Site icon DUNYA PAKISTAN

ہندوستانی ململ جس کی بے پناہ مقبولیت تجارت کا ذریعہ بھی بنی اور غلامی کا طوق بھی

Share

سنہ 1851 میں اپنی بہن کو لکھے ایک خط میں ناول نگار جارج ایلیٹ نے ململ کے کپڑوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ’چھینٹے دار‘ کپڑے سب سے اچھے ہوتے ہیں، لیکن اس کا اثر ’چنٹزی‘ ہوتا ہے یہ لفظ ’چِنٹز‘ کا سب سے پہلا استعمال تھا۔

رائل اونٹاریو میوزیم میں ’چنٹز‘ کی نمائش کی کیوریٹر سارہ فی کا خیال تھا کہ ایلیٹ نے اصلی چنٹز کی جگہ سستی نقل کے بارے میں لکھا تھا۔ اصل کپڑے اس قدر شاندار تھے کہ جدید سائنس بھی اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔

اس وقت تک برطانیہ کی ٹیکسٹائل ملوں نے عالمی منڈیوں کو چنٹز یعنی چھینٹ کی سستی نقل سے بھر دیا تھا۔

مہنگے کپڑے کی سستی صنعتی نقل عام لوگوں کے لیے کی گئی تھی۔ چنٹز کپڑے ایک وقت میں نہ صرف قیمتی تھے بلکہ انھوں نے فیشن اور ڈیزائن میں انقلاب لانے میں بھی مدد کی۔ بہت سے معاملات میں اس نے تاریخ کا رخ بھی بدلا۔

پُرتشدد تاریخ

ہارورڈ یونیورسٹی کے مؤرخ ڈاکٹر سوین بیکرٹ کے مطابق چنٹز یعنی چھینٹ کی کہانی بہت وسیع اور المناک ہے۔

’یہ مسلح تجارت، استعمار، غلامی اور مقامی لوگوں کو بے دخل کرنے کی داستان ہے۔ بیکرٹ نے جس کہانی کا حوالہ دیا ہے وہ 15ویں صدی میں شروع ہوئی تھی لیکن چنٹز کی تاریخ اس سے بھی پرانی ہے۔‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے مؤرخ ڈاکٹر سوین بیکرٹ کے مطابق چنٹز یعنی چھینٹ کی کہانی بہت وسیع اور المناک ہے

انگریزی کا چنٹز لفظ اردو کے لفظ چھینٹ سے بنا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے چتی دار۔ فیئی نے اپنی کتاب ’کلاتھ دیٹ چینجڈ دی ورلڈ‘ میں لکھا تھا ’ہزاروں سال پہلے یہ کپڑا برصغیر کے علاقوں میں بنایا جاتا تھا۔‘

چنٹز یا چھینٹ ضروری نہیں کہ چمکدار یا پھول پتوں کے پرنٹ والا کپڑا ہو۔ سادہ الفاظ میں، چنٹز ایک روئی سے بنا ہوا کپڑا ہے جس پر رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔

چمکدار اور کڑک

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے کپڑوں کے لیے چنٹز کا استعمال کیا جاتا تھا۔ 18ویں صدی میں انگریزی بولنے والے لوگ ملوں میں تیار سوتی کپڑوں کے پرنٹ کے لیے اس کا استعمال کرنے لگے 19ویں صدی میں پھولوں کے پتوں کے ڈیزائن اور چمکنے والے کپڑے کو چنٹز کہا جانے لگا۔

’مہنگا ہندوستانی چنٹز یا چھینٹ چمکدار اور تھوڑا کڑک ہوتا تھا‘

رائل اونٹاریو میوزیم کی ایک اور کیوریٹر یا منتظم الیگزینڈرا پامر کا کہنا ہے کہ ‘مہنگا ہندوستانی چنٹز یا چھینٹ چمکدار اور تھوڑا کڑک ہوتا تھا۔‘

اس کی چھپائی دو طریقے سے کی جاتی تھی ایک لکڑی کے بلاک سے اور دوسرا قلم کاری کے ذریعے۔

انڈیا صدیوں سے چھینٹ کی برآمد کرتا رہا تھا لیکن سنہ 1498 میں واسکو ڈی گاما انڈیا پہنچے تب انڈین چھینٹ نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنی شروع کر دی تھی۔

واسکو ڈے گاما سے پہلے کرسٹوفر کولمبس نے کئی سال تک انڈیا کی کھوج لگانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

بیکرٹ کہتے ہیں کہ جب واسکو ڈے گاما پرتگال واپس گئے تو اپنے ساتھ نہ صرف بیش قیمت مصالحے لے کر گئے بلکہ انڈیا کے شاندار سوتی کپڑے بھی لے کر گئے۔

یہ اس تجارت کا آغاز تھا جو بعد میں پرتشدد رخ اختیار کر گئی جس پر تسلط حاصل کرنے کے لیے 100 سال بعد یورپی ممالک نے ایسٹ انڈیا کمپنی تشکیل دی۔

یہ اس تجارت کا آغاز تھا جو بعد میں پرتشدد رخ اختیار کر گئی جس پر تسلط حاصل کرنے کے لیے سو سال بعد یورپی ممالک نے ایسٹ انڈیا کمپنی تشکیل دی

واسکو ڈے گاما کے جانے کے بعد یورپی تاجروں نے بحر ہند کے خطے میں کپڑے کی تجارت شروع کی۔

یورپی منڈی

لیکن واسکو ڈے گاما جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہاں ان کے اونی اور لیلن کے کپڑوں کا کوئی حریدار نہیں۔ جس کے بعد وہ انڈین چھینٹ کپڑوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

انھوں نے پہلے اس علاقے میں انڈین چھینٹ کا کاروبار شروع کیا پھر انھوں نے یورپی منڈیوں کی طرف بھی نگاہ ڈالی۔

انھیں لگا کہ گھر میں بھی منافع کمایا جاسکتا ہے۔ کپڑوں کی تجارت میں ان کا انحصار پہلے عرب اور ترکی کے تاجروں پر تھا۔

لیکن جلد ہی انھوں نے ان دلالوں سے جان چھڑانا شروع کردی اور سمندر کے راستے انڈیا سے براہ راست کاروبار کرنے کا راستہ تلاش کر لیا۔

ان کی یہ کوشش کامیاب رہی۔

چھینٹ کو تمام ممالک میں لباس کے کپڑے کے طور پر نہیں اپنایا گیا تھا۔ فرانس میں اشرافیہ نے سب سے پہلے اس کا مطالبہ کیا

پندرویں صدی میں شروع ہونے والا ان کا چھینٹ کا کاروبار ’کیلیکو کریز‘ میں بدل گیا اور 17ویں صدی میں یہ عروج کو پہنچ گیا۔

انڈیا سے انگلینڈ جانے والے کپڑوں کو کلیکٹ کے بعد ’کالیکو‘ کہا جاتا تھا۔ بعد میں، عام رنگت کے سفید کپاس کے کپڑے کو کیلیکو بھی کہا جاتا تھا۔

فیشن کی دنیا میں پہنچنے سے پہلے چھینٹ کا استعمال اندرونی سجاوٹ میں کیا جاتا تھا۔

اشرافیہ کا فیشن

فیئی کے مطابق انڈین چھینٹ یا چنٹز اشرافیہ کے گھروں میں خاص طور پر رنگین قالین والے چھوٹے کمرے اور بیڈروم میں استعمال ہوتے تھے۔

وہ دیواروں اور بستروں کو ڈھانپتے تھے۔ وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم کے سینیئر کیوریٹر ڈاکٹر روزمیری کرل کے مطابق چنٹز کو بنیادی طور پرخواتین کا کپڑا تصور کیا جاتا تھا۔

وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم کے سینیئر کیوریٹر ڈاکٹر روزمیری کرل کے مطابق چنٹز کو بنیادی طور پرخواتین کا کپڑا تصور کیا جاتا تھا

یورپ میں انڈین ٹیکسٹائل تجارت کی علامت

سنہ 1625 تک یورپ لائے جانے والے چھینٹ کے کپڑے دل موہ لینے والے ہوا کرتے تھے۔ ان پر چھپے ہوئے پھولوں میں پھولوں والے پودوں کی نمایاں خصوصیات تھیں جن کے بارے میں کرل نے لکھا ہے کہ وہ یورپ میں انڈین ٹیکسٹائل کی تجارت کی علامت ہیں۔

انڈیا اور آس پاس کے علاقوں میں کھپت والی ’چھینٹ‘ رنگین ہوا کرتی تھی۔ جبکہ یورپ بھیجے جانے والے کپڑے زیادہ تر سفید تھے۔ اس وقت چین کا سیرامک ویئر بھی مشہور تھا۔

کرل لکھتے ہیں کہ سفید رنگ صحت، حفظان صحت اور پاکیزگی کے بارے میں بھی نئے معاشرتی اور ثقافتی رویوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔

دلکش اور پُر کشش کپڑے

17ویں صدی کے وسط سے لباس تیار کرنے کے لیے چھینٹ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ سنہ 1625 سے یورپی تاجروں نے ہندوستانی فنکاروں کو یورپی جمالیات کے مطابق ڈیزائن تیار کرنے کی ہدایات دینا شروع کردی۔

چھینٹ کو تمام ممالک میں لباس کے کپڑے کے طور پر نہیں اپنایا گیا تھا۔ فرانس میں اشرافیہ نے سب سے پہلے اس کا مطالبہ کیا۔

لیکن انگلینڈ اور سپین میں لوگوں نے سنہ 1670 کی دہائی کے بعد اسے پہننا شروع کیا۔ ’کام کرنے والی خواتین نے کئی دہائیاں قبل اسے اپنایا تھا۔‘

پورے یورپ میں ہر طبقے کے لوگ مرد اور خواتین دونوں اسے پہن سکتے تھے لہٰذا ہندوستانی چھینٹ بڑے پیمانے پر فیشن کا پہلا کپڑا سمجھا جاتا ہے۔

یورپ کے فسادات

فیئی لکھتی ہیں کہ ریشم، کتان، جوٹ اور لینن بنانے والے تاجروں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے اور غیر مسیحوں کے ہاتھوں تیار ہونے والے سوتی کپڑوں کے خلاف فسادات ہوئے

عام لوگوں کے لیے ریشم پہننے کے ضابطے تھے لیکن سوتی کپڑے کے بارے میں کوئی ضابطہ نہیں تھا اور چھینٹ کے کریز سے یورپ میں درآمد کرنے والے تاجروں کو بہت منافع ہوا۔ لیکن یورپ کے مقامی تاجر اس سے خوش نہیں تھے۔

فیئی لکھتی ہیں کہ ریشم، کتان، جوٹ اور لینن بنانے والے تاجروں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے اور غیر مسیح افراد کے ہاتھوں تیار ہونے والے سوتی کپڑوں کے خلاف فسادات ہوئے۔

گھریلو تجارت کے دفاع کے لیے فرانس میں سنہ 1686 سے سنہ 1759 کے درمیان چھینٹ پر پوری طرح پابندی لگا دی گئی۔

برطانیہ نے سنہ 1700 سے سنہ 1774 تک اس پر جزوی پابندی لگائی تھی۔

تاہم ملک بدری کا خطرہ اٹھاتے ہوئے بھی تاجروں نے یورپ میں چھینٹ کی سمگلِنگ جاری رکھی اور لوگ اسے پہنتے رہے

چھینٹ کی نقل

سپین، وینس، سلطنت فارس (موجودہ ایران جس کا حصہ تھا) اور سلطنتِ عثمانیہ (ترکی) میں بھی چھینٹ کے بارے میں کئی طرح کے احکامات جاری کیے گئے۔

تاہم ملک بدری کا خطرہ اٹھاتے ہوئے بھی تاجروں نے یورپ میں چھینٹ کی سمگلِنگ جاری رکھی اور لوگ اسے پہنتے رہے۔

سنہ 1700 کے دوران یورپی ٹیکسٹال ملوں نے گھریلو سطح پر چھینٹ کی نقل بنانی شروع کر دی اس سے تکنیکی بہتری بھی آئی۔

برطانیہ یورپ میں کپڑے پرنٹ کرنے والا بڑا ملک بن گیا لیکن اس وقت تک برطانیہ سوتی کپڑے کی کھپت کے لیے کافی حد تک انڈیا پر انحصار کرتا تھا۔

برطانوی تاجر نہیں چاہتے تھے کہ ان کا منافع کوئی اور بھی لے۔ بد قسمتی سے انھوں نے اس مسئلے کا جو حل نکالا وہ تباہ کن ثابت ہوا۔

امریکہ نے روئی کی ایسی اقسام تیار کیں جو سردی کو برداشت کرسکیں اور وہ مشینوں کے لیے موزوں تھیں

امریکی المیہ

امریکہ نے روئی کی ایسی اقسام تیار کیں جو سردی کو برداشت کرسکیں اور وہ مشینوں کے لیے موزوں تھیں۔ اس روئی کو کاشت کرنے کے لیے مغربی افریقہ سے غلاموں کی خدمات حاصل کی گئیں، جنھیں انھوں نے یورپی اور ہندوستانی روئی کے بدلے خریدا تھا۔

ان غیر اخلاقی طریقوں کے ساتھ برطانوی تاجروں نے بھی سنہ 1770 اور سنہ 1830 کے درمیان نئی ٹیکنالوجی اپنائی تھی۔

بڑے صنعتی انقلاب کا سبب

فیئی کے الفاظ میں انگریز تاجروں نے دنیا کی پہلی بڑی فیکٹریاں لگائیں اور مل شہر بسائے۔ بیکرٹ نے اپنی کتاب ‘امپائر آف کاٹن’ میں لکھا ہے یہ بڑے صنعتی انقلاب کے لیے ’لانچِنگ پیڈ‘ یعنی بنیاد بنی۔

سنہ 1776 میں امریکہ میں آزادی کے اعلان کے بعد مغرب میں چھینٹ کی طلب میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی اور برطانیہ کے ہاتھ سے اپنی مشینی چھینٹ کے لیے امریکی منڈی نکل چکی تھی۔

انیسویں صدی میں یورپی فیشن اور روایات تبدیل ہوئیں اور رنگ برنگے کپڑے سٹائل سے باہر ہو گئے۔

اٹھارویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں فن اور دستکاری کی تحریک نے صنعتی مصنوعات کی تردید اور دستکاری اور ڈیزائنوں کو اپنانے پر زور دیا۔

چنٹز کی واپسی

انٹیرئر ڈیکوریشن کے لیے چنٹز کی طلب برطانیہ کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی مشرقی کالونیوں میں بھی برقرار رہی۔ ایران جیسے ممالک میں اس کی مانگ بڑھ رہی تھی جو انڈیا کی ایک بڑی مارکیٹ تھی۔

چھینٹ انیسویں صدی میں مغربی فیشن سے باہر ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اس نے کئی بار فیشن کی دنیا میں واپسی کی۔ ان میں سب سے نمایاں سنہ 1960 کی دہائی کا ’ہِپی‘ فیشن ہے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں انٹیریئر ڈیکوریشن، اندرونی سجاوٹ، کے لیے لورا ایشلے جیسے برانڈز نے اسے خوب استعمال کیا اور اسے مقبول بنایا۔ لیکن آئکیہ سٹور نے اپنی سنہ 1996 کی بااثر مہم ‘چک آؤٹ یور چنٹز’ کے زریعے اسے پیچھے دھکیل دیا۔

فیئی کا کہنا ہے کہ اس میں ‘دادی ماں کے پردے’ کے جیسا احساس تھا حالانکہ بہت سے لوگوں کی رائے مختلف ہے

سستی برطانوی نقل

جارج ایلیٹ نے اصل چھینٹ کی سستی برطانوی نقل کے لیے ‘چنٹز’ کا لفظ دیا تھا پھر پھولوں کے پتوں کے ڈیزائن میں یہ ہر چیز کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

فیئی کا کہنا ہے کہ اس میں ’دادی ماں کے پردے‘ کے جیسا احساس تھا حالانکہ بہت سے لوگوں کی رائے مختلف ہے۔

وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم کی کیوریٹر دیویہ پٹیل کے مطابق انڈیا میں عصری ڈیزائنر سفیان کھتری اور راجیش پرتاپ سنگھ چنٹز اور دیگر دیسی لباس استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے ایلونڈ ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ انڈین فیشن ویک کیٹ واک میں ریٹیل شاپس اور سٹی مالز میں اجرک جیسی چنٹز کی اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔

چتی دار کپڑوں کا فیشن

چھینٹ کو صرف اس کے اصل مقام پر ہی نہیں سراہا گیا ہے۔ الیگزینڈر میک کیوین، سارہ برٹن، رچرڈ کوئن، ایرڈیم مورالیولو اور مولبی سے جانی کوکا جیسے جدید ڈیزائنر سنہ 2010 کے بعد سے چھینٹ کا استعمال کررہے ہیں۔

کیتھ کڈسٹن اور بیٹسی جانسن جیسے ڈیزائنرز کئی دہائیوں سے چھینٹ کا استعمال اور اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کڈسٹن کہتے ہیں ‘میں ہمیشہ ہی چھینٹ کی طرف راغب ہوا ہوں۔ یہ طباعت اور مصوری کے معاملے میں حیرت انگیز کپڑے ہیں اس کی مختلف قسمیں ہیں۔

اسی طرح جانسن کا کہنا ہے کہ چھینٹ پچھلے 35 سالوں سے میرے کام کا بنیادی مرکز رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح جانسن کا کہنا ہے کہ چھینٹ پچھلے 35 سالوں سے میرے کام کا بنیادی مرکز رہا ہے

سنہ 2010 میں ‘ووگ’ سمیت متعدد جریدوں میں چنٹز یا چھینٹ کی واپسی کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ سنہ 2018 میں ووگ نے لکھا ہے کہ ‘پرنٹ بڑے پیمانے پر واپس آیا ہے’۔ یہ ابھی تک حقیقت میں تبدیل ہونا باقی ہے۔

اس کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ چنٹز یا چھینٹ فیشن کے ساتھ ختم ہونے والا نہیں ہے

لیکن اس کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ چنٹز یا چھینٹ فیشن کے ساتھ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بیٹسی جانسن کہتے ہیں ،’یہ گھر کی سجاوٹ اور فیشن میں ہمیشہ آتا اور جاتا رہے گا کیونکہ یہ بہت عمدہ ہے۔

Exit mobile version