کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک کی طرح انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں بھی پلازما بینک بنایا گیا ہے۔
انڈیا میں پلازما تھیراپی کے ذریعے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کی منظوری دی گئی تھی اور اب وائرس کے باعث تشویشناک حالت میں مبتلا مریضوں کے علاج میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
کورونا کے علاج کے لیے نئی دہلی میں بننے والا پلازما بینک ملک کا پہلا ایسا بینک ہے۔ یہ بینک انسٹیٹیوٹ آف لیور اینڈ بِلیئری سائنسز ہسپتال میں بنایا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ پلازما بینک کی مدد سے مریضوں کو پلازما ملنے میں آسانی ہو گی۔
کووڈ 19 سے متاثر ہو کر ٹھیک ہو چکے افراد سے پلازما کا عطیہ کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے، لیکن کورونا وائرس کا ہر مریض پلازما کا عطیہ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چند شرائط رکھی گئی ہیں۔
ہدایات کے مطابق اپنی زندگی میں کبھی بھی ماں بن چکی یا حاملہ خواتین پلازما عطیہ نہیں کر سکتی ہیں۔
آئی ایل بی ایس کے ڈائریکٹر ایس کے سرین نے انڈیا کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ ماں بن چکی اور حاملہ خواتین کا پلازما کووڈ 19 کے مریضوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حالانکہ عام طور پر خون دیتے وقت اس طرح کی احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پلازما کے عطیہ کے معاملے میں ایسا کرنے کی خاص وجہ ہے۔
خواتین میں خاص اینٹی باڈیز کی موجودگی
دلی کے میکس ہسپتال میں بلڈ بینک کی سربراہ ڈاکٹر سنگیتا پاٹھک نے بتایا کہ حالانکہ پلازما کے لیے بھی جسم سے خون ہی نکالا جاتا ہے لیکن خون دینے اور پلازما دینے میں فرق ہے۔ پلازما تھیراپی کے لیے جب خون لیا جاتا ہے تو اس میں سے پلازما نکال کر خون کو جسم میں واپس ڈال دیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس لیے ان دونوں عطیوں کے اصولوں میں فرق ہے۔ حاملہ خواتین کے پلازما سے کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے وہ پلازما نہیں دے سکتیں۔ ان کے پلازما سے مریض کو ٹرانسفیوژن ریلیٹڈ ایکیوٹ لنگ انجری (ٹی آر اے ایل آئی) ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’خواتین میں حمل ٹھہر جانے کے بعد مرد کے جسم سے داخل ہونے والے عناصر کے خلاف اینٹی باڈیز بنتی ہیں، کیونکہ جسم اسے بیرونی عنصر مانتا ہے۔ ان اینٹی باڈیز کو ہیومن لیوکوسائٹ اینٹیجن اینٹی باڈی (ایچ ایل اے اینٹی باڈیز) کہا جاتا ہے۔ کسی خاتون کے جسم میں جتنے زیادہ بچے ہوں گے، اس کے جسم میں اتنی زیادہ اینٹی باڈیز ہوں گی۔‘
یہ ایچ ایل اے اینٹی باڈیز خواتین کی امراض سے لڑنے کی قوت کا حصہ ہوتی ہیں جو جسم کو یہ پہچاننے میں مدد کرتی ہیں کہ جسم میں داخل ہونے والا عنصر باہر کا ہے یا اپنا۔ حمل کے دوران ایسا ہونا عام بات ہے۔ اس کا ایمبریو یا جنین اور ماں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ لیکن جب یہ کسی دوسرے جسم میں داخل ہوتا ہے تو اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
جب ایچ ایل اے اینٹی باڈی پلازما کے ذریعے کسی کے جسم میں داخل ہوتی ہے تو پھیپھڑوں کی سطح پر موجود خون کے سفید خلیوں کے ساتھ تعامل کرتی ہیں۔ اس سے پھیپھڑوں کو چوٹ پہنچتی ہے۔ عام زبان میں کہیں تو پھیپھڑوں میں مائع مادہ بھر جاتا ہے، جس سے مریض کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔‘
کورونا وائرس سے بُری طرح متاثر مریضوں کو پہلے ہی سانس لینے میں پریشانی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ایچ ایل اے اینٹی باڈیز سے خطرہ اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
جن خواتین کا حمل ضائع ہو جاتا ہے وہ بھی پلازما کا عطیہ نہیں کر سکتی ہیں کیوں کہ ان میں بھی ایچ ایل اے اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ بلند فشارِ خون، ذیابیطس، دل، پھیپھڑوں اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد بھی اپنا پلازما نہیں دے سکتے۔
ڈاکٹر سنگیتا پاٹھک نے بتایا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہے تو اس کا جسم مرض سے نمٹنے کے لیے جو حربے اپناتا ہے وہ سبھی پلازما کے اندر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس سے مقابلے کے دوران جو اینٹی باڈی بنتی ہے وہ پلازما کے اندر ہوتی ہے۔
اگر ہم بیمار شخص کا پلازما لیں گے تو وہ اور زیادہ بیمار ہو سکتا ہے۔ اس سے کووڈ کی اینٹی باڈیز کے ساتھ ساتھ اس کے جسم میں دوسرے امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود اینٹی باڈیز بھی نکل جائیں گی۔
پلازما عطیہ کرنے کے اصول
ڈاکٹر سنگیتا نے بتایا کہ پلازما کے عطیے کے لیے کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ خون کے عطیے کے اصولوں پر بھی عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عطیہ کرنے والے کا وزن 55 کلو یا اس سے زیادہ ہونا چاہیے۔
اس کا ہیموگلوبن 12.5 یا اس سے زیادہ ہونا چاہیے اور اس کی عمر 18 سے 60 برس کے درمیان ہونی چاہیے۔
اس شخص کو اگر بلند فشار خون یا ذیابیطس ہے تو عطیہ کے وقت مرض کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ پلازما لیتے وقت بلڈ پریشر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس شخص نے ان دنوں دانت کا کوئی علاج نا کروایا ہو۔
کووڈ 19 کے مریضوں کے مکمل طور پر ٹھیک ہونے کے 14 روز بعد ان کا پلازما لیا جا سکتا ہے۔ یہ 14 روز تب سے گنے جائیں گے جب ان کی رپورٹ منفی آئی ہو یا انھیں ہسپتال سے چھٹی ملی ہو۔ ایک بار پلازما کا عطیہ کرنے کے دو ہفتے بعد دوبارہ پلازما دیا جا سکتا ہے۔
لیکن کووڈ 19 کے لیے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز ہمیشہ جسم میں موجود نہیں رہتیں، اس لیے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے مطابق عطیہ کرنے والے شخص کے ٹھیک ہو جانے کے چار ماہ تک ہی اس سے پلازما لیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اینٹی باڈیز جسم میں رہیں گی یا نہیں۔
عطیے سے قبل کیے جانے والے ٹیسٹ
پلازما کے عطیے سے قبل عطیہ کنندہ کی کووڈ 19 کی مثبت رپورٹ دیکھی جاتی ہے تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ مذکورہ شخص واقعی کورونا سے متاثر ہوا تھا یا نہیں۔ اس کے بعد مریض کی دو منفی رپورٹیں دیکھی جاتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اب وہ کورونا سے متاثر نہیں ہے۔
ٹیسٹ نا ہونے کی صورت میں ہسپتال کی ڈسچارج سلپ پر لکھی تاریخ کے 14 دن بعد پلازما لیا جا سکتا ہے۔ پلازما کا عطیہ کرنے سے پہلے 24 گھنٹوں کے وقفے سے عطیہ کنندہ کے دو ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ اس کا آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ ہوتا ہے اور منفی رپورٹ آنے پر ہی اس شخص کا پلازما لیا جا سکتا ہے۔
اگر اس کے پاس ایک ہی رپورٹ منفی ہو تو ایک بار پھر آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص منفی رپورٹ آنے کے 28 دن بعد پلازما کا عطیہ کرنے آتا ہے تو اس کا اینٹی باڈی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
اگر وہ 28 روز بعد بنا رپورٹ کے پلازما کا عطیہ کرنے آتا ہے تو اس کا ٹیسٹ ضرور کروایا جاتا ہے، جو کہ منفی آنا ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کو دھیان میں رکھنا پلازما دینے اور لینے والے دونوں کی صحت کی خاطر بہت ضروری ہے۔