دو ستمبر 1952۔ یہ امریکہ کی ریاست مینیسوٹا کا یونیورسٹی ہاسپٹل مینی ایپولس ہے۔ ایک کمزور اور دبلی پتلی پانچ سالہ لڑکی جیکلین جانسن کو ویل چیئر پر آپریشن تھیٹر میں لایا جاتا ہے۔
اس کے دل میں سوراخ ہے اور ان کے والدین کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کی بیٹی کے پاس جینے کے لیے صرف چند ماہ ہیں۔
جیکلین کے والدین اس کے علاج کے لیے ایک تجرباتی سرجری پر راضی ہوگئے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ جیکلین شاید آپریشن تھیٹر سے زندہ واپس نہ آئیں۔
بچی کو سُلا کر سرجیکل ٹیم نے انھیں بحفاظت کمبلوں میں لپیٹا جن میں بہت سی نالیاں لگی تھیں۔ انھوں نے کمبلوں کو ٹھنڈے پانی کے بہاؤ سے جوڑ دیا اور جیکلین کے جسم کے درجہ حرارت کو 28 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی معمول سے نو درجے نیچے جاتے ہوئے اور ان کے دل کی دھڑکن کو سست ہوتے ہوئے دیکھا۔
جانوروں پر کیے گئے تجربات کی بنیاد پر بنی تھیوری کے تحت درجہ حرارت میں اس کمی سے اُن کے جسم کی آکسیجن کی ضرورت میں کمی واقع ہوگی۔ اس کی وجہ سے سرجن جان لوئیس کو اتنا وقت مل جائے گا کہ وہ ان کا دل نکال کر، اس میں کٹ لگا کر دل کے سوراخ کو ٹھیک کرنے کے بعد سی سکیں اور سینے کو واپس بند کر سکیں۔
ان کے پاس اس کام کے لیے صرف چھ منٹ ہوں گے۔ یعنی معمول کے درجہ حرارت پر کام کرنے کے دوران میسر وقت سے صرف دو منٹ زیادہ۔ اگر ذرا سی بھی تاخیر ہوئی تو جیکلین کا دماغ اور ان کے اہم اعضا آکسیجن کی کمی کے شکار ہوجائیں گے اور انھیں ممکنہ طور پر شدید دماغی نقصان پہنچے گا یا وہ ہلاک ہوجائیں گی۔
یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں سرجری کے پروفیسر پال آئیزو کہتے ہیں کہ ‘یہ اس وقت کا جدید ترین کام تھا۔’
دل پر تحقیق کی جس عالمی شہرت یافتہ لیبارٹری کے وہ نگراں ہیں، وہ اس آپریشن تھیٹر سے صرف تین منزل نیچے ہے جہاں جیکلین کی سرجری کی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’تاریخ میں ایسے لوگوں کی کہانیاں ملتی ہیں جو ٹھنڈے پانی میں ڈوبے اور گھنٹوں بعد انھیں واپس زندہ کیا جا سکا، چنانچہ انھیں معلوم تھا کہ جسمانی درجہ حرارت میں انتہائی کمی (ڈیپ ہائیپوتھرمیا) حفاظت کر سکتا ہے۔‘
جیکلین کا سینہ کھول کر لوئیس ان کے دل کے ساتھ لپٹی ہوئی رگوں کو الگ کرتے ہیں۔ گھڑی چلا دی جاتی ہے۔ لوئیس پہلا کٹ لگاتے ہیں۔ جیکلین کا دل دھڑکتا رہتا ہے۔ خون نہ ہو تو دل میں موجود سوراخ کو دیکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ لوئیس اسے سی کر بند کر دیتے ہیں اور ایک نمکین محلول کی دھار سے یہ یقین کر لیتے ہیں کہ سوراخ بند ہو چکا ہے۔ اس کے بعد وہ دل کی دیوار میں بنائے گئے کٹ کو سی دیتے ہیں اور سرجری مکمل کر دیتے ہیں۔ جیکلین کا دل دھڑکتا رہتا ہے۔
بچی کو اٹھا کر گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ اصل میں یہ جانوروں کے پانی پینے کا ایک برتن تھا جسے باڑوں کا سامان فروخت کرنے والی ایک دکان سے خریدا گیا تھا۔
ان کے جسم کا درجہ حرارت واپس بحال ہونا شروع ہو جاتا ہے اور 11 دن بعد وہ نئی زندگی کے ساتھ ہسپتال سے گھر چلی جاتی ہیں۔
اس سے قبل دل میں سوراخ کو سزائے موت سمجھا جاتا تھا۔ درحقیقت کئی سرجنز کے لیے دل کی سرجری کرنا ممنوع تھا۔
1950 کی دہائی سے پہلے تک دل کی کامیاب سرجری صرف چاقو یا گولی کے ذریعے پیدا ہونے والے زخم کو ٹانکے لگانا یا چھرّوں کے ذرات کو باہر نکالنے تک ہی محدود تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران میدانِ جنگ کے سرجنز نے کئی نئی تکنیکیں ایجاد کیں تاہم پھر بھی انھیں ایسے دھڑکتے دلوں پر کام کرنا پڑتا جن میں خون دوڑ رہا ہوتا تھا۔ اس سے ممکنات کا دائرہ محدود ہوجاتا، خون بہت زیادہ نکلتا، اسے دیکھنا تکلیف دہ ہوتا اور بسا اوقات زیادہ خون بہہ جاتا۔
ہائیپوتھرمیا میں ہزاروں نوجوان زندگیاں بچانے کی صلاحیت تھی مگر آپریشن کے لیے دستیاب محدود وقت کا مطلب تھا کہ یہ صرف نسبتاً سیدھے سادے آپریشنز کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ سرجنز کو دل علیحدہ کرنے اور اسی دوران آکسیجن سے بھرپور خون کی فراہمی جاری رکھنے کا طریقہ چاہیے تھا تاکہ وہ مزید وقت حاصل کر سکیں۔
سرجری کی تاریخ کا سب سے ’خطرناک آپریشن‘
اس کا جواب لوئیس کی معاونت کرنے والے ایک جونیئر سرجن والٹن للی ہائے کی جانب سے ایک اور ایسے آپریشن کے ذریعے آیا جسے سرجری کی تاریخ کے سب سے غیر معمولی اور ممکنہ طور پر خطرناک ترین آپریشنز میں شمار کیا جاتا ہے۔
للی ہائے نے تجویز دی کہ مریض کو سرجری کے دوران زندہ رکھنے کے لیے کسی عطیہ کنندہ کا استعمال کیا جائے۔ خیال یہ تھا کہ مریض جیسے بلڈ گروپ کے حامل ایک صحت مند شخص سے آکسیجن سے بھرپور خون حاصل کیا جائے، مریض کے جسم میں داخل کیا جائے، اور آکسیجن سے عاری خون عطیہ کنندہ کے جسم میں شامل کیا جائے۔ انھوں نے اس عمل کو ’کراس سرکولیشن‘ کا نام دیا۔
پر سرجیکل حلقوں میں اسے پذیرائی نہیں ملی کیونکہ یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی مثلاً اس نظام میں ہوا کا کوئی بلبلہ داخل ہوگیا تو اس سے مریض اور عطیہ کنندہ دونوں ہلاک ہوسکتے ہیں۔
آئیزو کہتے ہیں کہ ’اس حوالے سے متعدد اخلاقی خدشات تھے۔ یہ واحد سرجری تھی جس میں آپ کے پاس شرحِ اموات 200 فیصد تک ہوسکتا تھا اور اس کے علاوہ کئی حوصلہ شکن لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ للی ہائے پاگل ہوگئے ہیں۔ سرجنز کی جانب سے یہ کرنے کی ہمت پیدا کرنا اور مریضوں کا اس پر متفق ہونا نہایت حیرت انگیز ہے۔‘
للی ہائے کے شعبے کے سربراہ اوون وینگنسٹین نے ہری جھنڈی دکھائی اور 26 مارچ 1954 کو صبح چھ بجے ایک والد اور ان کے ایک سالہ بچے کو آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔ دونوں کو بے ہوشی کی دوا دی گئی اور والد کی ٹانگ سے ایک پلاسٹک کی نالی منسلک کی گئی اور دوسری جانب سے اسے بچے کے سینے سے منسلک کر دیا گیا۔ یہ نالی ویسی ہی تھی جیسی خوراک تیار کرنے والی فیکٹریوں میں مایونیز وغیرہ کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہ آپریشن کامیاب رہا۔ تاہم وہ بچہ چند دن بعد نمونیا کی وجہ سے مر گیا لیکن اگلا تین سالہ مریض زندہ رہا اور 67 سال کی عمر تک جیا۔
اپنی وفات پر انھوں نے اپنا جسم واپس یونیورسٹی آف مینیسوٹا کو عطیہ کر دیا اور آئیزو ان کے دل کا مطالعہ کرنے، یہاں تک کہ للی ہائے کے لگائے گئے ٹانکوں کو دیکھنے، کے بھی قابل ہوئے ہیں۔
للی ہائے نے اس کے بعد 45 کراس سرکولیشن آپریشن کیے۔ ان میں سے 28 بچے زندہ بچ پائے۔ خراب شرح نے سرجیکل ٹیم کو جذباتی طور پر بہت متاثر کیا مگر سرجری کے بغیر تمام ہی مریض تقریباً یقینی طور پر مر جاتے۔
دل کی کنسلٹنٹ سرجن اور رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ کی کونسل رکن فرح بھٹی کا کہنا ہے کہ ’ان کے سامنے ایسی صورتحال تھی جس میں وہ جیت نہیں سکتے تھے۔ بچے ہلاک ہو رہے تھے۔ یہ کسی کے بھی کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری تھی۔‘
عطیہ کنندگان کی حفاظت کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے خون میں آکسیجن شامل کرنے اور جسم میں دورانِ خون جاری رکھنے کے ایک کم خطرناک طریقے کی ضرورت تھی۔
سنہ 1930 کی دہائی سے سرجن جان گبن ایک ہارٹ لنگ مشین بنانے کی کوششوں کی سربراہی کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو سرجری کے دوران دل اور پھیپھڑوں کی ذمہ داری سنبھال لیتی ہے تاکہ جسم کو آکسیجن سے بھرپور خون کی فراہمی جاری رکھی جا سکے۔
ڈاکٹر بھٹی کہتی ہیں کہ ’اگر ہارٹ لنگ مشین نہ ہوتی تو جدید دور کی دل کی سرجری بھی نہ ہو پاتی۔ یہ ہمارے آپریشنز کا بنیادی جزو ہے۔‘
مئی 1953 میں گبن نے ایک 18 سالہ خاتون کے دل میں موجود سوراخ کو بند کیا جبکہ مشین نے ان کی مریض کو کُل 26 منٹ تک زندہ رکھا۔ مگر خون سے بھری ہوئی یہ ڈیپ فریزر جتنی مشین آپریشن کے دوران پھٹ گئی۔ گبن کے اگلے تین آپریشن ناکام رہے اور انھوں نے کام روک دینے کا فیصلہ کیا۔
للی ہائے سمیت دیگر لوگوں نے ہارٹ لنگ مشینوں کی تیاری پر کام جاری رکھا اور انجینیئرز کے ساتھ مل کر اس ٹیکنالوجی کو بتدریج محفوظ تر اور قابلِ اعتبار بناتے رہے۔
للی ہائے نے اولین پیس میکرز کی تیاری میں بھی مدد کی تھی۔ انھوں نے میٹرونوم کی تیاری کی ہدایات ’پریکٹیکل الیکٹرانکس‘ نامی رسالے میں سے اپنائیں۔ میٹرونوم کو موسیقی میں دہرائی جانے والی دھن بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیس میکرز کو اکثر سرجری کے بعد نوجوان لوگوں کے دلوں میں نصب کر دیا جاتا تاکہ ان کی دھڑکنوں میں ربط رہے (تاہم ردوبدل کرنے والے ڈائل کے اوپر ٹیپ لگا دی جاتی تاکہ بچے اس سے کھیل نہ سکیں۔)
سنہ 1955 میں کامیاب سرجری کے راستے میں حائل ایک اور رکاوٹ اس وقت دور ہوئی جب برطانوی سرجن ڈینس میلروز نے دل کو عارضی طور پر بند کر دینے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ انھوں نے پوٹاشیم کلورائیڈ کی ایک خوراک استعمال کی اور دل کو بجلی کے ذریعے دوبارہ حرکت میں لے آئے۔ اب پہلی مرتبہ سرجن ایک رُکے ہوئے دل پر سرجری کر سکتے تھے۔
ان اختراعات نے مل کر دل کی سرجری کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس دہائی کے آخر تک دنیا بھر کے مختلف ہسپتالوں میں مریضوں کی وسیع اکثریت دل کے بڑے آپریشنز میں زندہ رہنے میں کامیاب رہی۔
ڈاکٹر بھٹی جو عموماً ایک ہفتے میں دل کے چار آپریشن کرتی ہیں، دل کی سرجری کو ایک بیلے رقص سے تشبیہ دیتی ہیں جس میں درجنوں لوگ بشمول سرجن، نرسیں، بے ہوشی کی دوا دینے والے یعنی انیستھیسسٹ اور ہارٹ لنگ مشین چلانے والے یعنی پرفیوژنسٹ شامل ہوتے ہیں۔
مگر کچھ آپریشن اب بھی حیران کن حد تک اُس آپریشن جیسے ہیں جس نے جیکلین جانسن کی زندگی بچائی تھی۔
دل سے نکلنے والی مرکزی نالی کو ٹھیک کرنے کے آپریشن کے دوران سرجن اب بھی ہائیپوتھرمیا کی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بھٹی بتاتی ہیں: ‘آپ کے سر اور دل پر برف کے پیکٹ رکھے جاتے ہیں اور آپ کے جسم سے خون نکال لیا جاتا ہے مگر خون واپس نہیں لوٹایا جاتا چنانچہ آپ میں خون کی گردش باقی نہیں رہتی۔ اگر آپ ایسی حالت میں مریض کو دیکھیں تو ایسا لگے گا جیسے وہ زندہ نہیں ہیں۔’
اس تکنیک سے سرجنز کو 30 منٹ مل جاتے ہیں جس کے بعد انھیں خون کی گردش بحال کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔
ڈاکٹر بھٹی کہتی ہیں: ‘آپ کو بہت تیزی سے مگر نہایت عرق ریزی سے کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ ہارٹ لنگ مشین دوبارہ چل پڑے تو آپ اس حصے تک دوبارہ نہیں پہنچ سکتے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب تھیٹر میں خاموشی ہوتی ہے، کوئی بات نہیں کر رہا ہوتا، اور آپ کو اپنی توجہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ہر کسی کو معلوم رہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’
گذشتہ 70 برسوں میں سرجری کے شعبے میں ترقی کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ اوپن ہارٹ سرجری کبھی بھی ایک معمول کا آپریشن بن پائے گی۔ ڈاکٹر بھٹی کے مطابق وہ اب بھی دل کو دیکھ کر اور اسے ہاتھ میں لے کر پرجوش ہوجاتی ہیں۔ ‘یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔’
‘جب سرجری ختم ہوجانے کے بعد کسی مریض کا دل دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے تو یہ احساس بہت خوشگوار ہوتا ہے۔’
رچرڈ ہولنگھم سائنس اور سپیس کے صحافی ہیں، بی بی سی فیوچر کے فیچر لکھاری ہیں، اور بلڈ اینڈ گٹس: اے ہسٹری آف سرجری نامی کتاب کے مصنف ہیں۔