اسلام آباد کے مجوزہ مندر پر ترکی میں کوئی بحث نہیں ہوئی لیکن استنبول میں میوزیم کو مسجد بنانے کے فیصلے پر اہلِ پاکستان میں جاری بحث ختم ہونے کو نہیں آرہی۔ شرکا کے جوش وجذبے کا یہ عالم ہے کہ جیسے یہ ہماری آبائی زمین کا معاملہ ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ میں جیسے جیسے اس سوال پرغور کرتا گیا، سوچ وفکر کے نئے دریچے وا ہوتے گئے۔
ہمارے مذہبی مزاج کی تشکیل کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ اکیسویں صدی کے باسی ہونے کے باوصف ہم ذہنی طور پرآٹھویں صدی میں کھڑے ہیں۔ جیسے ہی کوئی اجتماعی معاملہ سامنے آتا ہے، ہم خیال کرتے ہیں کہ دنیا دارالاسلام اور دارالحرب میں منقسم ہے۔ یہ اسلام آباد ہو، بغداد ہویا استنبول، دراصل بلادِ اسلامیہ اور ‘ہمارے‘ شہر ہیں۔ ہم دورِ ابو حنیفہ و ابو یوسف میں زندہ ہیں۔ وہی بتائیں گے کہ خراج کس شرح سے لینا ہے اور غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے۔
بظاہر ایک جدید آدمی ہمارے سامنے ہوگا۔ ہاتھ میں موبائل، جدید طرز کی گاڑی اور ہمہ وقت انٹرنیٹ پر متحرک لیکن جیسے ہی کوئی مذہبی مسئلہ سامنے آئے گا، وہ ایک جست میں کئی صدیاں پیچھے چلا جائے گا، گویا اپنے گردوپیش سے لاتعلق ہو گیاہے۔ آپ لاکھ احساس دلاتے رہیں کہ ہمیں جو مسائل درپیش ہیں وہ اکیسویں صدی سے متعلق ہیں، وہ حل صدیوں پرانی کتابوں سے ڈھونڈے گا جوہمارے اسلاف نے اس دور کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر لکھیں۔
اس ذہنی ساخت کے مظاہر آپ کو اس خطے کی تاریخ میں وافرملیں گے۔ مثال کے طور پر تحریکِ خلافت۔ تاریخی عمل کے نتیجے میں، دنیا سلطنتوںکے عہد سے نکل رہی تھی۔ نوشتہ دیوار تھاکہ سلطنت انگریزوں کی ہو، قاجارکی ہو یا عثمانیوں کی، اب اسے باقی نہیں رہنا‘ اس خطہ ارض کی اب نئی تقسیم ہونی ہے‘ نئی تقسیم نئے نظامِ فکرکا تقاضا کرے گی‘ ہمیں اب ماضی کے بجائے، مستقبل کی طرف دیکھناہے۔
نیا ذہن اس بات کو سمجھ رہاتھا۔ علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے جدیدلوگ اس تحریک سے لاتعلق رہے۔ علامہ اقبال کو تو جدید ترکی میں مسلم مستقبل کے امکانات دکھائی دے رہے تھے۔ مولانا مودودی اگرچہ ایک نوخیز نوجوان تھے لیکن وہ بھی سمجھ رہے تھے کہ یہاں کے مسلمان ایک لاحاصل کام میں توانائیاں برباد کر رہے ہیں۔ اس دورمیں لیکن یہ اقلیتی آواز تھی۔ اکثریت یہ فرض کیے بیٹھی تھی کہ بیسویں صدی میں عثمانی سلطنت کو بچایا جا سکتا ہے۔
یہ ذہنی ڈھانچہ آج بھی اسی طرح فعال ہے۔ ہمارے ہاں سلطان محمد فاتح کے اقدام کا اس طرح دفاع کیا جا رہاہے جیسے اسلام کے کسی اصول کادفاع کیا جاناچاہیے۔ دلائل بھی وہی پرانے اور خواہش بھی وہی کہ عالمی خلافت کا احیاہو جائے۔ طیب اردوان صاحب نے اس مسلم ذہن کو جس مہارت کے ساتھ اپنی سیاسی قوت میں بدلا ہے،یہ آنے والے دنوں میں تحقیق کا اہم موضوع ہوگا۔ آج ہماری کیفیت اس مقرر اوراس کے سامعین جیسی ہے جو بظاہر منطقی دلائل دیتے دیتے، اچانک مذہبی تاریخ میں جا نکلتا ہے اور سامعین یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ساتویں صدی ہجری کے کسی میدانِ جنگ میں کھڑے ہیں۔ ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اکیسویں صدی کے باشندے ہیں جب یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ گھوڑے کلام کرتے اور زمین جذبات رکھتی ہے۔
ہم بھی جیسے ہی مذہب کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ تو ہم کسی دارالاسلام کے شہری ہیں اور نہ دوسری طرف کوئی دارالحرب ہے۔ ہم قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں اور اب دنیا کا نقشہ تبدیل ہو چکا۔ یہ استنبول ہویا بغداد، ہمارے لیے واشنگٹن اور لندن کی طرح ہیں۔ ہر جگہ جانے کے لیے ہمیں ویزا چاہیے۔ یہاں تک کہ ہم مکہ مکرمہ بھی وہاں کے حکمرانوں کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے جہاں داخلے پر پابندی کاحق کسی کو دینی طور پرحاصل نہیں ہے۔
میرا احساس ہے کہ جیسے ہی اس ذہنی کیفیت سے نکل کر سوچیں گے، ہم معاملے کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے۔ آج ہم قومی ریاستوں اور کثیرالمذاہب معاشروںکے باسی ہیں۔ اب دنیا کے ممالک مذہبی بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔ آج شہریت کی اساس مذہب نہیں ہے۔ ہر ملک میں شہریت کے حصول کا ایک قانون ہے، جو اس پر پورا اترتا ہے، اس ملک کا شہری بن سکتا ہے۔ اسی اصول پر یہودی، مسیحی، مسلمان اور ہندو، امریکہ یا برطانیہ کے شہری بنتے ہیں۔ اب کوئی دار الاسلام ہے نہ دارالحرب۔ یہ دنیا کی نئی تجسیم ہے اور اس کے چلانے کے ضوابط بھی نئے ہیں۔
محمد فاتح کا تعلق سلطنتوں کے عہد سے تھا۔ اس دورمیں جو کسی علاقے پر قابض ہو جاتا، اسے مقامی آبادی اور مفتوح زمین پر تصرف کا حق مل جاتا۔ اسی اصول پہ ہسپانیہ پر مسیحی اور قسطنطنیہ پر عثمانی قابض ہوئے۔ ایک نے مسجد کو کلیسا بنا ڈالا، دوسرے نے کلیسا کو مسجد۔ سلطان فاتح کے کسی اقدام کا دفاع میری اخلاقی ذمہ داری ہے نہ مذہبی؛ تاہم ایک تاریخی واقعے پرتبصرہ ہو سکتا ہے۔ اگر سلطان محمد فاتح آیا صوفیہ کو کلیسا رہنے دیتے تو وہ دنیا پر اپنی اخلاقی برتری قائم کر سکتے تھے۔ (اس باب میں دین کی رہنمائی کیاہے، یہ الگ موضوع ہے) اتاترک نے چاہا کہ وہ عالمی سطح پر قوموںکے مابین تعلقات کی تشکیلِ نو کریں۔ انہوں نے اسے مسجد سے میوزیم بنا دیا۔ اگر انہوں نے مستقبل کے امکانات کو بھانپ لیا تھا تو زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ اسے دوبارہ کلیسا بنا دیتے۔ تیسرا موقع طیب اردوان کو ملا۔ وہ اگر اسے کلیسا نہیں بنا سکے تو اسے میوزیم ہی رہنے دیتے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
اردوان اصلاً اسلام کی سیاسی تعبیر کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک عصبیت اور دیگر مذاہب سے برسرِ پیکار ایک سیاسی قوت ہے۔ وہ دنیا کو مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر منقسم دیکھ رہے ہیں۔ اب ارطغرل اور محمد فاتح کو مسلم دنیا کے نئے ہیروزکے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہی مردِ جری ان مجاہدوں کا جانشین ہے جنہوں نے ‘دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‘۔
اس تعبیر نے بین المذاہب تعلقات کی نوعیت کو جوہری طور پر بدل دیا ہے۔ اب اسلام اور غیر مسلموں کے مابین تعلق کی اساس مخاصمت ہے۔ یہ دو متحارب گروہ ہیں۔ کہیں مسلمانوں کا مقابلہ ہندوئوں سے ہے، کہیں مسیحیوں سے اور کہیں یہودیوں سے۔ یہ ذہن ابھی تک انسانوں کو دو گروہوں میں منقسم دیکھ رہا ہے اور زمین کو دو خطوں دارالاسلام اور دار الحرب میں۔ یہ اسلام آباد کا مندر ہو یا استنبول کا کلیسا، دونوں کے بارے میں اسی بنیاد پر فیصلہ دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف موجود اسلاموفوبیا نے اس تعبیر کو کمک فراہم کی ہے۔
اس تعبیر نے اسلام کے اصل مشن اوراس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی تقسیم کو بھلا دیا ہے۔ اسلام کوئی گروہی عصبیت نہیں، عالم کے پروردگار کی ہدایت ہے۔ ختمِ نبوت کے بعد، اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری بنی اسماعیل کو سونپی ہے کہ وہ دنیا پر حق کی شہادت دیں۔ ان کے تتبع میں یہ ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یوں غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے تعلق کی اساس دعوت ہے۔ ہم داعی ہیں اور وہ مدعو۔ قومی ریاستوں کے قیام نے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر دیاہے۔ اب جنگوں کی بنیاد ریاستوں کے متصادم مفادات ہیں۔
دعوت تقاضا کرتی ہے کہ داعی مدعو کے ساتھ خیر خواہی کا تعلق رکھے جیسے اللہ کے بنی اپنی قوم کے ساتھ رکھتے تھے۔ طیب اردوان صاحب نے مسلم غیرمسلم کے مابین اس حقیقی تعلق کی بحالی کے امکانات کو مزید کم کر دیا ہے۔ یہ اسلام آباد کا مندر ہو یا استنبول کا آیا صوفیہ، بطور مسلمان ہم نے اپنی اخلاقی برتری قائم کرنے کے مواقع گنوا دیے۔