منو بھائی اور دیگر ماؤں کے بارے میں
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے، ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ وبا کاہے کی ہے، فلک کو ہمارے ہاتھ کاٹنے کا بہانہ منظور تھا۔ اگتے تھے جس میں شعر، وہ کھیتی اجڑ گئی۔ جن بستیوں سے ہواؤں کے دوش پر سُروں کے جھونکے موصول ہوتے تھے، جہاں خوشبو کا ڈیرا تھا، جہاں ہم دلی کے چھتنار پیڑوں کی سہایتا تھی، وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں۔ باہر گلی میں بے بسی کی لو کے تھپیڑے ہیں، پچھلے موسم کے جرم کا ظلم ہے، ادبار کے آثار ہیں، تلنگوں کی شہریاری ہے…. اور ادھر دل کے احاطے میں خواب کی طناب کٹ گئی ہے۔ جن کے بارے میں گماں تھا کہ تا عمر رواں ساتھ رہیں گے، وہ خاموشی سے ہاتھ چھوڑ کر راستہ بدل گئے ہیں، داغ جا کے نہ پھرے سوئے عدم اپنے رفیق، ہم یہ سمجھے تھے کہ دم بھر میں چلے آتے ہیں۔ نام گنوانے سے کیا حاصل۔ کوئٹہ کے شاعر طالب حسین نے کہا تھا، بہار آئے تو شاخوں پہ پھول گن لینا، میں کیا بتاؤں، میرے کتنے یار مارے گئے۔ مگر یہ کہ بہار اب آ کے کیا کرے گی، بساط یاراں اور شب نگاراں کا اہتمام کیسے ہو گا؟ وہ گل سرِ شام جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بجھ گئے ہیں….
ایک خیال سا آیا کہ احمد مشتاق، امین مغل، مسعود منور اور عشرت آفرین سے عرض گزاری جائے کہ اس گھڑی چلے آئیں کہ فسردہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے۔ پھر خیال آیا کہ جادہ غم کے یہ ہم صفیر جن بستیوں میں ہیں، وہاں بھی تو غالب کی دلی کا سماں ہے، گلیاں اکیلی ہیں اور رات اندھیری ہے۔ یہ تو منو بھائی کے شانے پر سر رکھنے کا سمے تھا۔ منو بھائی کو رخصت ہوئے ابھی بہت مدت نہیں ہوئی۔ جنوری 2018ء کو کل ملا کے تیس ماہ ہی تو گزرے ہیں۔ اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری…. منو بھائی اہل درد کے قافلے کا حدی خواں تھا۔ اس کے قلم کی روشنائی میں ماؤں کے دودھ کی مہکار بسی تھی۔ منو بھائی کے تذکرے میں ماؤں کا استعارہ بار بار آتا ہے۔ کچھ اشارے دیکھیے۔ تین یا شاید چار برس کی عمر تھی کہ ایک روز ریلوے میں ملازم باپ بابو عظیم قریشی نے اپنی بیوی کو زور دار تھپڑ مارا۔ اپنی ماں پر اس ظلم سے ننھے منیر قریشی کے معصوم دماغ پر ایسی چوٹ لگی کہ کئی برس کے لئے قوت گویائی ختم ہو گئی۔ ماں کے رخسار پر اس تھپڑ سے منیر قریشی مر گیا اور منو بھائی نے جنم لیا۔ بعد میں بولنا شروع کیا تو ہکلاہٹ باقی رہی۔ منو بھائی کی ہکلاہٹ پر ہزار تکلم قربان۔ وہ بغیر ہکلائے ظلم کی مذمت کرتا تھا اور مظلوم کی حمایت میں دوٹوک آواز اٹھاتا تھا۔ منو بھائی کے کالموں کا مجموعہ 1984ء میں شائع ہوا، عنوان تھا، جنگل اداس ہے۔ وہ اداس جنگل اب کٹ چکا اور شجر کاری کرنے والے ہاتھ قلم ہو چکے۔ درویش کے ذخیرے میں جنوری 1969 کی ایک تصویر محفوظ ہے۔ ایوب آمریت کے خلاف صحافیوں کے جلوس کی پہلی صف میں موجود منو بھائی نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے، ’کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام‘۔ احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کا دوسرا مصرع بے ساختہ اظہار کا مطالبہ کرتا ہے۔ صحافت کی آزادی سرکار دربار کے ملازم کی اجازت سے متعین نہیں ہوتی۔ حکومت میعادی بندوبست ہے اور حکومت کا طائفہ ساز و آواز کی عارضی ترتیب۔ قوم قائم بالذات ہے ، صحافی قوم کا خادم ہے اور بے ساختہ اظہار مانگتا ہے۔ اہل حکم کا تو بیانیہ بھی موقع شناس ہوتا ہے۔
1945 میں لکھی اپنی ہی کتاب Gold and Guns on the Pathan Frontier پر 1948 میں خود ہی پابندی لگائی جاتی ہے۔ مارچ 1956 میں جس دستاویز پر دستخط کر کے اسے قوم کا آئین قرار دیا جاتا ہے، اکتوبر 1958 میں اسے خود ہی ناقابل عمل کہہ کر منسوخ کیا جاتا ہے۔ 1962 میں جس کتابچے کو آئین کا نام دے کر طمطراق سے قوم کو عطا کیا تھا، اسے مارچ 1969 میں بغیر وجہ بتائے کھڑکی سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ 1979 کی خطاؤں کا اعتراف 2019 میں کیا جاتا ہے۔ کیا یہ مطالبہ نامناسب ہے کہ 1979 کی خطاؤں کے ضمن میں بھٹو صاحب کے مقدمہ پر نظر ثانی کا معاملہ بھی نمٹا دیا جائے۔ نذیر عباسی کی زندہ باریابی ممکن نہیں تو کم از کم قومی مفاد کے اس مفسر کا نام ہی قوم کو بتا دیا جائے جو مجاہدین جمہوریت کا قصاب کہلاتا تھا۔ کیا اب سوال اٹھانے کی اجازت ہے کہ جنیوا معاہدے کے بعد ہم افغانستان میں کیا کر رہے تھے اور ہمیں اس سے کیا حاصل ہوا؟ نسیم زہرا نے 1999ء کے واقعات پر ایک وقیع کتاب لکھی ہے، کتاب عدالتی کارروائی میں قابل قبول شہادت نہیں ہوتی لیکن جن اصحاب طبل و علم کے اسمائے گرامی سامنے آئے ہیں وہ اپنی صفائی کیوں نہیں دیتے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ میمو گیٹ اسکینڈل سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ ایسے اہم معاملے کو منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ جہانگیر ترین نے 2013 کے انتخابات، دھاندلی اور دھرنے کے بارے میں کچھ تہلکہ انگیز انکشافات کئے ہیں، اس معاملے پر بات کیوں نہیں ہو رہی۔ شوگر اسکینڈل کے بعد جہانگیر ترین خاموشی سے لندن چلے گئے۔ اس پر کاٹ دار بیانات اور طنزیہ پریس کانفرنسوں کا سلسلہ کیوں شروع نہیں ہوا؟ لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدلیہ کے ایک جج کو سنگین الزامات میں برطرف کیا ہے۔ متعلقہ جج کے دیے ہوئے قومی اہمیت کے فیصلے اور اس کے سیاسی عواقب پر بات کیوں نہیں ہو رہی؟ وفاقی وزرا ایک حالیہ جے آئی ٹی پر سوال اٹھا رہے ہیں تو وٹس ایپ والی جے آئی ٹی کس دھوبی گھاٹ پر دھلی تھی؟ منو بھائی اپنے دفتر میں بیٹھے تھے۔ ایک ماں اپنے بچے کی گمشدگی کی خبر لکھوانے آئی۔ منو بھائی نے پوچھا، ’اماں جی، تمہارے بیٹے نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے؟‘ غمزدہ ماں نے کہا ’کپڑے تو سفید پہن رکھے تھے اب تک تو میلے ہو چکے ہوں گے‘۔ ہماری قوم کے کپڑے میلے ہی نہیں، داغدار بھی ہو چکے۔ افسوس کہ اب منو بھائی زندہ نہیں رہے اور جو صحافی باقی بچے ہیں، ان کا قلم تا رضائے ثانی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔
بشکریہ ہم سب