ہومیو پیتھک سب سیکرٹریٹ
جنوبی پنجاب والوں نے اپنی تمام عمر کی محرومیوں کے جواب میں تخت لاہور پر عثمان بزدار کو بٹھا کر جو بدلہ لیا ہے اس کا جواب نہیں۔ اللہ جانے یہ کس ستم ظریف کا جملہ ہے لیکن جی چاہتا ہے کہ کورونا کے باوجود اس کے ہاتھ چوم لوں۔ بقول منیب الحق اپنے بزدار صاحب نے تخت لاہور کا بھی وہ تختہ کر دیا ہے کہ اسے سیدھا کرنا اب نا ممکن نہیں تو بہرحال آسان بھی نہیں ہے۔ صرف اور صرف تونسہ کی جے ہے۔
اس وقت تمام ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کا رخ ڈیرہ غازی خان کی طرف ہے اور ڈیرہ غازی خان میں بھی آگے تونسہ کی طرف۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہیلی کاپٹر والے دوروں کی مانند۔ ہر تیسرا پھیرا بارتھی کی طرف جاتا ہے۔ ایک پی ٹی آئی کے لوہا توڑ قسم کے حمایتی دوست سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: اب تو آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہیے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: آپ کے ہاں ایک عدد سب سیکرٹریٹ بن گیا ہے‘ آپ کے مسائل حل ہو گئے ہیں، آپ لوگوں کو اور کیا چاہئے؟ میں اس کی بات پر ہنسا تو وہ تائو کھا گیا اور کہنے لگا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں نے کہا: فی الحال میرا دل نہیں کر رہا وگرنہ آپ کو اس بات پر رو کر دکھا دیتا۔ وہ مزید تپ گیا اور بولا: اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ میں نے کہا: یار عجیب مشکل ہے نہ ہنسنے پر خوش ہو اور نہ ہی رونے کی بات پر شاداں ہو‘ تم چاہتے کیا ہو؟ یہ کیا سب سیکرٹریٹ بنایا ہے؟ یہ چوں چوں کا مربہ اگر حکمران اپنے پاس ہی رکھتے تو نہایت مناسب تھا۔ گزشتہ سال اس مقصد کے لیے، یعنی سب سیکرٹریٹ کے قیام کی غرض سے تین ارب روپے رکھے گئے تھے۔ اس سال ڈیڑھ ارب رکھا ہے۔ اندازہ کریں، جب سیکرٹریٹ نہیں بنایا تھا تب تین ارب رکھے اور جب بنایا ہے اس سال ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔ کیا شاندار مالی تقسیم ہے۔ زیادہ مناسب تو یہ تھا کہ گزشتہ سال تین ارب کے بجائے چھ ارب روپے اس کام کے لیے رکھے جاتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ہینگ اور پھٹکڑی لگے بغیر حکومت کو چھ ارب روپے بچ جاتے۔ حکومت کی اس حماقت کی وجہ سے تین ارب روپے کی اضافی بچت کا نقصان ہو گیا ہے۔
اب اس کارنامے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک عدد ایڈیشنل آئی جی ملتان بیٹھے گا اور ایک عدد ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور میں بیٹھے گا۔ منصوبہ بندی ایسی شاندار ہے کہ بندہ عش عش کر اٹھے (اس عش عش سے یاد آیا گزشتہ دنوں کے ایک کالم میں اس لفظ کے استعمال پر ایک قاری نے لکھا کہ یہ لفظ عش عش نہیں اش اش ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کو جب اش اش لکھا تھا تو ایک اور قاری نے اعتراض کیا یہ لفظ اش اش نہیں بلکہ عش عش ہے۔ سو دونوں قارئین کی آئندہ کی درستی والی میل کے پیش نظر پیشگی عرض ہے کہ دونوں لفظ درست ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی مستند اردو لغت سے مدد حاصل کر لیں) ان دونوں تقرریوں سے اہل جنوبی پنجاب کو نوید سنائی گئی ہے کہ ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ ان مشکلات کے حل کا ذکر تو بعد میں کرتا ہوں فی الحال معاملہ یہ ہے کہ دونوں افسران اپنا اپنا بوریا بستر (دفتری بوریا بستر) اٹھا کر ملتان اور بہاولپور پہنچ گئے ہیں؛ تاہم ان کے ملتان اور بہاولپور پہنچنے تک کسی کو پتا نہیں تھا کہ ہر دو افسران کہاں بیٹھیں گے؟ ان کے دفاتر کہاں ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا عملہ کون سا ہے اور کہاں ہے؟
ایڈیشنل آئی جی ملتان میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عہدے کے پولیس افسر کے ملتان میں بیٹھنے سے جنوبی پنجاب کے عام آدمی کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس کی کون سی مشکلات حل ہوں گی؟ کسی عام آدمی کو کسی ایڈیشنل آئی جی لیول کے پولیس افسر سے کیا کام پڑ سکتا ہے اور وہ اس کی مشکل کیسے اور کہاں کم کر سکتا ہے؟ عام آدمی کو تھانیدار سے کام پڑتا ہے۔ ایس ایچ او سے اوپر اس کو براہ راست کوئی کام نہیں پڑتا۔ ایس ایچ او سے پرابلم ہو تو ڈی ایس پی اور پھر حد تیر چلائے تو ڈی پی او یا سی پی او تک جانا پڑتا ہے۔ عام آدمی کو تو آر پی او لیول کے افسر سے کوئی براہ راست کام نہیں پڑتا کہ آر پی او کا کام ڈویژن بھر کے اعلیٰ پولیس افسران کے انتظامی معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اب یہ نیا عہدیدار یعنی ایڈیشنل آئی جی تین ڈویژنز ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے اعلیٰ پولیس افسران کے معاملات دیکھے گا۔ یہ کام صرف اور صرف آر پی اوز کو تھوڑے سے زیادہ انتظامات دے کر لیا جا سکتا تھا۔ اس نئے عہدے کے افسر کی کیا ضرورت تھی؟ علاقے کی مجبور اور مقہور عوام کو اس سے دھیلے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ آسان لفظوں میں آپ اسے ہومیو پیتھک سب سیکرٹریٹ کہہ سکتے ہیں۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی تقرری کا حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز اور چکرا دینے والا ہے۔ نہ عملہ ہے اور نہ کوئی انتظامی سیٹ اپ ہی تشکیل دیا گیا ہے۔ خالی خولی ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری مع دو عدد ڈپٹی سیکرٹریز یہاں تشریف فرما ہو گئے ہیں۔ نہ نیچے دیگر سیکرٹریز ہیں اور نہ ہی ضروری افسران کی تعیناتی ہوئی ہے۔ عام سرکاری ملازم کو سیکرٹریٹ میں کس سے کام پڑتا ہے؟ تعلیم کے شعبے سے اور صحت وغیرہ کے شعبے سے۔ اب تعلیم کے لیے کوئی سیکرٹری موجود ہے نہ ہی صحت کے شعبے کے لیے کوئی سیکرٹری۔ کسی لیڈی سکول ٹیچر کو کسی مسئلے کا سامنا ہے تو وہ لیہ سے تین چار گھنٹے لگا کر بہاولپور جائے گی تو اسے پتا چلے گا کہ اس کے شعبے اور کام سے متعلق ابھی کوئی افسر یہاں موجود نہیں ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پاس اس کی فائل بھجوانے کا جو درجہ بدرجہ طے شدہ طریقہ کار ہے وہ سرے سے موجود نہیں‘ لہٰذا وہ لاہور سیکرٹری تعلیم (سیکنڈری) کے دفتر جائے اور اپنا مسئلہ حل کروائے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوگا کہ بالآخر گھوم پھر کر یہ فائل دوبارہ آخرکار بہاولپور میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پاس آ جائے گی۔ تب اس خاتون سکول ٹیچر کو کہا جائے گا کہ وہ لاہور جا کر سیکرٹری تعلیم کے دفتر سے اپنی فائل کا ڈسپیچ نمبر لے آئے کہ لاہور سے بھیجی گئی فائل ادھر بہاولپور میں مل نہیں رہی۔
ایمانداری کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ کا موجودہ سیٹ اپ آسانی کے بجائے تکلیف کا باعث زیادہ ہوگا کہ موجودہ صورتحال میں عملی طور پر اول تو یہ سرے سے ہی بیکار منصوبہ ہے اور اگر اس نے کوئی کام بھی کیا تو وہ محض یہاں کے لوگوں کو خوار کرنے کا کام ہوگا، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ایک ایسا سب سیکرٹریٹ جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر‘ نہ عملہ ہے اور نہ دیگر ضروری افسر۔ دو سال کے مسلسل لاروں کے بعد ہوا یہ ہے کہ دو عدد اعلیٰ سرکاری افسران کو لاہور سے ملتان بھجوا دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی صاحب کو پولیس ٹریننگ سکول کے کسی کونے میں بیٹھا دیا گیا ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے اولڈ کیمپس میں ادھار کی جگہ عطا کر دی گئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک سال قبل بہاولپور میں اس دفتر کا تو پھر کوئی جواز بنتا تھا لیکن ملتان سکھر موٹروے چالو ہونے کے بعد عوام کے لیے سب سیکرٹریٹ کے حوالے سے سب سے مناسب جگہ ملتان تھی کہ ایسے کاموں کے لیے سب سے اہم چیز ذرائع آمدورفت اور سفر کی آسانی ہوتی ہے اور اسی غرض سے یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو معمولی کاموں کے لیے لاہور کے سفر کی صعوبت سے نجات ملے؛ تاہم یہ سب کچھ تبھی ممکن تھا اگر عقل استعمال کی جاتی۔ لگتا ہے قدرت نے موجودہ حکمرانوں کو عقل اور حکمرانی میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب کی سہولت دی تھی۔ صاف ظاہر ہے انہوں نے کس چیز کا انتخاب کیا ہوگا۔