فاطمہ جناح، جنھیں ہرانے کے لیے ’لبرل‘ ایوب خان نے فتوے جاری کروائے
’یہ ووٹ آپ کے ہاتھ میں امانت ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کو اس ووٹ کو ایک امانت سمجھ کر ملک کے فائدے اور قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے نہ کے کسی اور چیز کے لیے۔‘
جمعرات کو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے ایک ’بلیک اینڈ وائٹ‘ کلپ میں سفید بالوں والی ایک سلجھی ہوئی خاتون کو یہ الفاظ اپنی تقریر کے دوران ادا کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
یہ ویڈیو پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بہن اور سنہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کا مقابلے کرنے والی فاطمہ جناح کی ہے، جنھیں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ان کے یومِ وفات کے موقع پر یاد کر رہے ہیں اور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
صبح سے ہی #FatimaJinnah پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور اگر اس ہیش ٹیگ کے تحت کی گئی ٹویٹس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر صارفین ’مادرِ ملت‘ کو سابق فوجی آمر اور صدر جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے اور ان کے خلاف ڈٹ جانے پر یاد کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی محمد علی جناح کی ہمشیرہ کا قیامِ پاکستان میں کردار ادا کرنے اور اپنے بھائی کی جدوجہد میں ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر صارفین نے ’مادرِ ملت‘ کے قیامِ پاکستان میں کردار کی تعریف بھی کی۔
ایک صارف سید علی ظفر نے لکھا کہ ’قیامِ پاکستان میں فاطمہ جناح کا کردار وہ تھا جو کسی ماں کا ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے بھائی محمد علی جناح کے لیے وقف کر دی تاکہ وہ مسلمانوں کو ہندو نظریے سے آزاد کروانے کے اپنے مشن پر توجہ دی سکیں۔‘
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک لیڈر اور نڈر خاتون، وہ آخر تک اپنے اصولوں پر ویسے ہی قائم رہیں جس مضبوطی انھوں نے اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے خواب کو حقیقت بنانے میں مدد کی تھی۔‘
مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی مائزہ حمید نے بھی فاطمہ جناح سے منسوب ایک قول ٹویٹ کیا۔
اب ذکر کرتے ہیں اس کلپ کا جو سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ یہ کلپ صحافی اجمل جامی نے شیئر کیا اور ساتھی ہی تبصرہ کیا ’ان کا اندازِ بیان جناح سے کتنا ملتا ہے؟‘
تاہم ان پیغامات کے برعکس کئی لوگ ایسے بھی تھے جو ماضی کی غلطیوں سے پردہ اٹھا کر ان خطاؤں کی اصلاح کرنے کی کوششوں میں دیکھے گئے۔ ایک صارف نے طنزیہ انداز میں دریافت کیا ’کیا انھیں غدار نہیں قرار دیا جا چکا؟ یا ہم اپنی تاریخ کے اس باب کی تصحیح کر چکے ہیں؟‘
ایک اور صارف نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’اب بھی وقت ہے کہ مادر ملت سے اجتماعی معافی مانگی جائے اور قائد اعظم کا پاکستان بنایا جائے جہاں آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو۔‘
جبکہ سعد مقصود نے لکھا ’وہ عظیم خاتون جنھوں نے بھائی کا ساتھ دے کر اس ملک کی بنیاد رکھی۔ مگر افسوس اسی ملک میں فاطمہ جناح کو ایوب خان جیسے آمر کے مقابلے میں عوام نے ووٹ نہ دیا (اور) مادر ملت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔۔۔‘
ان صارفین کا اشارہ غالباً اسی الیکشن کی جانب ہے جس میں فاطمہ جناح اور ایوب خان مدمقابل تھے۔
صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے بی بی سی کے لیے اپنی تحریر پاکستان میں انتخابات کی کہانیاں میں اس الیکشن کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے:
’1962 کے آئین کے تحت ایک سو چھپن ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین برس کے لیے وجود میں آئی، اس کا چناؤ عوام نے نہیں بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوریتی نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے اسی ہزار بیسک ڈیموکریٹس نے کیا۔ بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور الیکٹورل کالج ( بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی۔
انھی بیسک ڈیمو کریٹس نے جنوری 1965 کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب کیا۔ ایوب خان اس دوڑ میں مسلم لیگ کنونشن کے حمایت یافتہ تھے۔ جبکہ فاطمہ جناح کی حمایت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رہا تھا۔الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔
لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔
عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انھوں نے کئی علما سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔ جبکہ جماعتِ اسلامی نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ باسٹھ کے آئین کے تحت اس وقت تک صدر رہ سکتے تھے جب تک ان کا جانشین منتخب نہ ہو جائے۔
چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔‘
یہی نہیں، وسعت اللہ خان اپنے ایک اور کالم میں اس وقت کا حوالہ دیتے ہیں جب فاطمہ جناح کی ریڈیو پاکستان پر کی جانے والی تقریر سنسر ہوئی تھی۔
’جناح صاحب کی وفات کے ایک برس بعد فاطمہ جناح ریڈیو پاکستان کے لیے اس شرط پر تقریر ریکارڈ کرواتی ہیں کہ یہ تقریر سنسر نہیں ہوگی۔ لیکن جب تقریر نشر ہوتی ہے تو وہ حصہ غائب ہوتا ہے جس میں انھوں نے لیاقت علی خان کی حکومت پر تنقید کی تھی۔ یہ سنسر کسی اور نے نہیں ریڈیو پاکستان کے منتظمِ اعلی زیڈ اے بخاری کے صوابدیدی حکم پر ہوتا ہے اور فاطمہ جناح کو ذاتی طور پر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔‘