اسلام آباد: راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالم مرزا افتخارالدین نے سپریم کورٹ پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ان کی معافی قبول کرتے ہوئے انہیں عدلیہ کے خلاف متنازع اور توہین آمیز ویڈیو پر توہین عدالت کی فرد جرم سے بری کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق مذہبی عالم نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ سرکار عباس کے ذریعے 3 صفحات پر مشتمل معافی نامہ جمع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ ’بہت عاجزی سے درخواست ہے کہ ان کی معافی قبول کی جاسکتی ہے اور انہیں توہین آمیز ریمارکس کے الزام سے بری کیا جاسکتا ہے‘۔
ملزم نے عدالت کو ایک سمجھوتے کے ذریعے یقین دہانی کروائی کہ وہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی عمل نہیں کریں گے۔
معافی نامے میں مرزا افتخارالدین کا کہنا تھا کہ ان کی عمر 67 سال ہے اور وہ امراضِ قلب میں مبتلا ہیں جبکہ ان کی شریانیں بھی بند ہیں، ڈاکٹروں نے انہیں دل کے آپریشن کا کہا ہے ساتھ ہی ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں بلڈ پریشر اور دیگر بیماریاں بھی لاحق ہیں۔
معافی نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’وہ باقاعدگی سے ادویات کے زیر اثر ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ کبھی کبھار شدید برہم، غیر معقول، پریشان اور مایوس کن ہوجاتے ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ ’مبینہ دعوے دار دل سے معافی مانگتا ہے اور عدالت سے رحم کی امید رکھتا ہے، عدالت ان کی صحت اور عمر کے حوالے سے درمیانی صورت پر غور کرسکتی ہے‘۔
خط میں مزید کہا گیا کہ مرزا افتخارالدین اکثر مغرب کی نماز کے بعد اپنے طلبہ سے حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے ہیں اور 14 جون کو ان کی زبان سے ججز اور عدلیہ کے معزز ادارے کے بارے میں کھ ریمارکس ادا ہوگئے جس پر انہیں سخت ندامت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے 26 جون کو سپریم کورٹ میں معافی نامہ جمع کروانے آئے لیکن انہیں انٹری کارڈ جاری ہونے کے باوجود کمرہ عدالرت میں داخل نہ ہونے دیا گیا،29 جون کو انہوں نے تفتیش میں حصہ لیا جہاں انہیں قید کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج تھی۔
دھمکی آمیز ویڈیو کیس کا پس منطر
یاد رہے کہ ایک ویڈیو کلپ کی بنیاد پر جسٹس قضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد کے سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں 24 جون کو شکایت درج کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اس لیے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگی خطرے میں ہے۔
انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ ‘میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے’۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا تھا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔
بعد ازاں اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا تھا۔
جس کے بعد 26جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔
بعدازاں 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔
دوسری جانب افتخار الدین مرزا کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا گیا تھا جس میں غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ایک ’نجی تقریب‘ میں انہوں نے ’غیر دانستہ‘ طور پر معزز ججز کے خلاف کچھ الفاظ ادا کیے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ویڈیو ان کی مرضی کے بغیر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔
دوسری جانب یکم جولائی کو ایف آئی اے ویڈیو میں توہین آمیز گفتگو کرنے والے شخص کے حوالے سے عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا کہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے عالم مرزا افتخارالدین نے کسی کے اکسانے یا ہدایت پر یہ تقریر کرنے کی تردید کی ہے۔
کیس کی 2 جولائی کو ہونے والے سماعت میں سپریم کورٹ نے مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور 7 روز میں جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔