ایک نکتہ واضح ہونا چاہیے۔ تنازعات کا ہونا الگ چیز ہے۔ دشمنی بالکل دوسری بات ہے۔ روس اور جاپان کا چار چھوٹے جزیروں پہ تنازعہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے چل رہا ہے لیکن روس اور جاپان میں کوئی دشمنی نہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب اور ایران میں کوئی خاص تنازعہ نہیں ہے لیکن یہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مخصوص تنازعات موجود ہیں، جن میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہے‘ لیکن ان تنازعات سے بڑھ کر دونوں ممالک ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔ اس دشمنی کی جڑیں تاریخِ برصغیر میں پنہاں ہیں، اور یہ دشمنی تنازعہ کشمیر سے پہلے کی ہے۔ مخاصمت کی دیواریں مسلمانوں اور ہندوؤں میں تب کی کھڑی ہیں جب کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تقسیمِ ہند پہلے ہوئی، کشمیر کا تنازعہ کچھ دیر بعد پیدا ہوا۔ لہٰذا یہ سوفیصد درست بات نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں صرف کشمیر کا مسئلہ ہے اور اگر یہ حل ہو جائے تو دوستی کی پینگیں بڑھ جائیں گی۔ آج کشمیر کا مسئلہ نہ ہو تب بھی دونوں قومیں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہیں گی۔اس لئے پوچھنے کی ضرورت بنتی ہے کہ اصل لڑائی کس بناء پہ ہے۔ ایک بات تو واضح ہونی چاہیے، تاریخ کے تناظر میں ہندو قوم نے مسلمان علاقوں یا سلطنتوں پہ حملہ نہیں کیا تھا۔ حملے ہندوستان پہ ہوئے اور وہ باہر سے آئے۔ مسلمان حملہ آور فاتح تھے اور ہندو قوم مفتوح ٹھہری۔ مسلمان سلطانوں نے ہندوستان کے بیشتر علاقے پہ آٹھ سوسال سے زیادہ حکمرانی کی۔ سلطنتِ مغلیہ زوال پذیر ہوئی تو ہندوستان میں مسلمانوں کا زور ٹوٹتا چلا گیا۔ جہاں ایک زمانے میں مسلمان ایک اُبھرتی قوم تھے، اٹھارہویں صدی اور اُس کے بعد مسلمان ہندوستان میں ایک کمزور اور گرتی ہوئی قوم کی حیثیت حاصل کر چکے تھے۔ مغل بادشاہت محض ایک سایہ ہو کے رہ گئی تھی۔ ہر طرف سے اُسکی عزت و توقیر پہ حملے ہو رہے تھے۔ جنوب میں مراٹھوں نے زور پکڑ ا ہوا تھا۔ پنجاب میں سکھوں کی ایک نئی حیثیت اُبھر رہی تھی۔ جاٹ دہلی پہ حملہ آور تھے اور دور بنگال میں سفید رنگ رکھنے والے انگریز اپنی اُبھرتی طاقت کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ با الفاظ دیگر، گزرے ہوئے کل کی فاتح قوم نے زوال کی منزلیں طے کرنا شروع کر دی تھیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کو تو انگریزوں نے بچایا۔ ہندوستان پہ انگریزوں کا راج قائم ہوا تو مختلف خانہ جنگیاں بھی ختم ہوئیں۔ مراٹھوں، سکھوں اور جاٹوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی پسپائی رُک گئی۔ ہندوستان میں انگریزوں نے استحکام پیدا کیا۔ وہ استحکام مسلمانوں کے کام بھی آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ 1857ء کی بغاوت کے بعد دہلی اور وسطی ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کے ہاتھوں زیر عتاب آئے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مغربی ہندوستان کے مسلمان، یعنی وہ پختون اور پنجابی دستے جو برطانوی فوج کا حصہ بن چکے تھے، نے بغاوتِ 1857ء کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ سراسر غلط بات ہے کہ انگریز مسلمانوں کے دشمن تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی صورت میں انگریزوں کو سیاسی مسئلہ ہندوؤں سے پڑا۔ انڈین قوم پرستی نے زور پکڑا تو مسلمانوں کو بھی ہندو اکثریت سے ڈر لگنے لگا‘ لہٰذا انگریزوں اور مسلمانوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ وہ ہندو اکثریت اور انڈین نیشنل کانگریس کی شکل میں انڈین قوم پرستی کو مخاصمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ کڑوی بات ہے لیکن انکار کی گنجائش نہیں کہ کانگریس انگریزوں کے خلاف لڑی۔ اس لڑائی میں مسلم لیگ کا کوئی حصہ نہ تھا۔ مسلمانوں کے دلوں میں خوف ہندوؤں کا تھا اور اسی خوف سے تحریک پاکستان نے جنم لیا۔ انگریز مسلمانوں کی الگ حیثیت کو تسلیم نہ کرتے تو پاکستان کا بننا مشکل ہو جاتا۔
لیکن تاریخ کے محرکات جو بھی ہوں، پاکستان تو بن گیا یعنی اُس دھرتی پہ جس کی پہچان زمانۂ قدیم سے ہندو مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی تھی ایک مسلمان ریاست قائم ہو گئی۔ قائد اعظم نے تو کہا تھا کہ مجھے ایک کٹا چھٹا (moth-eaten) پاکستان ملا ہے‘ لیکن مل تو گیا۔ یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کامیابی کی بدولت مسلمانوں کا اعتماد بڑھنا چاہیے تھا اور اُن کی سوچ میں ایک وسعت آنی چاہیے تھی۔
یہودی عرب سرزمین میں اپنی ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے اپنے دلوں میں اعتماد پیدا کیا۔ ارد گرد تعداد عربوں کی زیادہ تھی۔ آج کے اسرائیل سے 1948ء کا اسرائیل خاصا چھوٹا تھا لیکن یہودیوں کو اعتماد اور قابلیت کی برتری حاصل تھی اور ان خوبیوں کی بدولت انہوں نے مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کی بنیادیں رکھیں۔
ہمارا مسئلہ بالکل ہی مختلف رہا۔ ہندوستان میں آٹھ سو سال سے زیادہ مسلمان سلطنتیں قائم رہیں۔ پورے ہندوستان میں، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک، مسلمان حاکمیت کی نشانیاں قائم ہوئیں اور بیشتر جگہوں پہ اب بھی ماضی کی یاد دلانے کیلئے موجود ہیں۔ انگریز حکمرانی قائم ہوئی تو اُس کے بعد ایک نئی مسلم ریاست، جس کا وجود تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھا، قائم ہوئی۔ یہ شاندار اور جگمگاتی تاریخ ایک با اعتماد قوم اور ترقی یافتہ ملک کی بنیاد بننی چاہیے تھی‘ لیکن جو اس نئی ریاست کے باسی ٹھہرے ہم نے تو کمال ہی کر دیا۔ ذہن اپنے بند کر دئیے اور انجانے خوفوں کے اندر اپنے آپ کو محصور کر لیا۔ اس نئی ریاست کو برصغیر میں وسعتِ ذہن اور مادی ترقی کی نشانی ہونا چاہیے تھا‘ لیکن پتا نہیں کن راہوں پہ اس مملکت کے باسیوں نے اپنے آپ کو ڈال دیا۔ماضی کی فتوحات ہماری، سلطنتیں ہماری، حکمرانی کی نشانیاں ہماری اور ڈر کون رہا ہے؟ ہم۔ ہندوستان ہمارا دشمن ہے، وہ ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، ہماری تباہی کا متلاشی ہے۔ یہ سوچ نہ صرف مخمصہ ہے بلکہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اتنے ترقی پذیر ہوتے کہ ہندوستان والے حسد کی آگ میں جل جاتے۔ تعلیم، انڈسٹری، فکر اور سوچ میں ہم اتنے آگے ہوتے کہ ہندوستانی کہتے کہ ہم تاریخ کے ہاتھوں بھی مارے گئے اور اب بھی تاریخ کا پہیہ پیچھے نہیں موڑ سکے۔ تالے شاید اُن کی عقل پہ بھی لگے ہوں لیکن بڑے تالے ہم نے لگا رکھے ہیں۔ مادی چیزوں کو چھوڑئیے، تعلیم اور سوچ کے اعتبار سے ہم نے اپنے آپ کو کہیں پیچھے کی صدیوں میں دھکیل کے رکھا ہوا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ ہمارے تنازعات ہیں۔ وہ تنازعات حل طلب ہیں۔ لیکن یہ دشمنی کہاں سے آ گئی؟ اس دشمنی نے ہندوستان کو نقصان پہنچایا یا نہیں ہماری شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ بیس بائیس کروڑ کا ملک ہے لیکن ساری دنیا کو دیکھتا ہے ہندوستان کے تناظر میں۔ ہماری تمام کی تمام پالیسیاں ہندوستان کے گرد گھومتی ہیں۔ ایٹمی پروگرام کا جواز ہندوستان ہے۔ ہمارے بحری جہاز، ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ کا جواز ہندوستان ہے۔ کون کہتا ہے دفاع کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہیے؟ سوئٹزرلینڈ کا کسی اور ملک سے کوئی مسئلہ یا تنازعہ نہیں۔ اُس کا جھکاؤ کسی طرف نہیں۔ صحیح معنوں میں نیوٹرل ملک ہے لیکن اُس کی دفاعی صلاحیت انتہائی مؤثر ہے۔ نیوٹرل ہونے کے باوجود وہ اپنے دفاع سے غافل نہیں۔ لیکن دفاع کا مؤثر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف اور صرف دشمنی کی زبان میں گفتگو کی جائے۔
یہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آگ لگی ہوئی ہے اور کشمیری عوام مشکل ترین حالات میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ ماضی میں ہونے والی جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے کچھ ارادے تھے لیکن ہم ان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ہتھیاروں کی منطق سے بڑی منطق اور کوئی نہیں۔ لیکن جہاں جنگی ارادے کامیاب نہ ہوں وہاں اور راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ہم نہ ہتھیاروں کی زبان مؤثر انداز میں ادا کر سکے نہ اور راستے تلاش کر سکے۔