نوجوانوں کا اضطراب
گھٹن ہے اور شدید گھٹن۔ ریاستی سطح پر بھی اور معاشرتی سطح پر بھی۔
گھٹن کا ردِ عمل تو ہوتا ہے۔ کبھی کسی چیخ کی صورت میں اور کبھی بے معنی آوازوں کی شکل میں۔ شعوری کاوش ان آوازوں کو معنویت عطا کر دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو گھٹن خود ہی فضا میں بکھری کسی آواز کا انتخاب کر لیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی آوازیں ہم آج بھی سن رہے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ نوجوان جو پھریرے لہرا رہے ہیں، اکثر ان کے فکری پس منظر سے زیادہ واقف نہیں۔ یہ سرخ جھنڈے اور نظمیں، گھٹن کے ردِ عمل کے سوا کچھ نہیں۔
مسئلے کا علاج سادہ ہے۔ گھٹن کا خاتمہ۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل جس میں آزادیٔ فکر و عمل کو بطور قدر قبول کیا جائے۔جس میں مذہب، روایت یا روشن خیالی کے نام پر جبر نہ ہو۔ ووٹ کے حق سے لے کر نظریات کے انتخاب تک، عام آدمی کسی خارجی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ نہ ریاست کی طرف سے نہ سماجی گروہوں کی طرف سے۔ پارلیمان سے تعلیمی اداروں تک اور مسجد و مندر سے چوپال و بیٹھک تک، ہر فرد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جو راستہ چاہے، اس پر قدم رکھے۔
آج نوجوانوں میں جو تحریک منظم ہو رہی ہے، وہ سماج کے جبر کا ایک نتیجہ ہے۔ نوجوانوں کے نعروں میں مذہب بے زاری ہے اور ریاستی بیانیے سے اظہارِ لا تعلقی ہے بلکہ جھنجھلاہٹ بھی۔ چونکہ یہ کسی شعوری عمل کا حاصل نہیں، اس لیے ان کے ردِ عمل کے نظری خد و خال ابھی واضح نہیں۔ لال رنگ کبھی بغاوت کی علامت تھی۔ ان نوجوانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ لال رنگ کا جھنڈا جو انیسویںصدی میں ایک فکری تحریک کی علامت تھا، آج انسانی لہو میں رنگا ہوا وہ پھریرا ہے‘ جسے سرخ انقلاب کے نام پر بیسویں صدی میں بے دریغ بہایا گیا، تو شاید وہ کسی اور رنگ کا انتخاب کر لیتے۔
یہ گھٹن کیوں ہے؟ معاشرتی سطح پر اس کے ذمہ دار اہلِ مذہب اور نظریاتی تحریکیں ہیں۔ مذہبی طبقوں نے اس معاشرے کو اپنی اپنی مذہبی تعبیرات کا یرغمال بنانا چاہا۔ جس کو تعلیمی اداروں پر قبضے کا موقع ملا، اس نے وہاں مخالف نظریات رکھنے والوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ جس نے محراب و منبر پر قبضہ جمایا، اس نے دوسرے مسالک کو دائرۂ اسلام سے باہر نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ رہی سہی کمی جہادی تنظیموں نے پوری کر دی۔ ہر جان کو اپنے لیے مباح قراردے دیا اور یوں ان سب کی مشترکہ کوششوں نے مذہب کے نام پر بے بسی کی ایک ایسی فضا پیدا کر دی کہ لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔
اہلِ مذہب کے ساتھ، جنہوں نے سب سے پہلے یہاں سرخ پھریرا لہرایا، انہوں نے بھی تعلیمی اداروں کو مقتل بنانے میں پوری گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ اسلحہ انہی کی وجہ سے تعلیمی نصاب میں شامل ہوا۔ مسلح جدوجہد ان کی آئیڈیالوجی کا حصہ تھا۔ 1980ء کی دہائی میں یہ تحریک تو دم توڑ گئی جب اشتراکیت کو ماسکو میں بھی کوئی پناہ گاہ میسر نہ آ سکی‘ اب تشدد پر بعض مذہب پسندوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی جو تادمِ تحریر قائم ہے۔ تشدد سب جانتے ہیں کہ بد ترین گھٹن کو جنم دیتا ہے۔
29 نومبر کو جو جلوس برآمد ہوئے، ان میں ایک نعرے کا مفہوم تھا کہ مشال خان کے مشن کو زندہ رکھا جائے گا۔ مجھے تحقیق کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مشال خان کا مشن کیا تھا؟ میرے علم کی حد تک تو اس نوجوان کا کوئی مشن نہیں تھا۔ اس کی پہچان مظلومانہ موت ہے۔ اسے مذہبی جنونیوں نے ایک ایسے جرم میں مار ڈالا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ اسے علامت بنانے کا مطلب، میرے خیال میں اس گھٹن کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہے۔
دوسرا جبر وہ ہے جو ریاست کی طرف سے روا رکھا گیا۔ پاکستان کو ابتدا ہی سے ایک ایسے تصورِ ریاست کے تحت دیکھا گیا‘ جس میں ریاست کے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔ پالیسی سازوں نے جو حکمتِ عملی بنائی، وہ اسی تصور سے پھوٹی ہے۔ اس میں عوام کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہیں ریاست کے لیے قربانی دینی ہے۔ اس کے لیے خارجی دشمن کا حقیقی یا مفروضہ وجود بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایسی سٹیٹ میں ‘قومی مفاد‘ کا وہی تصور قابلِ قبول ہوتا ہے جو ریاستی اداروں کے ٹیکسال میں ڈھلتا ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اپنے طور پر اس تصور کی تعریف کر سکتا ہے نہ اس کا پرچار کر سکتا ہے۔وہ ایسا کرے تو غدار قرار پائے گا۔
ایسی ریاست تاریخ اور مذہب کا بھی ایک تصور دیتی ہے جسے ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں رائج کیا جاتا ہے اور نئی نسل کی فکری و ذہنی تربیت، ان تصورات کے مطابق کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں بھی ان نظریات کے برخلاف تحقیق کی اجازت نہیں ہوتی جو قائم ہی تحقیقی سوچ کے فروغ کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی نہیں، ریاستی مفاد کا تقاضا ہو تو انتخابات تک کے نتائج کو تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ قومی مفاد کو ‘ناقص‘ رائے عامہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسی سٹیٹ میں میڈیا کی آزادی بھی قابلِ قبول نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ اس کو آزاد رہنے سے یہ امکان پیدا ہو جاتا کہ ریاستی بیانیے کے برخلاف تصورات فروغ پائیں جو ‘قومی یک جہتی‘ کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
ماضی میں تو ایسی سٹیٹ کے تصور کو برقرار رکھنا آسان تھا کہ لوگوں کی علمی رسائی محدود تھی۔ اب یہ ممکن نہیں رہا۔ انٹرنیٹ نے معلومات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ اب تاریخ و جغرافیہ میں، ایک طالب علم کی پہنچ اس تحقیق تک ہے جو دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ ہماری جامعات میں ایسے اساتذہ موجود ہیں جو باہر سے پڑھ کر آئے ہیں اور ان کی تعلیمی و تحقیقی تربیت ایسے تصورِ ریاست کے پیراڈائم میں نہیں ہوئی۔ وہ بھی جب اپنے نتائجِ فکر ان نوجوانوں تک پہنچاتے ہیں جو مقامی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں تو ان میں سوچ کی نئی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
وہ جب اس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ریاستی بیانیہ رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان کو جب اظہار سے روکا جاتا ہے تو گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے مظاہروں میں بھگت سنگھ کی تصویر دراصل اس نصابی تصورِ تاریخ پر اظہارِ احتجاج ہے جو آزادی کی تحریک کو ایک خاص رنگ دیتا ہے اور اس خطے کی غیر مسلم روایت کو قبول نہیں کرتا جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔
یہ آج معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی اس گھٹن کا مداوا کرے۔ اسے وہ فضا مہیا کرے، جس میں وہ کھل کر سانس لے سکے۔ جہاں وہ موجود افکار میں سے اپنے لیے آزادی کے ساتھ کسی فکر کا انتخاب کر سکے۔ فضا میں بہت سے فکری رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ سبز، سرخ، نیلا، پیلا اور معلوم نہیں کتنے۔ نئی نسل کو اگر انتخاب کا موقع ملے تو وہ یقینا سوچ سمجھ کر کسی رنگ کا انتخاب کرے گی۔
آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ اس گھٹن کے خلاف بغاوت ہے۔ اس رویے کے خلاف اظہارِ ناراضی ہے جو ریاست اور سماج نے روا رکھا ہے۔ حریتِ فکر بنیادی انسانی قدر ہے۔ میں جس مذہب کو ماننے والا ہوں، وہ اس کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ اسلام کے قانونِ آزمائش کی اساس ہی حریتِ فکر و عمل ہے۔ ورنہ تو جزا و سزا کا سارا عمل بے معنی ہے۔ یہ مذہب کا سوئے فہم ہو گا اگر کوئی اس کے نام پر اس آزادی کو سلب کرے گا۔
اس وقت جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، ان میں کوئی معنویت تلاش کرنا عبث ہے۔ ریاست اور معاشرے کوصرف اس گھٹن کو ختم کرنا ہے جس نے احتجاج کی صورت میں ظہور کیا ہے۔ اس کو ریاست کے لیے خطرہ سمجھنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔ گھٹن کا خاتمہ وہ ماحول فراہم کرے گا‘ جو ان نوجوانوں کے اضطراب کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد ان کے خیالات میں خود بخود معنویت پیدا ہو جائے گی۔ ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم انقلاب کے نہیں، جمہوریت کے دور میں زندہ ہیں۔ انقلاب تشدد اور فکری جبر کو اور جمہوریت امن اور اختلافِ رائے کے احترام کو فروغ دیتی ہے۔