حقیقت فقط اتنی ہے کہ گزرے اتوار کی صبح اُٹھا تو احساس ہوا کہ آج 5جولائی ہے۔اس حوالے سے جولائی 1977کی یاد آگئی۔ذہن میں کسی فلم کے سین کی طرح وہ لمحات گھومنا شروع ہوگئے جب تین ’’دانشور‘‘ بزرگوں کے ہمراہ بیٹھ کر جنرل ضیاء کی ’’میرے عزیز ہم وطنو…‘‘ والی تقریر سنی تھی۔اس خطاب کے ختم ہوتے ہی میرے سینئرز نے متفقہ اعلان کردیا کہ ہوشیار اور چالاک ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء کو سازشی انداز میں مارشل لاء لگانے کی ’’اجازت‘‘ دی ہے۔موصوف نے 90دنوں میں نئے انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ساتھ ہی انہیں منصفانہ اور شفاف بنانے کا وعدہ بھی کیا۔ اس تقریر کے بعد مارچ 1977سے اُس ماہ ہوئے عام انتخابات کے دوران ہوئی ’’دھاندلی‘‘ کے خلاف جاری احتجاجی تحریک دم توڑ جائے گی۔ سیاسی جماعتیں نئے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوجائیں گی۔بھٹو کے مخالف چونکہ نو جماعتوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔اس لئے وہ پیپلز پارٹی کے ’’ووٹ بینک‘‘ کو توڑ نہیں پائیں گے۔بھٹو صاحب اس کی بدولت خواہ سادہ اکثریت سے ہی ایک بار پھر برسراقتدار آجائیں گے۔فوج کی نگرانی میں ہوئے انتخابات میں ’’دھاندلی‘‘ کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکے گا۔واقعہ یہ بھی ہوا کہ مذکورہ تقریر کے اختتام اور اسکے بارے میں دانشور سینئرز کی متفقہ رائے سننے کے بعد میں راولپنڈی چلا گیا۔کمیٹی چوک اور راجہ بازار میں لوگوں سے گپ شپ لگائی۔انکی اکثریت بھی یہ ہی سوچ رہی تھی۔ 90دنوں میں لیکن نئے انتخابات نہیں ہوئے۔ بھٹو صاحب کو ایک طویل عدالتی عمل کے بعد پھانسی پر چڑھادیا گیا۔بعدازاں افغانستان کو کمیونزم سے بچانے کے لئے ’’جہاد‘‘ شروع ہوگیا۔جنرل ضیا گیارہ برس تک اس ملک کے گج وج کر بہت ہی بااختیار حکمران رہے۔مجھ ایسے لوگ ان کے دورِ اقتدار میں ’’مزاحمت‘‘ دکھانے کے جنون میں مبتلا رہے۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوا تو یہ خیال ستانا شروع ہوگیا کہ ’’مزاحمت‘‘ کے یہ برس غالباََ وقت کا زیاں تھے۔ رائیگاں کا سفر۔
5جولائی 2020کی صبح اُٹھ کر جولائی 1977کی بابت جو خیالات آئے تھے انہیں روانی میں اس کالم میں بیان کردیا۔پیر کے روز مگر یہ کالم چھپا تو مجھ پر ’’مایوسی‘‘ پھیلانے کا الزام لگا۔چند بہت ہی عزیز دوستوں اور قابل احترام قارئین نے ٹیلی فون،ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے ردعمل کا اظہار کیا جس کی بدولت مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کالم کی روانی میں شاید مجھ سے کوئی ’’بدعت‘‘ سرزدہوگئی ہے۔ میں جنرل ضیاء کے دور میں اختیار کردہ ’’مزاحمت‘‘ کے بارے میں ’’معافی کا طلب گار‘‘ نظرآیا ہوں۔
5جولائی 1977کو شروع ہوا قصہ 17اگست 1988کی سہ پہر بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔اس دن کو بھی اب 32برس گزر گئے۔’’معافی‘‘ اب کس سے طلب کی جائے۔بچپن میں دیکھی ایک فلم یاد آگئی۔محمد علی کے خلاف سنائی عمر قید کی سزا اعلیٰ عدالت سے ناحق قرار پائی ہے۔ اپنی گرجدار آواز میں ہمارے ان دنوں کے سپرسٹار ’’جج صاحب‘‘ سے اپنی زندگی کے چودہ برس لوٹانے کا تقاضہ کرتے ہوئے تماشائیوں کے دل موہ لیتے ہیں۔
جنرل ضیاء کے بارے میں اختیار کردہ ’’مزاحمت‘‘ کی معذرت خواہی ویسے بھی پیر کی صبح چھپے کالم کا عنوان ہی نہیںتھی۔ بنیادی توجہ ’’خوش گمانی‘‘ پر مرکوزرکھی۔ٹھوس واقعات کو ذہن میں لاتے ہوئے عرض فقط اتنی گزاری کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل صاحب نے جو تقریر کی تھی اس نے ’’دانشوروں‘‘ اور عوام کو اس گماں میں مبتلا کردیا کہ بھٹو صاحب اور جنرل ضیاء نے ’’باہمی چالاکی‘‘ سے مارشل لاء لگایا ہے۔شدید پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت بھی ایسا سوچتے ہوئے اقتدار کے کھیل کی مبادیات سے نابلد نظر آئی۔ مارشل لاء لگانے کا اعلان کرتے ہوئے جنرل ضیاء کے ذہن میں جو ’’گیم پلان‘‘ تھا اسے کوئی سمجھ ہی نہ پایا۔چین کا ایک قدیم مفکر ہے۔اس نے جنگ کو ’’آرٹ‘‘ بتایا ہے۔اس کا بنیادی پیغام یہ رہا کہ اس ’’علم‘‘ کا اصل ہنر یہ ہے کہ دشمن طویل عرصے تک اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ اس پر ’’قبضہ‘‘ ہوچکا ہے۔وہ میدانِ جنگ میں اترے بغیر ہی ہارچکا ہے۔ ’’دشمن‘‘ کو اپنے ارادے سے بے خبر رکھنا ہی اس فلاسفر نے ’’فنِ حرب‘‘ کا اصل کمال ٹھہرایا تھا۔ میری عاجزانہ رائے میں 5جولائی 1977کے دن جنرل ضیاء نے اس ہنر کو حیران کن مہارت سے استعمال کیا تھا۔ موصوف کے طویل المدتی گیم پلان پر توجہ دینے کے بجائے ہم سادہ لوح نوے دنوں میں نئے انتخابات کا انتظار کرتے رہے۔اپنے مخالف کو خوش گمانی میں مبتلا رکھنے کا ذکر چلا ہے تو میں یہ حقیقت بھی یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ پیپلز پارٹی کے عام کارکنوں سے لے کر اعلیٰ ترین قیادت بھی 4اپریل 1979کی صبح تک اس گماں میں مبتلا رہی کہ بھٹو صاحب جیسے عالمی سطح کے رہ نما کو ’’بین الاقوامی برادری‘‘ پھانسی نہیں لگنے دے گی۔شاید ان کے ساتھ کوئی ایسی ہی ڈیل ہوجائے گی جو کئی برس گزرنے کے بعد جنرل مشرف نے نواز شریف کو فراہم کی تھی۔
محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ سے ان دنوں میں ڈاکٹر ظفرنیازی کے گھر میں تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر ملا کرتا تھا۔ بھٹو صاحب سے ان کی ہفتے میں ایک دن جیل میں ملاقات ہوتی تھی۔ اس ملاقات کے بعد وہ لوگوں سے ملنے کو گریز کرتیں۔ مجھے لیکن شام کی چائے کے لئے بلاتیں۔ میرے ساتھ تنہا بیٹھی وہ انتہائی فکرمندی سے دہراتی رہتیں کہ ’’ضیا صاحب(یعنی بھٹو کو) ہر صورت پھانسی چڑھائے گا۔میری جماعت کے لوگ مگر یہ بات سمجھ نہیں پارہے‘‘۔مذکورہ ملاقاتوں کی بنیاد پر میں نہایت ا عتماد سے یہ دعویٰ بھی کرسکتاہوں کہ بذاتِ خود ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس ضمن میں ’’خیر‘‘ کی کوئی اُمید نہیں تھی۔’’تاریخ‘‘ کی بھول بھلیوں میں بھٹک جانے کو جی آمادہ نہیں ہوتا۔ڈنگ ٹپائو کالم نگار ہوں۔ذات کا رپورٹر ہوں۔Here and Nowپر توجہ مرکوز رکھنا جبلت کا حصہ بن چکا ہے۔پیر کے روز چھپے کالم کا بنیادی موضوع ’’خوش گمانی‘‘ تھا۔اقتدار کے کھیل کو کئی برس بہت قریب سے دیکھنے کے بعد خود کو یہ کہنے کو بھی مجبور پاتا ہوں کہ ہوشیارومکار اشرافیہ جان بوجھ کر ’’خوش گمانیوں‘‘ کو فروغ دیتی ہے۔ہماری توجہ بٹانے کو ’’پھل جڑیاں‘‘ چھوڑ ی جاتی ہیں۔ان دنوں شدومد سے میڈیا میں زیر بحث آئی’’مائنس ون‘‘والی کہانی بھی ایسی ہی ایک ’’پھل جڑی‘‘ ہے۔ نہلے پہ دھلے کی طرح اسے ’’غیر مؤثر‘‘ بنانے کے لئے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُبھرنے بقراطِ عصر نے ’’مائنس تھری‘‘کی پھلجڑی چھوڑدی۔اس کی بنیاد پر بے تحاشہ داد وصول کی۔ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ’’اندر کی باتیں‘‘ صرف انہیں معلوم ہوتی ہیں۔کہانی اب یہ بھی چل پڑی ہے کہ ’’مائنس ون‘‘ کی داستان پھیلانے والوں کو ’’شٹ اپ‘‘ کال دی جاچکی ہے۔یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ مبینہ ’’شٹ اپ کال‘‘ کہاں سے کن افراد کو ملی ہوگی۔غوروفکر کی زحمت سے پرہیز کرنے والے فارغ البال اذہان کو سوشل میڈیا پھلجڑیوں سے بنائے مناظر میں محو رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔Here and Nowوالے سوالات اٹھانے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔مثال کے طورپر حال ہی میں FBRکی سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔عمران حکومت کے دو برس گزرنے سے قبل ہی محصولات جمع کرنے کے حتمی ادارے کا پانچواں سربراہ مقرر ہوا ہے۔سابق چیئرمین کی رخصت کی ’’بنیادی وجہ‘‘ سوشل میڈیا پر انتہائی اعتماد سے بیان کردی گئی ہے۔اس کا ناطہ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے سے جوڑا رہا ہے۔جان کی امان پاتے ہوئے یہ عرض کرنے کو مجبور ہوں کہ ’’بنیادی وجہ‘‘ ہرگز وہ نہیں جو بیان کی جارہی ہے۔نام نہاد Big Pictureکو دیکھنا ہوگا۔ اس پر نگاہ ڈالیں تو بآسانی دریافت ہوسکتا ہے کہ عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے دن سے محاصل کے جو اہداف مقرر کئے جاتے رہے ہیں ان کا حصول عملی اعتبار سے تقریباََ ناممکن ہوچکا ہے۔ مارچ 2020سے ہم کرونا کی زد میں بھی آچکے ہیں۔ 1951-52کے مالیاتی سال کے 68برس گزرجانے کے بعد پاکستان کی شرح نمو ایک بار پھر منفی کی حد سے نیچے چلی گئی ہے۔بنیادی سوال اب ریاستِ پاکستان کے لئے یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جائیں یا فی الوقت اس ضمن میں سوچے اہداف کو نظرانداز کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو بہلاپھسلا کر بازار میں رونق لگانے کی ترغیب دی جائے۔ اس ضمن میں مناسب حکمت عملی طے نہیں ہوپارہی۔
ہماری معیشت کو ’’بحال‘‘ کرنے کے لئے IMFنے ایک نسخہ تیار کیا تھا۔اس کے مؤثر اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر جیسے ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ عمران حکومت کو عطا ہوئے۔ جو نسخہ تیار ہوا تھا اس کے اثرات ستمبر2022میں نظر آنے تھے۔ کرونا اور ٹڈی دل نے مگر اس نسخے کا اطلاق ناممکن بنادیا ہے۔اب کوئی نیا نسخہ درکار ہے۔’’مائنس ون‘‘ میں وقت ضائع کرنے کے بجائے میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ مطلوبہ نسخہ حفیظ شیخ صاحب ہی تیار کریں گے یا عمران حکومت کو اب اس کی دریافت کے لئے ایک نیا وزیر خزانہ بھی درکار ہوگا۔ اس ضمن میں شوکت ترین سے رجوع کیا جائے گا یا حماد اظہر یہ عہدہ سنبھالنے کی استعداد حاصل کرچکے ہیں۔