سماجی فاصلے کا خیال رکھو۔ کسی کے قریب نہ جاؤ۔
باہر نکلتے وقت ماسک لگاؤ۔
سینیٹائزر ساتھ رکھو اور بار بار استعمال کرو۔
ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کورونا، کورونا کا شور مچا ہے، ہر ایک کی طرح عاشی اور شہزادی نے بھی یہ مشورے سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار ضرور سُنے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لوگ اِن ہدایات پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں جبکہ اِن دونوں کا پیشہ اُنھیں یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
عاشی اور شہزادی (فرضی نام) سیکس ورکرز ہیں اور پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں میں جسم فروشی کا کام کرتی ہیں۔ ہم نے جاننے کی کوشش کی کے وہ سیکس ورک کی طرف کس طرح آئیں،اور کورونا ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟
عاشی، لاہور
میں لاہور میں رہتی ہوں اور مجھے اِس شعبے میں آئے چار سے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ میں یہاں ایک شخص سے وابستگی کے بعد آئی۔ میری اُس سے دوستی ہوئی اور اُس نے مجھے اِس کام میں پھنسا دیا۔
میں شادی شدہ تھی اور گھر میں آئے دن ہماری لڑائی رہتی تھی کیونکہ شوہر کی کمائی ہی نہیں تھی۔ پھر میرا فون کے ذریعے ایک لڑکے سے رابطہ ہوا۔ ایک دن اُس نے مجھے باہر بلوایا۔ پھر وہ مجھے ایک جگہ لے گیا جہاں وہ مزید تین چار لڑکوں کو لے آیا۔ وہ بولا کہ اِس طرح کرو گی تو آپ کو پانچ سو روپیہ ملے گا۔
اس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ مجھے یہ کرنا پڑا لیکن پھر مجھے بھی عادت ہو گئی۔ میں نے سوچا چلو کمانے کا ایک ذریعہ سہی۔
میرے سات بچے ہیں۔ میں نے سوچا گھر میں کمائی آئے گی تو بچوں کے ہی کام آئے گی۔ میں اُن کے ہی لیے یہ سب کچھ کر رہی ہوں۔ سب کو پڑھا رہی ہوں۔ میرے ساتھ اس گھر میں میرا خاوند بھی ہے، ساس بھی ہیں، دیور بھی رہتے ہیں۔ لیکن میں انھیں یہ کہہ کر جاتی ہوں کہ میں ملازمت کرنے جا رہی ہوں۔
کورونا وائرس سے ہمارے کام پر بہت فرق پڑا ہے۔ ہماری فیلڈ کی ساری لڑکیاں کم از کم جنھیں میں جانتی ہوں وہ باہر نکلنا کم ہو گئی ہیں۔ میں بھی پہلی بار تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد باہر نکلی تھی۔ جب دیکھا کہ گھر میں حالات اِس قابل نہیں ہیں تو پھر باہر نکلنا پڑا۔
لیکن اب ہر شخص ہمارے پاس آتے ہوئے ڈرتا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں اُنھیں بھی کورونا نہ ہو جائے۔ ہم لوگ بھی اُنھیں بلاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ سو وہم آتے ہیں۔ اِس وجہ سے کام بہت کم ہوگیا ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی شخص کو کھانسی ہے، نزلہ ہے تو اُن لوگوں سے ہم ملتے بھی نہیں ہیں کہ کہیں انھیں کورونا نہ ہو۔ خوف آتا ہے کہ کہیں ایسے لوگوں سے مل کر ہم اپنا نقصان ہی نہ کر لیں۔
لیکن اگر کوئی بندہ لگتا ہے صحت مند ہے تو اُس سے ہزار، پانچ سو لے لیتے ہیں، اِس طرح دیہاڑی کا خرچہ نکل آتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ اپنے پرانے گاہکوں کو فون کرنا پڑتا ہے کہ پانچ سو ہزار (روپے) بھجوا دو۔ کچھ لوگ کر دیتے ہیں اور کچھ بہانے بنا دیتے ہیں۔
ہمارا کام ہی ایسا ہے کہ اِس میں سماجی فاصلہ نہیں ہو سکتا۔ جتنی مرضی احتیاط کر لیں لیکن نہیں ہو سکتا۔ ہم سب لڑکیوں میں سے کسی نے کورونا کا ٹیسٹ تو نہیں کروایا ہے لیکن اب تک کسی میں کورونا کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔
میں نے سُنا ہے کہ وائرس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ بے شک پابندیاں ختم بھی ہو جائیں لیکن وائرس کے ڈر سے لوگ کہیں نہیں جائیں گے۔
شہزادی، کراچی
مجھے اِس فیلڈ میں پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں۔ شادی شدہ ہوں اور میرے چار بچے ہیں۔ میرے شوہر کماتے نہیں تھے تو پھر ظاہری بات ہے آج کل کے حالات میں بنا پیسوں کے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو میری ایک دوست تھیں وہ مجھے لے کر آئیں۔ انھوں نے بولا یہ کام کرنا ہے۔ پہلے تو میں بالکل بھی اِس کام کے حق میں نہیں تھی لیکن جب گھر میں زیادہ مسائل ہوئے تو مجھے مجبوراً اِس کام میں آنا پڑا۔
میں نے اپنے گھر والوں کو یہ بتایا ہے کہ میں بنگلے میں کام کرتی ہوں۔ مجھے گھر کے کام کاج کے لیے رکھا ہوا ہے۔
شوہر کو میرے کام کا پتا ہے لیکن جب وہ کوئی کچھ دے نہیں سکتا تو منع کیا کرے گا۔ اُنھیں تو پیسوں سے مطلب ہے کہ پیسہ کماؤ اور گھر لے کر آؤ۔
اب جیسے یہ کورونا کا مسئلہ چلا ہوا ہے تو کام بالکل نہیں آتا۔ ہم فارغ بیٹھے رہتے ہیں سارا سارا دن۔ اکا دکا گاہکوں سے تو ہمارا گھر نہیں چلتا۔ ہم خود بہت پریشان ہو گئے ہیں کہ کمائیں کیا اور کھائیں کیا۔ اگر کسی کو مدد کے لیے کہا بھی تو جواب ملا کہ تم یہ کام کرتی ہو خود کما کر کھا لو۔
کئی مہینوں کے بعد اب کام کُھلا تو ہے لیکن وہ پہلے والی بات نہیں ہے۔ پہلے ہم دن میں تقریباً تیس چالیس گاہک کر لیتے تھے لیکن اب تیس چالیس تو بہت دور کی بات ہے دو تین ہی ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ گاہک بھی آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ہم بھی گھبراتے ہیں لیکن کیا کریں ہم نے تو کمانا ہے۔ اب ہم اپنا گاہک اِن سب چیزوں کے لیے تو نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر بندے کو کوئی مسئلہ ہو بھی تو ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہم اُس کو منھ پر تو منع نہیں کر سکتے کہ ہم نہیں کر رہے تم جاؤ۔
ہم نے تو آج تک کسی کو نہیں دیکھا کہ کوئی ماسک لگا کر یا سینیٹائزر استعمال کرنے کے بعد یہ کام کرے۔ کسی نے اگر یہاں آنے سے پہلے ماسک پہنے ہوتے ہیں تو وہ بھی اُتار دیتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ لوگ جب یہ کام کرنے آتے ہیں تو وہ تو وحشی ہی ہوتے ہیں ناں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وائرس کسی دوسرے کو بھی لگ سکتا ہے۔ پھر اُن کی باتیں ماننی پڑتی ہیں۔ اگر ہم کچھ کہتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو گھر میں بیٹھو باہر ہی کیوں نکل رہی ہو۔
ہم سب لڑکیاں خود سے جتنی احتیاط ممکن ہو برت رہے ہیں۔