاوہ پارسیوں اور بہائی فرقے سے تعلق رکھنے والی برادتی کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے۔
سی ڈی اے کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر مظہر حسین کے مطابق سی ڈی اے کا ایچ نائن سیکٹر رہائش اور کمرشل بنیادوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس سیکٹر میں تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی پلاٹ دیے گئے ہیں اور ہر ایک کو ایک ہی سائز کے پلاٹ الاٹ ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مندر کی تعمیر کے حوالے سے سنہ 2011میں ہندو برادری کی طرف سے درخواست دی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ پانچ سال کے بعد یہ درخواست سنہ 2016 میں وزارت انسانی حقوق کے ذریعے سی ڈی اے کو بھجوائی گئی تھی اور ایک سال تک اس فائل پر کام ہوتا رہا جس کے بعد سنہ2017 میں یہ پلاٹ ہندو کمیونٹی کو الاٹ کیا گیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ پلاٹ الاٹ کرنے کے حوالے سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق اس جگہ پر مندر کے علاوہ شمشان گھاٹ اور کیمیونٹی سینٹر بھی تعمیر ہونا تھا۔
مظہر حسین کے مطابق اسلام آباد میں اس وقت تک تعمیراتی کام شروع نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ متعقلہ محکمے سے اس عمارت کا نقشہ منظور نہ کروایا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس عمارت پر تعمیراتی کام اس لیے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس عمارت کا نقشہ منظور نہیں ہوا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ابھی بھی اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں مختلف اقلیتوں کے لیے سینٹر کام کر رہے ہیں جنمیں آغا خانیوں کے سینٹر کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیو میں بدھ مت کے لیے عبادت گاہ تعمیر کی گئی ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ میں بہائی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کمیونٹی سینٹر بنایا گیا ہے۔
سی ڈی اے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اور وفاقی دارالحکومت میں بسنے والی اقلتیوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے جو زمین الاٹ کی جاتی ہے اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کی جاتی۔
اُنھوں نے کہا کہ ایچ نائن سیکٹر میں جن اقلیتوں کو زمین الاٹ کی گئی ہے ان سے کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔