نومبر 2019ءمیں ایک فارمولہ طے پاگیا تھا کہ مرکزمیں عمران خان کو گھر بھیج کر مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر موقع دے دیا جائے۔ شرط مگریہ کہ مرکز میں شریف خاندان کے کسی فرد کی بجائے شاہد خاقان عباسی یا ایازصادق کو وزیراعظم بنایا جائے۔ غالبا ایاز صادق پر اتفاق بھی قائم کرلیا گیا تھا۔
پنجاب کی کمان عثمان بزدار سے لے کر گجرات کے چوہدریوں کے حوالے کرنا تھی۔ پرویز الٰہی ایک موثر وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ماضی میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے اب انہیں ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔
مجوزہ منظر کشی کرنے والوں کا خیال تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ ن کے ہاں میں ہاں ملانے والے چہرے اور پنجاب میں تجربہ کاروزیراعلیٰ کی موجودگی سے منجمد کاروبار بحال ہوجائے گا جس سے معیشت کی ڈوبتی کشتی ایک بار پھر کامیابی سے سفر کرنے لگے گی اور عام آدمی کو اطمینان حاصل ہوگا۔
یہ سب طے تھا۔ مگر ایک کردار کی نکی جئی ہاں لازمی تھی اور وہ تھا برطانیہ میں بیٹھا میاں نوازشریف۔ جس نے یہ کہہ کر سارے منصوبے کا ستیاناس کردیا کہ’’اس سسٹم کو مصنوعی ذریعوں سے گرانے کی بجائے خود گرنے دیں‘‘۔
شاید اندرخانے نوازشریف اور شہباز شریف کا یہ اتفاق بھی تھا کہ اگر اس کھیل میں اقتدار کا ہما خاندان سے باہرکسی کے سرپر بیٹھ گیا تونہ صرف ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچے گا بلکہ پارٹی کو کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اس انکار کے بعد شہبازشریف نے وطن واپس آکر طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے اپنی مجبوریوں کی کتھا سنائی۔ یوں مشکل سے تیارکیا گیا سارا منظر نامہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا۔ اسی دوران کورونا نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور توجہ سیاست سے ہٹ کر صحت کی جانب مبذول ہوگئی۔
دوسری طرف عمران خان بھی شہباز شریف کےبارے میں پوری سن گن رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مشیراحتساب بیرسٹرشہزاد اکبر کوہدایت کی۔ یوں شہباز شریف کونیب کے ذریعے اندرکرانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ مگر شہبازشریف کو طاقتوروں نے بچا لیا۔
نوازشریف اور شہبازشریف میں تبدیلی کے لیے نئے انتخابات پرمکمل اتفاق ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایسی صورت میں پنجاب میں ان کی جماعت مسلم لیگ ن ہی کلین سوئپ کرے گی۔ اسطرح شریف خاندان عوامی طاقت سے آزادانہ فیصلے کرے گا۔ یہ بات شایدطاقتور حلقوں کو پسند نہیں۔
ادھر پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری الگ سے اپنی کوششیں کررہے ہیں۔ وہ فوری تبدیلی کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ تبدیلی کے لیے انتخابات کا انتظارکرنے کی بجائے اپوزیشن کو متحد کیا جائے اور پارلیمنٹ کے اندروارکرکے ہی نئی حکومت قائم کرلی جائے کیونکہ کمزور معیشت نئے انتخابات کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے اور موجودہ حکومت کمزور معیشت کو بحال کرنے میں ناکام۔ دلیل تو درست ہے مگر شاید فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وقت درست نہیں۔
اپنی سوچ پر عملدرآمد کے لیے بلاول بجٹ کی منظوری سے قبل انتیس جون کو ساری جماعتوں کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ شہبازشریف سے فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی بیماری کے باعث شرکت سے معذرت کرلی۔ کہا گیا کہ جناب کوئی سینئررہنما ہی بھیج دیں جواب آیا کہ کوئی دستیاب ہی نہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر ن لیگ کا کوئی رہنما موجود نہیں توہم اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر بجٹ کے خلاف مشترکہ بیان جاری کردیتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں خواجہ آصف کو حکم ملا اور وہ بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد کے سندھ ہائوس پہنچ گئے۔ شہبازشریف نے خواجہ آصف کے ذریعے اپنی اپوزیشن لیڈری کی عزت بچالی۔
بجٹ کے بعد جون کے مہینے میں بلاول بھٹو لاہورپہنچے توسابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمان نے شہبازشریف سے رابطوں کی کوشش کی کہ کسی طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ان دونوں بڑوں کی ملاقات ہوجائے۔ شہبازشریف کی طرف سے کورونا بیماری کے باعث معذرت کرلی گئی۔ کہا گیا کہ انٹرنیٹ پر ورچوئل ملاقات ہی کرلی جائے مگر اس پر بھی انکارکردیا گیا۔
تادم تحریر شہبازشریف انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر گامزن کسی اشارے کے منتظر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے موجودہ سیٹ اپ کو بچانے اور چلانے میں اتنا کردار خود وزیراعظم عمران خان کا نہیں جتنا شہبازشریف کا ہے۔ دونوں مگر ایک دوسرے کے مخالف ضرورہیں۔ دراصل یہ فیصلہ سازوں کی محبت میں باہمی رقابت کی مخالفت سے زیادہ کچھ نہیں۔
ادھر حکمران جماعت تحریک انصاف کی حالت زار بھی دلچسپ ہے۔ جوں جوں مائنس ون کی آوازیں بلند ہورہی ہیں پارٹی کے اندر سے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اس غرض سے متعلقہ حلقوں سے اشیر بادلینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ لیکن انہیں وفاقی وزیرفوڈ سیکورٹی فخرامام اور وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو بڑے پسند ہیں۔
اگر کسی وقت پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے اندر سے وزیراعظم کو تبدیل کرنے کے آپشن پر عمل کیا گیا توان دونوں میں سے کوئی ایک اہم ہوسکتا ہے۔ ساری خواہشیں، سازشیں اور سرگوشیاں اپنی جگہ فی الحال رواں سال میں وزیراعظم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم مارچ 2021میں سینٹ انتخابات تک کے لئےصفیں درست کی جارہی ہیں۔
تاکہ سینٹ میں اپنے بندے داخل کرکے پارلیمنٹ کا کنٹرول حاصل کیا جائے اور اس کے بعد وزیراعظم کی تبدیلی کا عمل شروع ہو۔ جو بھی اقتدارمیں لایا جائے اسکے ہاتھ میں سینٹ اور قومی اسمبلی کی مکمل طاقت دینے کی بجائے صرف قومی اسمبلی کی باگ ڈورہی دی جائے تاکہ طاقت اُس کے اصل مرکز کے ہاتھ ہی میں رہے۔
آئے ہے بیکسی عشق پے رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد