جناب عرفان صدیقی کالم نگار ہی نہیں، شاعر بھی ہیں۔ کالم بھی غزل کے اسلوب میں لکھتے ہیں۔ جسٹس ارشاد حسن خان صاحب نے مگر ان کے سلسلہ مضامین کے جواب میں جو لکھا، جسے جواب آں غزل کہنا چاہیے، اس نے میرے خیال میں اردو کے محاوروں میں ایک نئے محاورے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ سعادت صدیقی صاحب کو ارزاں نہیں ہو سکی۔ حاصلِ غزل شعر پہ مجھے کچھ کہنا ہے لیکن پہلے اس مقدمے کی شرح۔
دو اقساط میں چھپنے والے اپنے اس جوابی مضمون کا اختتام جسٹس ارشاد صاحب اس مصرع پر کرتے ہیں:
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
یہ اُس عدالتی زندگی کے بارے میں اظہارِ تفاخر ہے جو انہوں نے اپنے تئیں انصاف کرتے ہوئے گزاری۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ بطورِ خاص اُس فیصلے کی طرف ہے جس کا تعلق جنرل پرویز مشرف کے اختیارات میں اضافے سے ہے۔ اس فیصلے نے ایک آئین شکن کو یہ اختیار بخش دیا کہ وہ جب چاہے، آئین میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ایسی سخاوت کو کوئی عامی اپنا کارنامہ شمار کرتا تو ہم کہتے ‘عذرِ گناہ بد تر ازگناہ‘ مگر اس ‘عذر‘ کا پنکھ کسی خاص کی دستار میں سجا دیا جائے تو نشانِ تفاخر بن جاتا ہے۔ گویا آپ چاہیں تو اس محاورے میں عذر کو تفاخر سے بدل دیں۔ اردوکے ذخیرے میں ایک نئے محاورے کا اضافہ کرنے پر بھی وہ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں:
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
اب آئیے حاصلِ غزل شعر کی طرف۔ اس کاپس منظر یہ ہے کہ ‘چیف ایگزیکٹو‘ جنرل پرویز مشرف کے من میں سمائی کہ انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بھی ہونا چاہیے۔ مسئلہ مگر یہ تھا کہ ملک میں ایک صدر موجود تھا۔ ایسا صدر جسے آئین کا تحفظ حاصل تھا۔ آئین کا تحفظ ان کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ وہ پہلے ہی ایک ایسے منصب پر فائز تھے جو آئین میں موجود نہیں۔ ‘چیف ایگزیکٹو‘ کے نام سے آئین میں کوئی منصب نہیں پایا جاتا۔ مشرف صاحب چاہتے تو اُسی وقت صدر بن جاتے جب ان کے دل میں اسی دبی خواہش نے پہلی کروٹ لی‘ مگر انہوں نے کمال شفقت سے موجود صدر کو کھانے پر بلایا اور مشرقی روایات کو نبھاتے ہوئے، ان کی عمر اور سفید ریش کا احترام ملحوظ رکھ کر، ان سے درخواست کی کہ وہ اس منصب سے الگ ہو جائیں۔ صدر صاحب نے اس شفقت کا کوئی لحاظ نہ کیا اور مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔
اب مشرف بھلا کیا کرتے؟ انہوں نے وہی کیا جو ایک چیف ایگزیکٹو کو کرنا چاہیے تھا۔ صدر کو بیک جنبشِ قلم معزول کیا اور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان اُس وقت چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ انہوں نے مشرف صاحب سے حلف لیا اور یوں وہ بالقوہ (defacto) صدر بن گئے۔ زبانِ خلق اس پر خاموش نہیں رہتی اور سوالات اٹھاتی ہے:
1۔ حلف لیتے وقت ارشاد حسن خان صاحب نے بطور چیف جسٹس کیا استفسار کیا کہ اس ملک میں پہلے سے جو صدر موجود ہے، وہ کہاں ہے؟
2۔ یہ حلف کون سا تھا؟ کیا وہی جو صدر کے لیے آئین میں درج ہے؟ اگر نہیں تو ارشاد حسن خان صاحب نے کس سے وفاداری کا حلف لیا؟
3۔ جسٹس ارشاد صاحب کو اس پروٹوکول کا تو خیال تھا کہ حلف لینے والا اور دینے والا ایک ساتھ ہال میں داخل ہوتے ہیں لیکن کیا آئین کی حرمت کے بارے میں بھی کوئی غور و فکر ہوا؟
4۔ اعلیٰ ترین مناصب والے آئین کے باب میں غیر حساسیت کا مظاہرہ کریں گے تو عوامی حلقوں میں قانون کے احترام کے باب میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جسٹس ارشاد حسن صاحب کو ان اعتراضات کا اندازہ ہے۔ وہ ان سوالات سے بھی بے خبر نہیں جو ان کے فیصلے پر اٹھائے جاتے ہیں۔ وہی فیصلہ جس کے تحت مشرف صاحب کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا گیا۔ وہ چاہتے تو جسٹس منیر کی طرح خاموش رہ سکتے تھے جنہوں نے تمیزالدین کیس میں فیصلہ دیا اور اس کا آج تک ذکر ہوتا ہے۔ انہوں نے مگر ایسا نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس فیصلہ پر انہیں فخر ہے کہ ایک کارنامہ سرانجام دے کر جا رہے ہیں۔ اس کے دفاع میں انہوں نے جو کچھ فرمایا‘ وہی حاصلِ غزل ہے۔ فرماتے ہیں: ”ٹیک اوور ہو چکا تھا۔ یہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا جس پر حکمِ امتناعی دیا جاتا اور نہ ہی فوج کے اقدام کو ریورس کیا جا سکتا تھا۔ معترضین انصاف کریں کہ کیا کوئی ایسا تیس مار خان ہو سکتا تھا، جو بیک جنبشِ قلم مارشل لا کو غیر قانونی قرار دے دیتا اور کیا یہ توقع ہو سکتی تھی کہ جنرل مشرف سمیت جرنیل کسی ایسے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے؟ اس صورتِ حال میں مختلف فیصلہ سے ملک و قوم کسی غیر متوقع مصیبت اور عدم استحکام میں مبتلا ہو جاتے‘‘۔
جناب جسٹس ارشاد حسن خان کی تحریر پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ چار سوالات اٹھائے گئے ہیں:پہلا‘ فیصلہ کرنے والے کو فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ مجرم کتنا طاقتور ہے؟ اگر وہ اتنا جری ہوکہ آئین وقانون کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر اس کے خلاف فیصلہ نہیں دینا چاہیے؟ دوسرا‘ آئین کی پامالی اور منتخب حکومت کے خاتمے سے ملک میں عدم استحکام پیدا نہیں ہوتا۔ تیسرا یہ کہ اس ملک میں کوئی ایسا تیس مار خان نہیں ہے جو ماورائے آئین اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کی جرأت کر سکے۔ چوتھا یہ کہ انصاف کرنا معترضین کا کام ہے۔
جسٹس ارشاد حسن اپنی زبان سے اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ایسے تیس مار خان نہیں تھے کہ مارشل لا کو غلط کہہ سکیں۔ پھر بھی وہ اظہار اطمینان کرتے اور فرماتے ہیں:شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
جناب ارشاد حسن خان صاحب نے دو باتیں مزید کہیں۔ ایک یہ کہ میں نے بطور چیف جسٹس جب مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تو صدر رفیق تارڑ نے مجھ سے یہ حلف لیا۔ انہیں اس وقت1973ء کے آئین کا خیال کیوںنہ آیا؟ آنا چاہیے تھا اورتارڑ صاحب سے یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ اقدام مگر جسٹس ارشاد صاحب کیلئے عذر کیسے بن سکتا ہے؟
دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ عدالتی فیصلے میں ن لیگ کے وکیل خالد انورصاحب کا مشورہ شامل تھا۔ پہلی بات کہ اس مشورے کا عدالتی فیصلے میں کوئی ذکر نہیں۔ دوسرا یہ کہ جسٹس صاحب اپنی بات کے آپ ہی گواہ ہیں۔ میں نے اس پر جب خالد انور صاحب کا موقف جاننے کی کوشش کی تو مصدقہ ذرائع نے بتایا کہ وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں۔
جسٹس ارشاد حسن خان صاحب نے اپنے اس مضمون میں، اس ملک میں عدلیہ کی پوری تاریخ سمیٹ دی۔ یہ تاریخ حامد خان صاحب نے بھی اپنی کتاب A History of the Judiciary in Paksitan میں بیان کر دی ہے۔ اس میں ایک باب جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کے بارے میں بھی ہے۔ اس کے لیے مصنف نے جوعنوان باندھا ہے، اسے یہاں نقل کرنے میں جسٹس صاحب کا ادب مانع ہے۔جسٹس ارشاد حسن خان چاہتے تو خاموش رہ سکتے تھے‘ مگر شاید یہ تاریخ کا مابعدالطبیعاتی پہلو ہے کہ کچھ شہادتیں تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونا ضروری ہیں۔ جسٹس صاحب کا مضمون ایسی ہی ایک گواہی ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ اردو ایک نئے محاورے سے متعارف ہو رہی ہے۔ عذرِ گناہ کے ساتھ اب تفاخرِ گناہ بھی ہوتا ہے۔ یہ اس زندگی کا حاصل ہے جس کے بارے میں کہا گیا:
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم