اپنی طویل تاریخ میں 85 برس کے وقفے کے بعد بازنطینی دور کی اہم عمارت اور دنیا کے عظیم تاریخی ورثے میں سے ایک ’آیا صوفیہ‘ دوبارہ عبادت کی جگہ بن گئی ہے۔
اِس حالیہ تبدیلی میں استعمال ہونے والا ہتھیار قانون ہے جو سنہ 1934 میں بھی استعمال ہوا تھا جب کمال اتاترک نے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ اتا ترک جدید ترکی کے بانی تھے۔
آج کی طرح یہ عظیم عمارت اُس وقت بھی اورہمیشہ دنیا کے اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کا مظہر رہی ہے جہاں گذشتہ ڈھائی ہزار برس سے مشرق اور مغرب کا ملاپ ہوتا رہا ہے۔ دفاعی اعتبار سے اس اہم خطے پر قبضے کے لیے ماضی میں کئی بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگیں ہوئیں۔
آیا صوفیہ نے استنبول کی تند و تیز تاریخ کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے، کئی جنگوں کے زخم سہنے اور اچھا برا وقت دیکھنے کے باوجود یہ اپنی جگہ موجود ہے۔
اگر جدید عمارتیں اکثر کئی دہائیوں سے زیادہ نہیں ٹھہر پاتیں تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ یہ عمارت 1500 برس سے قائم ہے؟
ابتدائی تاریخ
رومن مورخ ٹیسیٹس کے مطابق آیا صوفیہ یعنی چرچ آف دا ہولی وزڈم آف کرائسٹ بازنطینی شہر ایکروپولس میں اُسی مقام پر قائم کیا گیا تھا جہاں اس سے پہلے بھی دو گرجا گھر بنائے گئے تھے۔
رومن بادشاہ کونسٹنٹائن (سنہ 337 – 272) نے چوتھی صدی میں شہر کا نام بدل کر کونسٹینٹینوپل یا قسطنطنیہ رکھ دیا اور سلطنتِ روم کا دارالحکومت اس شہر میں منتقل کر دیا۔ کونسٹنٹائن اس شہر کو ایسا بنانا چاہتا تھا کہ لوگ روم کو بھول جائیں۔
پہلی بار آیا صوفیہ کو سنہ 360 میں کونسٹنٹائن کے بیٹے کونسٹینٹیئس دوئم نے کھولا لیکن سنہ 404 میں فسادات کے دوران اسے جلا دیا گیا۔
اُس کے بعد تھیوڈوسیئس دوئم نے سنہ 405 میں اسے دوبارہ تعمیر کیا لیکن سنہ 532 میں ہونے والے فسادات میں اسے ایک مرتبہ پھر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اُس جلی ہوئی عمارت کی کچھ باقیات موجودہ مسجد کے باغ میں موجود ہیں۔
فسادات میں جلائے جانے کے کچھ دنوں کے بعد بادشاہ جسٹینیئن نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح وہ چرچ تعمیر ہوا جو اگلے کئی سو برسوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا چرچ رہا۔
جسٹینیئن اس عمارت کو پہلے سے زیادہ شاندار اور پر شکوہ بنانا چاہتا تھا، ایک ایسا کتھیڈرل جو سلطنتِ روم کی طاقت اور مزاحمت کا واضح اعلان اور علامت ہو۔
جسٹینیئن نے اس کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، اس عمارت کی تعمیر کے لیے افریقہ، ایشیا اور یورپ سے چیزیں منگوائی گئیں۔ ایک داستان کے مطابق اس کے دروازے حضرت نوح کی کشتی کے ٹکڑوں سے بنائے گئے۔
ایسا کر کے جسٹینیئن حضرت سلیمان بننا چاہتا تھا جنھوں نے یروشلم میں پہلا ٹیمپل تعمیر کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ آیا صوفیہ میں پہلی مرتبہ داخل ہوا تو اس نے جوش سے نعرہ لگایا ‘میں نے تمہیں ہرا دیا سلیمان۔’
اس کتھیڈرل یا چرچ کی تعمیر کے لیے جسٹینیئن نے اس وقت کے بہترین ماہرینِ تعمیرات کی خدمات حاصل کیں۔ ان ماہرین نے اسے چھ سال سے کم عرصے میں مکمل کر دیا۔ یہ اس لحاظ سے ایک کارنامہ تھا کہ قرونِ وسطیٰ کے زمانے کی ٹیکنالوجی اور کاریگروں نے پیرس کے کتھیڈرل نوٹر ڈیم کو تقریباً ایک صدی میں مکمل کیا تھا۔
آیا صوفیہ کی یہ مضبوط اور پرشکوہ عمارت شہر کے منظر پر چھا گئی اور اس کا 33 میٹر قطر والا گنبد دنیا کا سب بسے اونچا گنبد قرار پایا جو زمین سے 55 میٹر اونچا تھا لیکن 26 سال بعد ایک زلزلے میں یہ گنبد ڈھ گیا۔
بادشاہ نے فوراً ہی اس کی مرمت کا حکم جاری کیا۔ اس مرتبہ کئی دوسری تکنیکوں کے علاوہ جو ایک تکنیک استعمال کی گئی وہ یہ تھی کہ گنبد کی گول بیم پر وزن کم کرنے کے لیے 40 پتلے پتلے کالم بنائے گئے۔ اس کے بعد انھیں یہ معمہ حل کرنا تھا کہ ایک چوکور بنیاد پر گول گنبد کیسے بنایا جائے۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس چوکور بنیاد میں کچھ تکونے کالموں کا اضافہ کیا جائے جو ایسی جگہوں پر لگے ہوں جو وزن اٹھانے کے لحاظ سے بہت اہم ہوں۔
ان تکونے کالموں نے گنبد کے نیچے دائرے کا وزن چار پوائنٹس پر منتقل کر دیا جس سے یہ پورا ڈھانچہ ایک دائرے سے تبدیل ہو کر چوکور ہو گیا۔
اس کے علاوہ گنبد میں بہت ہلکی اور پتلی اشیاء استعمال کی گئی جس کی وجہ سے جب اس میں سینکڑوں موم بتیاں جلائی جاتی تھیں تو سینٹ صوفیہ کا یہ گنبد رات میں دور سے جگمگاتا ہوا نظر آتا تھا۔
وکٹوریا ہیمنڈ نے اپنی کتاب ‘وژنز آف ہیون’ میں لکھا ہے کہ دن چڑھنے کے ساتھ سورج کی روشنی کھڑکیوں سے چھلکتی ہوئی اندر آتی ہے۔ عمارت کے اندر جیسی روشنی امڈ پڑتی ہے جس سے سنہرے موزیک چمکنے لگتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیواریں ہیں ہی نہیں اور ایک ایسا پراسرار ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو نا قابلِ بیان ہے۔
لیکن سنہ 558 کا زلزلہ وہ واحد خطرہ نہیں تھا جس سے آیا صوفیہ نے نمٹنا تھا۔ اس کی سلامتی کو دیگر خطرات بھی لاحق تھے۔ اصل گنبد کو سہارا دینے کے لیے اس کے ساتھ دو بڑے اور آدھےگنبد تعمیر کیے گئے۔
اس کے علاوہ ہر چیز کو جڑے رکھنے کے لیے آنے والے برسوں کے دوران کئی پشتے بھی بنائے گئے۔
مختلف نوعیت کے حملے
عمارتوں کو زلزلے، موسم اور گزرتے وقت جیسی قدرتی آفات کا ہی مقابلہ نہیں کرنا ہوتا ہے۔ چاہے ان کی بنیادیں اور ڈھانچے کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں یہ اکثر انسانوں کے جذبوں اور خواہشات کا نشانہ بن جاتی ہیں، خاص طور پر ایسی عمارتیں جو آیا صوفیہ کی طرح علامت بن جائیں۔
قسطنطنیہ نہ صرف دفاعی لحاظ سے اہم تھا بلکہ دنیا کے امیر اور اہم شہروں میں سے ایک تھا اور آیا صوفیہ اس کا روحانی مرکز یا دل تھا۔
صدیوں تک رومن کیتھولک دنیا اور بازنطینی سلطنت کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تنازعے رہے ہیں۔ آخر میں مغربی حملہ آوروں کے لیے قسطنطنیہ ایک ایسا شہر بن گیا جسے حاصل کرنے کی خواہش کو روکنا بہت مشکل تھا۔
سنہ 1204 میں جب یورپی حملہ آوروں نے شہر پر دھاوا بولا تو مسیحییت کے مشرقی اور مغُربی گروہوں کے درمیان جنگ نے شہر کو تاراج کر دیا۔
انتہائی اہم تاریخی نوادرات اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہو گئے جن میں حضرت عیسیٰ کے روضے کا پتھر، وہ نیزہ جو حضرت عیسیٰ کے جسم میں پیوست ہوا تھا۔ حضرت عیسی کا کفن، جو اصلی صلیب تھی اس کے کچھ ٹکڑے، سینٹ ٹامس کی مشتبہ انگلی اور کئی دیگر سینٹ کی ہڈیاں شامل تھیں۔
آیا صوفیہ ایک کیتھولک چرچ تو بہت کم عرصے کے لیے رہا لیکن حملہ آوروں کی کارروائیوں کے تنائج بہت دور رس اور گہرے تھے جو مشرق میں مسیحیت کی تباہی کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
ایک پناہ گاہ
سنہ 1452 تک بازنطینی یا مشرقی رومن سلطنت سکڑ کر صرف قسطنطنیہ تک رہ گئی تھی حالانکہ شہر کا دفاع مضبوط تھا لیکن یہ ایک ایسا مسیحی جزیرہ تھا جسے مسلم ترکوں کی سلطنتِ عثمانیہ نے گھیرا ہوا تھا۔
ترک رہنما سلطان محمد نے شہر کے دفاع کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور 22 اپریل سنہ 1453 کو ترک فوج قسطنطنیہ کا محصرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ پانچ ہزار بازنطینی فوج کو دو لاکھ عثمانی فوج کا سامنا تھا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور بیماروں نے آیا صوفیہ کے عظیم دروازوں کے پیچھے ہی پناہ لے رکھی تھی۔
محمت یا محمد فاتح نے 53 روز تک شہر پر مسلسل بمباری کی۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے جدید توپ خانہ تھا۔ ‘
مئی 29، سنہ 1453 کو بلآخر قسطنطنیہ کی مضبوط اور بلند دیواریں ٹوٹ گئیں۔ مغربی تاریخی روایت میں آتا ہے کہ حملہ آور فوج چرچ میں داخل ہو گئی اور وہاں موجود مسیحیوں کا ریپ اور قتل کیا گیا اور انھیں غلام بنا لیا گیا جبکہ اس کے برعکس مشرقی تاریخی روایت میں کہا گیا ہے کہ وہاں پناہ لینے والوں کو جان کی آمان دی گئی۔
جبکہ سلطان محمد نے خود بھی شہر کی تباہی پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘کیسا شاندار شہر لوٹ اور غارتگری کی نذر ہو گیا۔’ اور اس طرح سلطنتِ روم کی آخری شکل یعنی بازنطینی دنیا اپنے اختتام کو پہنچی۔
ایک نیا باب
قسطنطنیہ کے لیے وہ تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ شہر کا نیا نام استنبول ہو گیا جو ایک مسلم شہر اور سلطان محمد کی سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکوت بن چکا تھا۔
اس مرتبہ بازنطینی تعمیر کے لیے اس کا اپنا انداز بدلنا ہی اس کے بچاؤ کا طریقہ تھا۔ کتھیڈرل کی عمارت مسجد بن گئی۔ عمارت میں کسی بنیادی تبدیلی کے بجائے اس کے ہر کونے میں ایک مینار بنا دیا گیا۔
آیا صوفیہ کے اندر اللہ، پیغمبرِ اسلام اور ان کے نواسوں کے نام آویزاں کر دیے گئے۔ مسیحیت سے منسلک نقش و نگار کو پلاسٹر یا اسلامی تزئین و آرائش سے چھپا دیا گیا لیکن سب سے اہم تبدیلی محراب کی تعمیر تھی تا کہ مسلمان قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ سکیں۔
بیسویں صدی میں سینٹ صوفیہ کی شناخت ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوئی اور وہ ایک میوزیم بن گیا۔
وقت کے ساتھ استنبول، جسے مشرق اور مغرب دونوں نے کئی مرتبہ فتح، تباہ اور دوبارہ تعمیر کیا، ایک ایسے شہر میں تبدیل ہو گیا جہاں بھرپور ایشیائی اور یورپی اثر اور ضائقہ ملتا ہے، وہ شہر جہاں دنیا کی کئی ثقافتوں کا ملاپ اور ارتقائی عمل نظر آتا ہے۔
اور 900 سال تک ایک چرچ، 500 سال تک ایک مسجد، بہت تھوڑے سے عرصے کے لیے میوزیم اور اب ایک مرتبہ پھر مسجد بننے والی آیا صوفیہ کی عمارت اب بھی پوری مضبوطی اور شان سے وہیں کھڑی ہے۔