کالم

روِیے بگڑ گئے ہیں

Share

میری نانی اماں اس وقت بیوہ ہو گئی تھی جب ان کے بچے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہے تھے۔ وہ ایک باکمال خاتون تھیں۔ میں نے انہیں کبھی غصہ میں بھِی بد کلامی کرتے نہیں سنا۔ کوئی غصہ کرتا تو سب سے پہلے کہتی تھی بیٹھ جائو اور پھر اسے پانی پلاتی، اس کے بعد بات کرنے کی اجازت دیتیں۔ ان کی بہوئیں اور داماد ان کے لیے اپنے بچوں سے ذیادہ اہم اور عزیز لگتے تھے۔ گائوں سے خاندان کے افراد اپنے مسائل پر بات کرنے ان کے پاس آتے تھے۔ ان کے ہاں ہر ہفتہ مہمان آتے اور میں یہی سوچتی رہتی کہ آخر میری نانی جان جنہیں میں بڑی امی کہتی تھی ان میں ایسا کیا ہے کہ ہر عمر اور جنس کے لوگ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھتے اورجاتےہوئے کہتے دل تو نہیں کر رہا لیکن جانا ہو گا۔ میں نے اپنی عمر کے بہت سے سال اپنی نانی کی محبت اور شفقت کے سائے میں گزارے۔ میری والدہ میری نانی سے قدر مختلف تھی۔ ان کے اصول نانی جان ہی کی طرح تھے لیکن طبیعت میں کچھ سختی تھی۔ اس کے باوجود میری والدہ کا بھی وہی حال تھا۔ ہر وقت مہمان داری اور ہر کسی کے لیے ایک ایسی شخصیت جو ان کی باتوں کو غور سے سنتی مگرزبان اسے آگے بیان نہیں کرتی، ان کے راز کو ایسے رکھتی جیسے کبھی سنا ہی نہ ہو۔ لوگ امی کے پاس بھی بیٹھ جاتے تو اٹھنے کا نام نہ لیتے۔ میں سوچتی ہوں کہ ان خواتین میں اتنا حوصلہ، ضبط، تحمل اور بردباری کہاں سے آئی تھی۔ ان کے پاس بیٹھنے والے لوگ مختلف طرز اور طبع کے ہوتے لیکن اب ان کے اخلاق کے گرویدہ رہتے۔ میری نانی اور میری والدہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے والے افراد کسی ایک عمر یا جنس کے نہیں ہوتے تھے۔ میری والدہ اور نانی نے اپنے اوپر کسی پارسائی کا لبادہ نہیں اوڑھ رکھا تھا۔ لیکن ان سے ملنے والے لوگوں کو ان کی شخصیت سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا تھا کہ صاف گو اور صاف دل انسان ہیں ۔ انسانوں کو اپنے جیسا سمجھ کر ملتی ہیں۔ میں نے بچپن ان دو خواتین کے پہلو میں گزارا۔ جنہوں نے مرد اور عورت کے رشتہ کو میری نظر میں گندہ نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے میرے آس پاس ایک ایسا ماحول رکھا کہ مجھے انسانوں سے محبت ہو گئی۔ ان دو خواتین کے علاوہ میری زندگی میں میرے دو بھائی اور والد اہم ترین لوگ تھے۔ یہ کہانی پھر سہی۔

بات ہے رویوں کی ہم اپنے زندگی میں جن افراد کی قربت میں رہتے ہیں ان کے رویے اور نظریات ہمارے اندر اترتے چلے جاتے ہیں۔ اگر اپنی عمر کے بیس سے تیس سال ہم ایک ہی ماحول میں گزاریں تو بہت مشکل ہے کہ ہم ان رویوں اور نظریات کو کبھی بھی اپنے سے الگ کر پائیں۔ یہ ہمارے اند یقین بن کر اتر جاتے ہیں اور ہماری نظر کا عدسہ بن جاتے ہیں۔ ہم دنیا کو اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے لہجے کی سختی اور نرمی سے لے کر ہماری فیصلہ سازی کے عمل تک یہ تمام رویے، نظریات اور یقین ہماری رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ میرے نزدیک کسی کی ذات پر مذاق کرنا گالی دینا اور کسی کو جسمانی تکلیف پہنچانا گناہ ہے اور ناچنا، گانا یا کھلکھلا کر ہنسنا انسان کے خوبصورت جذبات کا اظہار ہے۔ تصویربنانا۔ شاعری کرنا، موسیقی ترتیب دینا یہ سب انسان کو عطا کی گئی جمالیاتی حس کی عکاسی ہے۔ میرے نزدیک سائنس بھی انسان کی ذہنی کاوش کی معراج ہے۔ مجھے ایک شاعر اور سائنسدان انتہائی متاثر کرتے ہیں۔ کیونکہ دونوں ذہنی و فکری سفر میں تخلیقی عمل تک پہنچ جاتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس معاشرے کی طرف جس میں ہم جی رہے ہیں۔ بدکلامی اور بد اخلاقی ایسے کرتے ہیں جیسے صبح کا سلام۔ اکیسویں صدی کی جدید ترین تخلیق ہاتھ میں لیے بہترین اداروں میں تعلیم اور پکے گھروں میں تربیت پائے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے گلے چاک کرنے پر تلے ہیں۔ اپنے غصہ اور بربریت میں کسی کی عزت سے کھیلنے اور کسی کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ بیس سے تیس سال کے درمیان وہ افراد ہیں جنہوں نے محض کسی ماں، نانی یا والد اور دادا وغیرہ سے ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے رویے اور نظریات لیے اور اب ان کو یقین آچکا ہے کہ انسان کو بے عزت کرنا، اس کی حد درجہ تزحیک کرنا اور اسے مار ڈالنا کوئی بڑی بات نہیں۔ شاید اسی کو طاقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسی کو اپنا بہترین طریقہ اظہار سمجھ بیٹھے ہیں۔ نوجوانی میں ان کو تخلیقیت کے عمل تک لے جایا جاتا تو بہترین آرٹسٹ یا سائنسدان ہوتے۔ اپنے رویوں پر سوچنے سمجھنے کے قابل ہوتے مگر کیا گھر کیا سکول اور کیا معاشرہ سب نے چھینا جھپٹی سکھائی اور یہ وہی کر رہے ہیں۔  رویے بننے اور بگڑنے میں سالہاسال کا عمل ہوتا ہے۔ اگر آآپ کے گھر میں بچے ہیں تو یہ یاد رکھئے گا وہ آپ کے عمل اور رویے سے سیکھتے ہیں۔