ان دنوں کراچی کا اصل مسئلہ اگر Here and Nowکی بنیاد پر سوچیں تو کے-الیکٹرک کی جانب سے فراہم کرد ہ بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں گرانقدر اضافہ ہے۔مون سون کی پہلی بارش ہوئی تو کراچی کے بے شمار علاقوں میں کئی گھنٹوں تک مہنگی ہوئی بجلی بھی دستیاب نہیں تھی۔ خلقِ خدا حبس کی شدت سے بلبلااُٹھی۔ لوگوں پرنازل ہوئے عذاب کا اس شہر سے قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت نے نہایت دردمندی سے ذکر شروع کردیا۔ اپنے قائدین کو یاد دلانا شروع ہوگئے کہ جولائی 2018کے انتخابات کے دوران کراچی نے تحریک انصاف کی صورت ایم کیو ایم کا متبادل دریافت کیا تھا۔اس سے شفقت ومحبت کی اُمید باندھی۔ وہ مگرمیسرہوتی نظر نہیں آرہی۔گزشتہ دوکالموں کے ذریعے تسلسل سے میں اس امر پر اصرار کررہا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا ہنر خوب آتا ہے۔جالبؔ کے بقول ’’علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ایسی پھل جڑیاں چھوڑ دیتے ہیں جو ہمیں یاوہ گوئی کے بہلاوئے میں اُلجھا دیتی ہیں۔کراچی کے حوالے سے اس تناظر میں تازہ ترین پھل جڑی عزیر بلوچ ہے۔کئی برسوں سے لیاری کے حتمی گاڈفادر شمار ہوتے اس شخص نے خود کو ’’اچانک‘‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے روبرو’’سرنڈر‘‘ کردیا تھا۔اصل کہانی جبکہ کچھ اور ہے۔ یہ شخص مبینہ طورپر ایرانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے ایک خلیجی ملک پہنچ گیا تھا۔اس پر کڑی نگاہ رکھنے والوں نے دوست ملک کی معاونت سے اسے گھیر لیا۔گرفتاری کے بعد اس کے جرائم کی تفصیلات جمع کرنے کوریاستی اداروں کے سینئر ترین اہلکاروں پر مشتمل JITبنی۔ اس ٹیم نے جو رپورٹ تیار کی وہ کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئی تھی۔’’ذرائع‘‘ کی مہربانی سے مگر اس کی بنیاد پر ٹی وی سکرینوں کے لئے Ratingsکو یقینی بنانے والی کہانیاں چلتی رہیں۔ ’’خلقت شہر‘‘کو لیکن چسکے سے لطف اندوز ہونے کے لئے نت نئے فسانے درکار ہوتے ہیں۔عزیر بلوچ بھی بالآخر ایک گھسی پٹی کہانی بن گئے ہیں۔قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران تاہم کراچی ہی سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے ایک اور رکن اسمبلی جناب علی زیدی صاحب نے گزشتہ ماہ عزیر بلوچ سے جڑی کہانی کا تازہ ترین ورژن پیش کردیا۔’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ دہرائی کہانی کے ذریعے علی زیدی نے ایوان میں کھڑے ہوکر الزام لگایا کہ خود کو پڑھا لکھا،مہذب اور لبرل کہلوانے کی عادی پیپلز پارٹی درحقیقت جرائم پیشہ افراد اور اجرتی قاتلوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ان کے ذریعے زمینوں پر قبضے ہوتے ہیں۔لوگوں سے بھتہ لیا جاتا ہے۔زیدی صاحب یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے جرائم پیشہ افراد سے تعلق کی طلسم ہوشربا والی داستان JITکی رپورٹ میں قلم بند کردی گئی ہے۔ان کے پاس مبینہ رپورٹ کی ایک ’’مستند‘‘ نقل بھی موجود ہے۔
جس رپورٹ کا ذکر ہوا وہ کئی برس قبل مرتب ہوئی تھی ۔اگست 2018میں عمران حکومت برسراقتدار آگئی ۔ علی زیدی صاحب اس حکومت کے طاقت ور ترین وزراء میں شمار ہوتے ہیں۔بنیادی سوال تو میری عاجزانہ رائے میں یہ اُٹھتا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے انتہائی ذمہ داراداروں کی جانب سے پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ افراد اور اجرتی قاتلوں سے تعلق کو عیاں کرنے والی ایک رپورٹ اگر سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے تو وفاقی حکومت اس کی روشنی میں ’’عادی مجرموں‘‘ کو سزا دلوانے کے لئے متحرک کیوں نہیں ہوئی۔یہ سوال علی زیدی صاحب سے کسی نے اٹھایا ہی نہیں۔جو کہانی ’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ انہوں نے قومی اسمبلی میں دہرائی اس نے اگرچہ ایک بار پھر ٹی وی سکرینوں پر رونق لگادی۔اس رونق کو معدوم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے پیر کے دن JITرپورٹ کو ’’پبلک‘‘ کردیا۔پیپلز پارٹی کی قیادت کا منظر عام پر آئی رپورٹ میں ذکر نظر نہیں آیا۔منگل کے دن مگر وزیر اطلاعات کے ہمراہ بیٹھ کر علی زیدی صاحب بضد رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہوئی JITرپورٹ’’اصلی‘‘ نہیں ہے۔ ’’مستند‘‘ رپورٹ کی ایک نقل ان کے پاس ہی موجود ہے۔ ’’عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومت‘‘ کے ایک طاقت ور ترین وزیر مگر یہ فریاد بھی کرتے رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے ازخود نوٹس لینے والے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ’’اصل‘‘رپورٹ تیار کرنے والوں کو اپنے روبرو طلب کرے۔یوں ددوھ کا دودھ ہوجائے گا۔علی زیدی کی پریس کانفرنس کے بعد سندھ حکومت سے جوابی دلائل آنا شروع ہوگئے۔ہمارے بہت ہی آزاد اور بے باک اینکرخواتین وحضرات شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے منظر عام پر لائی JITرپورٹ ’’اصلی‘‘ ہے یا ’’مستند‘‘ رپورٹ علی زیدی صاحب ہی نے بیان کی ہے۔حتمی فیصلہ ابھی تک ہو نہیں پایا۔سکرینوں پر رونق مگر خوب لگی رہی۔
2020کے جان لیوا حبس کو بھول کر ہم اب عزیر بلوچ کے حوالے سے تیار ہوئے سنسنی خیز Pulp Fictionسے لطف اندوز ہورہے ہیں۔علی زیدی کے ’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ تیار ہوا ورژن ’’کھڑکی توڑ رش‘‘ لے رہا ہے۔ عمران حکومت کے ایک طاقت ورترین مشیر جناب زلفی بخاری نے بھی منگل کی شام ایک ٹویٹ لکھ کر علی زیدی صاحب کی تخلیقی کاوشوں کو سراہا ہے۔پیپلز پارٹی والے بھی اگرچہ ڈھیٹ ہڈی کے مالک ہیں۔ اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ علی زیدی صاحب نے جو رونق لگائی اس نے میرے ایک بہت ہی ہنرمند ساتھی سہیل وڑائچ کی لگائی ایک اور رونق کو بھی پچھاڑڈالا۔ اپنی بات کو کمال معصومیت سے بیان کرنے کے ہنر سے مالا مال میرے پیارے سہیل وڑائچ نے حال ہی میں ایک ’’خواب‘‘دیکھا۔وہ ’’خواب‘‘ انہوں نے منگل کی صبح چھپے کالم میں بیان کردیا۔اس کے ذریعے مجھ بے ہنر کو پیغام یہ ملا کہ بالآخر عمران خان صاحب کا ’’متبادل‘‘ دریافت ہوگیا ہے۔اپنے کالم میں اشاروں کنایوں کے ذریعے سہیل وڑائچ نے ’’متبادل‘‘ کی شناخت میں مدد پہنچانے والے خدوخال بھی بیان کردئیے تھے۔ اس کے باوجود منگل کی صبح اٹھا تو کئی لوگوں نے Whatsappکے ذریعے پوچھ رکھا تھا کہ کس شخص کو ’’متبادل‘‘ بنایا گیا ہے۔مجھ بدنصیب کو پرویزخٹک کا نام لینا پڑا۔ وہ ’’متبادل‘‘ ہوسکتے ہیں یا نہیں اس ضمن میں تبصرہ آرائی سے البتہ گریز کیاکیونکہ مجھے صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنا ہوتا ہے۔ہمیں بہلانے کو فی الوقت علی زیدی کی پھوڑی پھل جڑی زیادہ چسکے دار نظرآرہی ہے۔سنجیدگی سے سوچا جائے تو یہ محض پھل جڑی نہیں ہے۔مافیا کے خلاف جنگ میں مصروف عمران حکومت کا ایک طاقت ور ترین وزیر جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے ازخود نوٹس لینے کی فریاد کرے تو اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ یہ سوال البتہ اٹھانے کو اب بھی مجبور ہوں کہ اگر علی زیدی صاحب کے پاس JITکی ’’مستند‘‘ رپورٹ واقعتا موجود ہے تو وہ وفاقی کابینہ کو اس امر پر قائل کیوں نہیں کررہے کہ وہ اس کی بنیاد پر ایف آئی اے جیسے ادارے کو حرکت میں آنے کا حکم صادر فرمائے۔جناب واجد ضیاء صاحب ہمارے انتہائی فرض شناس اور چوکس تفتیش کار شمار ہوتے ہیں۔نواز شریف کی فراغت میں ان کی سربراہی میں قائم JITکی رپورٹ نے کلیدی کردار اداکیاتھا۔ہماری خوش نصیبی کہ ان دنوں وہ ایف آئی اے کے سربراہ ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو آصف علی زرداری کے عزیر بلوچ جیسے ’’اجرتی قاتل اور جرائم پیشہ‘‘شخص کے ساتھ مبینہ طورپر ’’گہرے تعلقات‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا جارہا۔
علی زیدی صاحب عملی اعتبار سے قدم بڑھائیں تو بقول ان کے ’’ہیرو‘‘ ثابت ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا صاحب ’’سلطانی گواہ‘‘ کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے JITکی ’’مستند‘‘ رپورٹ کو بنیاد بناکر آگے بڑھاجائے تو پیپلز پارٹی کے ’’جرائم پیشہ افراد‘‘ کے ساتھ تعلقات کو عدالتوں کے روبرو ثابت کرتے ہوئے اس جماعت کو ’’کالعدم‘‘ بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ایم کیو ایم کی بابت حقائق عیاں ہوئے تو تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں جیت لیں۔ایسا ہی واقعہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہوگیا تو نام نہاد ’’شہری‘‘ اور ’’دیہی‘‘ سندھ کی تقسیم ختم کرتے ہوئے تحریک انصاف پورے سندھ کی واحد ترجمان اور نمائندہ جماعت بن جائے گی۔