پاکستان میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے اعتبار سے سب سے متاثرہ صوبے پنجاب کے یومیہ اعداد و شمار کے مطابق، 24 جون کا دن صوبائی دارالحکومت لاہور کے لیے بہت کٹھن تھا۔
اُن 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 کے مرض نے لاہور شہر میں 55 جانیں نگل لیں جو کہ اب تک کا ریکارڈ ہے۔
24 جون سے قبل گذشتہ پانچ دنوں میں تقریباً 24 اموات یومیہ کے حساب سے 119 افراد لاہور شہر میں کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔
لیکن 25 جون کے صوبائی اعداد و شمار جب سامنے آئے، تو نظر آیا کہ حیران کن طور پر لاہور شہر میں ایک بھی موت نہیں ہوئی تھی۔
بی بی سی نے اس حوالے سے لاہور شہر میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے مختص کیے گئے سب سے بڑے میو ہسپتال سے رابطہ کیا۔
ہسپتال سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق 24 جون کو وہاں کوڈ 19 سے تین مصدقہ اور پانچ غیر مصدقہ اموات ہوئیں، 25 جون کو دو مصدقہ اور پانچ غیر مصدقہ، اور 26 جون کو ایک مصدقہ اور تین غیر مصدقہ اموات ہوئیں۔
تین دن کے اعداد و شمار جمع کرنے کی وجہ یہ تھی تاکہ اس خدشے کو خارج کیا جا سکے کہ گنتی کرنے کا وقت ختم ہونے کے بعد ہونے والی اموات کو اگلے دن کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہو۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب لاہور میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد میں اس طرح کا جھول دیکھا گیا تھا۔
صوبائی یومیہ اعداد و شمار کے مطابق مئی کی چار تاریخ کو لاہور میں 64 افراد کووڈ 19 سے ہلاک ہوئے تھے جبکہ پانچ مئی کو یہ تعداد گھٹ کر 60 ہو گئی۔ اسی طرح سات مئی کو 72 اموات تھیں جو آٹھ مئی کو کم ہو کر 65 اور نو مئی کو مزید کم ہو کر ایک بار پھر 64 ہو گئیں۔
اسی طرح راولپنڈی شہر کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو 25 جون سے 27 جون تک شہر میں ایک بھی کووڈ 19 سے متاثرہ شخص کی تشخیص نہیں ہوئی اور تین دن تک کُل تعداد 5722 تک محدود رہی۔
لیکن یہ ایک معمہ تھا کیونکہ لاہور کے بعد راولپنڈی پنجاب کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے اور وہاں سے کسی مریض کا سامنے نہ آنا ایک حیران کن امر تھا۔
جب راولپنڈی شہر کے حکام سے اس غرض سے اعداد و شمار لیے گئے تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ 24 جون سے 28 جون تک شہر میں تین ہزار سے زیادہ ٹیسٹس کیے گئے جس کے نتیجے میں 350 سے زیادہ متاثرہ افراد کی تشخیص ہوئی تھی، جو کہ روزانہ کے اعداد و شمار میں شامل نہیں تھے۔
اس کے علاوہ جب بی بی سی نے رواں اور گذشتہ سال جون کے مہینے میں لاہور اور کراچی میں مجموعی اموات کا موازنہ کیا تو ان میں بھی واضح فرق نظر آیا جس سے سوالات اٹھے کہ اوسط تعداد کے مقابلے میں اتنی زیادہ ہلاکتوں کی وجہ کیا ہے اور کیا وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا تو نہیں جا رہا۔
اسی طرح اپریل، مئی اور جون میں متعدد بار ایسا دیکھنے میں آیا کہ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق دن میں کیے گئے کُل ٹیسٹ کی تعداد کا اگر صوبوں میں کیے گئے ٹیسٹس سے موازنہ کیا جائے تو اس میں فرق نظر آتا ہے۔
عالمی ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے درست، قابل بھروسہ اور فوری ڈیٹا جمع کیے بغیر اس مرض کے پھیلاؤ کو سمجھنا، اور اس کے خطرے کو روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا بہت دشوار ہوگا۔
لیکن ان مندرجہ بالا مثالوں، اور بالخصوص جون کے مہینے میں پاکستان میں ٹیسٹنگ اور متاثرہ افراد، دونوں کی تعداد میں واضح اور اچانک کمی سامنے آنے کے بعد پاکستان میں کئی نے اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے۔
ٹیسٹنگ اور متاثرین کی گرتی ہوئی تعداد پر کئی ناقدین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان میں کووڈ 19 سے متعلق جمع کیے جانے والے اعداد و شمار میں کوئی کمی بیشی تو نہیں۔
کیا ان میں نظر آنے والا فرق واقعتاً درست ہیں اور حکومتی اقدامات کی کامیابی کا نتیجہ ہیں، یا اس کی وجہ بدانتظامی اور دیگر وجوہات ہیں۔
پاکستان میں جون کے مہینے میں کیا ہوا؟
پاکستان میں چار ماہ سے اپنے پنجے گاڑی ہوئی کورونا وائرس کی وبا کا نہ صرف سرعت سے پھیلاؤ جون کے پہلے تین ہفتوں میں دیکھا گیا، بلکہ اموات بھی یومیہ 100 کی اوسط سے ہوتی رہیں۔
لیکن اس کے بعد آخری دس دنوں میں اموات کی یومیہ اوسط گھٹ کر 90 ہوئی تاہم اس سے زیادہ غور طلب کمی ٹیسٹنگ کی تعداد میں ہوئی۔
واضح رہے کہ عید الفطر کے بعد مئی کے آخری چار دنوں میں 283 اموات ریکارڈ کی گئیں اور ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جون کے آغاز میں بھی جاری رہا۔
جون کے پہلے دس دنوں میں پاکستان میں 47 ہزار سے زیادہ نئے متاثرین کی شناخت ہوئی اور 813 افراد وائرس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
ایک قدرے خوش آئند بات یہ ہوئی کہ اس عرصے میں پاکستان یومیہ 20 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کا قابل ہو گیا۔
تین جون کو پاکستان نے پہلی بار دن میں 20 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کیے اور آٹھ جون کو پہلی بار ملک میں 24 گھنٹوں میں 100 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس عرصے میں پاکستان نے اوسطاً یومیہ تقریباً 22 ہزار ٹیسٹس کیے۔
سات جون کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تنبیہ دی گئی کہ دنیا کے وہ دس ممالک جہاں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے اور اسے اپنی ٹیسٹنگ میں نہ صرف مزید اضافہ کرنا ہوگا بلکہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی میں بھی سختی لانی ہوگی۔
اس تناظر میں مہینے کے اگلے دس دنوں میں، پاکستان میں کورونا وبا سے لڑنے والے مرکزی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے دعوے کے مطابق، پاکستان نے اپنی ٹیسٹنگ کی یومیہ صلاحیت کو 23 ہزار سے 32 ہزار، اور پھر50 ہزار تک پہنچا دیا جو کہ عالمی ادارہ صحت کا مطالبہ بھی تھا۔
لیکن یہ بات قابل ذکر رہی کہ جس قدر تیزی سے صلاحیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اس کے باوجود یومیہ کیے گئے ٹیسٹس کی تعداد 31 ہزار سے زیادہ نہ ہو سکی۔
جون کی 11 سے 20 تاریخ میں پاکستان میں کُل 57 ہزار سے زیادہ متاثرین تقریباً 5800 یومیہ کی اوسط سے سامنے آئے اور 115 کی یومیہ اوسط سے صرف ان دس دنوں میں 1145 اموات واقع ہوئیں۔
پاکستان نے اس عرصے میں یومیہ اموات (جون 19: 153)، یومیہ متاثرین (جون 13: 6825) اور یومیہ ٹیسٹنگ (جون 19: 31681) کے نئے ریکارڈ قائم کیے جو کہ تادم تحریر برقرار ہیں۔
پنجاب حکومت اور عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے جون کے مہینے میں متعدد بار اپنی تقاریر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک سخت لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تاہم این سی او سی کی جانب سے 15 جون کو ملک کے 20 شہروں کو کورونا وائرس کا ‘ہاٹ سپاٹ’ قرار دیا اور وہاں پر ‘سمارٹ لاک ڈاؤن’ کے نفاذ کا فوری حکام جاری کیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت نے چین میں نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن پر کی گئی تحقیق کے مطابق نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے قواعد پر سختی سے عمل کیا جائے تو دو سے تین ہفتوں کے بعد لاک ڈاؤن کے اثرات رونما ہوتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں علامات آنے میں ایک سے دو ہفتے کے قریب لگ سکتا ہے جبکہ انفیکشن کا اپنا دورانیہ بھی دو سے تین ہفتے کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اکثریت ایسے متاثرین کی ہوتی ہے جنھیں کسی قسم کی کوئی علامات نہیں ہیں۔
مگر پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر جون 21 سے 30 تک متاثرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی اور ان دس دنوں میں گذشتہ دس دنوں میں مقابلے میں 35 فیصد کمی کے ساتھ تقریباً 37 ہزار نئے متاثرین کی شناخت ہوئی۔
اموات میں بھی پچھلے دس دنوں کے مقابلے میں 21 فیصد کمی نظر آئی اور مہینے کے آخری دس دنوں میں 894 افراد ہلاک ہوئے۔
نئے متاثرین کی شناخت میں کمی کی ایک وجہ شاید ٹیسٹنگ کی تعداد کم ہونا تھی۔
جہاں پاکستان نے جون 11 سے 20 کے دوران یومیہ ٹیسٹنگ کا ریکارڈ قائم کیا اور روزانہ 28 سے 30 ہزار کے قریب ٹیسٹس کیے، جون کے آخری دس دنوں میں یومیہ 71 ہزار ٹیسٹس کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود کیے گئے ٹیسٹس کی تعداد 20 فیصد کم ہو کر یومیہ اوسط 23 ہزار ٹیسٹ تک گر گئی۔
پاکستان میں یومیہ ٹیسٹنگ صلاحیت اور یومیہ ٹیسٹنگ میں بتدریج کمی: حقائق کیا ہیں؟
یکم جولائی کو عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر تیڈروس ادہانوم نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس وبا کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
‘ڈھونڈیں، علیحدہ کریں، اور ہر کسی کو ٹیسٹ کریں، ہر متاثرہ شخص سے ملنے والے تمام افراد کے ٹیسٹ کریں اور قرنطینہ میں رکھیں۔’
انھوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ صرف اکیلے ٹیسٹ کرنے یا سماجی فاصلے یا ماسک پہننے سے کام نہیں چلے گے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام حفاظتی اقدمات ایک ساتھ کیے جائیں۔
‘صرف وہ ممالک کامیاب ہیں جنھوں نے یہ مربوط حکمت عملی اپنائی ہے اور اس کی مدد سے منتقلی اور اموات پر قابو پایا ہے۔’
دیگر ماہرین بھی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کو روکنے کے لیے ‘اسے خود جا کر شکار کرنا ہوگا، بجائے اس کا انتظار کرنے اور تعاقب کرنے کے ۔’
اس پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آیا پاکستان اس طرح کی جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے یا نہیں، اور کیا اسی بنا پر اعداد و شمار کی صداقت پر سوالات اٹھ رہے ہیں؟
ان خدشات کے بارے میں جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے کووڈ 19 ڈاکٹر فیصل سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ جون کے آخری دنوں میں ٹیسٹنگ کم ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ عمومی طور پر ٹیسٹنگ کرانے وہی لوگ آتے ہیں جن میں علامات ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ دوسرا طریقہ متاثرہ افراد سے رابطہ رکھنے والوں کی نگرانی کرنا اور ان کے ٹیسٹ کرنا۔
‘پہلی صورت میں تو ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ لوگوں نے خود ہی آنا ہوتا ہے لیکن ‘کونٹیکٹ ٹریسنگ’ سے شناخت کرنے کی صلاحیت میں فرق آ سکتا ہے۔ تاہم یہ حالات پر منحصر ہوتا ہے اور بہت ساری وجوہات کی بنا پر ایسا کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں یقینی طور پر بہتری لائی جا سکتی ہے۔’
ٹیسٹنگ کی تعداد میں کمی کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ حکومت نے نئی پالیسی کے تحت بیرون ملک سے آنے والے وہ مسافر جنھیں علامات نہیں ہیں، ان کے ٹیسٹ کرنا ختم کر دیے ہیں جس کی وجہ سے تعداد میں کمی آئی ہے۔
این سی او سی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک اعلی حکومتی عہدے دار نے ٹیسٹنگ کی کمی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں اور کیونکہ عوام میں شعور بھی آ گیا ہے تو وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
‘پاکستان کے مختلف حصوں میں صحت کا محکمہ عام عوام کا ٹیسٹ کرنے کے بجائے اب صرف ان مخصوص افراد پر توجہ دے رہا ہے جو کووڈ 19 کی جانچ کے لیے ٹیسٹنگ پر پورا اترتے ہیں یعنی ان میں واضح علامات ہوں اور اس وجہ سے بھی متاثرہ مریضوں اور ٹیسٹ کی تعداد میں کمی آئی ہے۔’
تاہم اسی عہدے دار نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک مسئلہ ابھی بھی یہ ہے کہ کچھ لوگ اس مرض کو بدنامی کا باعث سمجھتے ہوئے اسے چھپاتے ہیں اور اس کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور ٹیسٹس کرانے نہیں جاتے۔
اعداد و شمار کی صداقت پر بات کرتے ہوئے عہدے دار نے کہا کہ تمام صوبائی محکمہ صحت میں کووڈ 19 فوکل پرسن کو تعینات کیا گیا ہے جس کا کام ہی یقینی بنانا ہے کہ تمام معلومات درست طریقے سے اکھٹا ہو رہی ہوں، تاہم انھوں نے کہا کہ کبھی کبھار مختلف اوقات میں معلومات آنے کی وجہ سے ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔
صوبوں کا ٹیسٹنگ میں کمی اور اعداد و شمار کی صداقت کے حوالے سے موقف کیا ہے؟
پاکستان میں کووڈ 19 سے ہونے والی مجموعی اموات کے اعتبار سے اب تک سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب ہے ، جہاں 30 جون تک کل ہلاکتوں کی تعداد 1762 تھی (پاکستان کی کل ہلاکتوں کا 66 فیصد) اور صرف جون کے 30 دنوں میں 1265 افراد کی ہلاکت ہوئی۔
لیکن اگر پنجاب میں اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ جون کے پورے مہینے میں ان کا انفیکشن ریٹ یعنی ہر 100 ٹیسٹ میں مثبت مریض کی شناخت کی شرح 19 فیصد رہی اور شرح اموات 2.52 فیصد رہی۔
بات اگر صرف آخری دس دن کی ہو تو یہ شرح گر کر ساڑھے 12 فیصد پر آ جاتی ہے، اور شرح اموات بڑھ کر 3.77 فیصد تک چلی جاتی ہے۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ آخری دس دنوں میں پنجاب میں یومیہ 6000 ٹیسٹس کی اوسط سے صرف 23 ہزار ٹیسٹس ہوئے حالانکہ ان کے پاس صوبے میں کُل 35 لیبز میں 17 ہزار ٹیسٹس یومیہ کرنے کی صلاحیت ہے۔
صوبے کے محکمہ برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے سیکریٹری کیپٹن (ر) عثمان سے اس بابت جب بی بی سی نے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ پنجاب میں ٹیسٹ کرنے کے لیے مخصوص پالیسی ہے جن کے تحت ٹیسٹنگ ہوتی ہے اور جون کے مہینے میں وفاق کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلی اور چند دیگر وجوہات کی باعث ٹیسٹنگ میں کمی ہوئی ہے۔
‘جون کی 20 تاریخ کے بعد سے اب ہم بیرون ملک سے آنے والے صرف اُن افراد کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جو علامات ظاہر رہے ہوں۔ اس کے علاوہ ہم نے عالمی طریقہ کار اور اپنے ماہرین کی تجویز کی روشنی میں مریض کو صحتیاب قرار دینے کے لیے لگاتار دو منفی ٹیسٹ کی شرط ختم کر دی ہے تو اس سے بھی بڑا اثر پڑا ہے تعداد پر۔’
کیپٹن (ر) عثمان نے مزید بتایا کہ لوگوں میں بھی آگاہی بڑھی ہے جس کے بعد وہ افراد جنھیں زیادہ علامات نہیں ہیں وہ نہ ہسپتال آ رہے ہیں نہ ٹیسٹ کروا رہے ہیں اور کمی کا یہ رحجان نجی لیبز میں بھی نظر آ رہا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا ایسا کرنے سے اعداد و شمار کو مستند تسلیم کیا جا سکتا ہے، کپٹین (ر) عثمان کا کہنا تھا کہ اس وقت نظر یہ آ رہا ہے کہ زیادہ تر متاثرہ افراد اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ کر رہے ہیں اور ہستپالوں میں ایمرجنسی مریضوں کے داخلوں میں کمی ہوئی ہے تاہم مجموعی صورتحال کو جانچنے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
‘ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام مروجہ قواعد پر عمل کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر سمارٹ لاک ڈاؤن نے بھی اس سلسلے میں مدد کی ہو لیکن ہمارا کووڈ ورکنگ گروپ حتمی جائزہ لے کر کوئی مشاہدہ دے گا۔’
اموات اور نئے متاثرین کو اعداد و شمار میں شامل نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر کیپٹن (ر) عثمان کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات لیبز پر دباؤ کے باعث نتائج دیر سے آتے ہیں۔
‘جہاں تک اموات کی گنتی کی بات ہے، ڈاکٹر مریضوں کو ہسپتال آنے پر ان کی جانچ کرتے ہیں اور کسی شک کی صورت میں وہ ان کا ٹیسٹ کر سکتا ہے۔ ہم نجی اور سرکاری سیکٹر میں ہر موت کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں اور جن لوگ کا گھروں میں انتقال ہو رہا تو ان کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔’
دوسری جانب پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تعداد صوبہ سندھ میں ہے لیکن وہاں بھی ٹیسٹنگ اور نئے مریضوں کی تعداد میں کچھ حد تک کمی نظر آئی ہے۔
تاہم سندھ کو مختلف مواقعوں پر وفاق کی جانب سے ان کی کارکردگی پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کچھ ہفتے قبل این سی او سی اجلاس میں شامل نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے سربراہ شباہت علی شاہ کہہ چکے ہیں کہ صوبہ سندھ سے موصول ہونے والے اعداد و شمار میں فرق نظر آیا ہے اور انھیں اس سلسلے میں احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ معاملات ٹھیک کیے جائیں۔
جبکہ حال میں وفاقی وزیر اور این سی او سی کے سربراہی کرنے والے اسد عمر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ پورے پاکستان میں مجموعی صورتحال میں بہتری نظر آ رہی ہے لیکن ‘صرف صوبہ سندھ میں حالات تبدیل نہیں ہوئے اور بالخصوص کراچی میں متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔’
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پچیچو کا اس پر کہنا تھا کہ نہ صرف سندھ میں ‘کنٹیکٹ ٹریسنگ’ سب سے زیادہ ہو رہی ہے بلکہ سندھ میں صحتیاب ہونے والوں کی شرح 56 فیصد ہے جو کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو جون میں صوبہ کا مجموعی انفیکشن ریٹ 20.70 فیصد تھا اور شرح اموات 1.58 فیصد تھی۔ لیکن جون کے آخری دس دنوں میں انفیکشن ریٹ قدرے کم ہو کر 19.66 ہو گیا جبکہ شرح اموات معمولی اضافے کے ساتھ 1.86 فیصد تک پہنچ گئی۔
حالانکہ 21 جون کو سندھ میں ریکارڈ تعداد میں یومیہ ٹیسٹس (13890) کیے گئے تھے لیکن آخری دس دن میں یومیہ اوسط تقریباً نو ہزار ٹیسٹس کیے گئے جو کہ معمول سے کم تھے۔
اس کی وضاحت دیتے ہوئے ڈاکٹر عذرا نے کہا کہ صوبہ کی فیلڈ ٹیمز یعنی وہ عملہ جو لوگوں کے گھروں جا کر ٹیسٹ کرتا ہے، اس میں سے اکثریت خود کورونا وائرس سے متاثر ہو گئی تھی چناچہ ٹیسٹنگ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہوگی کہ پاکستان میں فی دس لاکھ آبادی کے اعتبار سے ملک میں سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنے والے علاقوں میں اسلام آباد بہت واضح فرق سے پہلے نمبر پر ہے جس کے بعد سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں جون کے آخر تک تقریباً 1000 ٹیسٹس فی دس لاکھ آبادی ہو رہے تھے جو کہ دیگر علاقوں سے کافی زیادہ ہے۔
ڈاکٹر عذرا نے بھی بتایا کہ وفاق کی جانب سے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی ٹیسٹنگ ختم کرنے کی پالیسی کے بعد تعداد میں کمی آئی ہے۔
‘ہماری ٹیمز ہر متاثرہ مریض سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ ان سے رابطے میں کون کون آیا تھا لیکن کئی بار لوگ بتانے سے انکار کر دیتے ہیں یا بھول جاتے ہیں کہ وہ کس سے ملے تھے۔ متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی صورت میں کنٹیکٹ ٹریسنگ میں بھی اضافہ ہوگا۔’
اعداد و شمار کے حوالے سے شکوک پر ڈاکٹر عذرا نے دعوی کیا کہ سندھ مکمل طور پر حقائق پر مبنی اور تصدیق شدہ اعداد و شمار جاری کرتا ہے بلکہ واحد صوبہ ہے جس نے مخصوص وقت متعین کیا ہے جس پر وہ گذشتہ 24 گھنٹوں کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
‘بالفرض کہ اگر ان میں کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی وجہ طے شدہ وقت سے ہٹ کر معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے اور ایسا ہونے کے خدشات بھی ہوتے ہیں کیونکہ وبا کے دوران منٹ منٹ پر معلومات بدل رہی ہوتی ہیں۔’
دوسری جانب، حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیر نگرانی دوسری صوبائی حکومت خیبر پختون خوا کے بارے میں وبا کے آغاز کے بعد تین مہینے تک یہ تنقید ہوتی رہی کہ ملک میں سب سے زیادہ شرح اموات رکھنے اور بڑھتے ہوئے انفیکشن ریٹ کے باوجود صوبے میں ٹیسٹنگ میں اضافہ نہ کرنا درست صورتحال چھپانے کے مترداف ہے۔
لیکن جون کے مہینے میں وہاں یومیہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت اور ٹیسٹنگ کی تعداد، دونوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور مئی کے مہینے میں اوسط 1300 یومیہ ٹیسٹ سے یہ تعداد بڑھ کر جون میں تقریباً 2900 ٹیسٹس یومیہ تک پہنچ گئی۔
صوبے میں جون کے اختتام تک فی دس لاکھ آبادی ٹیسٹ کرنے کی تعداد 4056 تھی جبکہ صرف جون کے مہینے میں ساڑھے 16 ہزار نئے متاثرین 18.98 فیصد کے انفیکشن ریٹ کی شرح سے سامنے آئے۔
خیبر پختون خوا میں جون کے 30 دنوں میں 478 اموات ہوئیں جس کی شرح اموات 2.88 فیصد بنتی ہے اور وہ مئی کے مقابلے میں واضح طور پر کم ہوئی ہے۔
جب بی بی سی نے خیبر پختون خوا کے میڈیا فوکل پرسن برائے کووڈ 19 زین رضا سے ٹیسٹنگ کی حکمت عملی پر بات کی تو انھوں نے بھی دیگر صوبوں کے موقف کے تقویت دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی پالیسی میں تبدیلی کے بعد بیرون ملک سے آنے والوں کی ٹیسٹنگ نہ کرنے سے تعداد پر کچھ اثر پڑا ہے۔
‘این سی او سی کی جانب سے بیرون ملک سے لوٹنے والوں کا ٹیسٹ نہ کرنے کے فیصلے پر اختلافات ہوئے تھے اور کہا گیا کہ یہ درست فیصلہ نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ کیونکہ مقامی منتقلی تقریباً 98 فیصد ہے تو تمام مسافروں کا ٹیسٹ کرنا ضروری نہیں ہے۔’
اس کے علاوہ زین رضا نے خیبر پختون خوا میں نافذ ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن کی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے بھی ٹیسٹ کرنے میں کچھ کمی ہوئی ہے۔
‘لاک ڈاؤن کرنا ایک اچھی اور کارآمد حکمت عملی ہے تاہم اس کی وجہ سے جو دیگر اثرات ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ تھا کہ لوگوں کے پاس باہر نکلنے کے مواقع کم تھے کہ وہ اپنے آپ کو ٹیسٹ کرا سکیں اور یہ بھی ٹیسٹ کم ہونے کی وجہ بنی۔’
زین رضا کے مطابق بدلتے موسم اور تیز گرمی کے باعث صوبے کی ٹیسٹ کرنے والی ریپڈ ریسپانس ٹیم کو بھی مشکلات کا سامنا تھا اور وہ بھاری حفاظتی لباس پہنتے ہیں تو اس گرمی میں ان کی کارکردگی اتنی موثر نہیں رہی۔
‘یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ ماہ کے مقابلے میں جون میں یقیناً ہسپتالوں میں اور ٹیسٹنگ لیبز پر کم دباؤ نظر آیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے، اور کیا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے، اس بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔’
‘ہم نے ابھی تک پاکستان میں وبا کا عروج نہیں دیکھا ہے’
برطانیہ کے ادارہ شماریات نے اپنی تازہ ترین تحقیق میں بتایا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 78 فیصد افراد وہ ہیں جن میں کوئی علامات سامنے نہیں آئیں تھیں۔
ایسا ہی مشاہدہ ویتنام میں کیا گیا جسے دنیا میں کورونا وائرس سے نپٹنے والے کامیاب ترین ممالک کی فہرست میں تصور کیا جاتا ہے۔
چین کے ساتھ طویل ترین سرحد ہونے کے باوجود ملک میں 350 سے بھی کم مثبت متاثرین سامنے آئے ہیں اور سب سے خاص بات کہ وہاں اب تک اس مرض سے ایک بھی موت نہیں ہوئی ہے۔
حال ہیں ویتنام کی کارکردگی پر لکھے گئے ایک مقالے میں بتایا گیا کہ وہاں حکام نے ‘ٹریکنگ’ اور ‘ٹریسنگ’ پر بالخصوص کام کیا اور ہر اس شخص کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا کسی کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے شخص سے رابطہ ہوا تھا، چاہے ان میں علامت ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔
اس مقالے کے مطابق ویتنام میں 43 فیصد مثبت متاثرین وہ تھے جنھیں کوئی علامات نظر نہیں آئیں تھیں مگر ان کی فوری تشخیص ملک میں وبا کو ابتدائی مرحلے میں روکنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ٹیسٹنگ کرانے کے لیے صرف اُن افراد پر توجہ دینا جو علامات ظاہر کر رہے ہوں، شاید درست حکمت عملی نہ ہو۔
دوسری جانب پاکستان میں وبا کے پھیلاؤ کو دیکھیں تو اس بات میں قطعی شک نہیں ہے کہ کم ٹیسٹس ہونے کے باوجود جون کے آخری دس دن کے بعد سے یقینی طور پر وائرس کے پھیلاؤ میں کچھ کمی دیکھی گئی ہے۔
اسلام آباد میں تو بالخصوص اپریل سے لے کر اب تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں کی انتظامیہ نے بہت موثر طریقے سے وبا کا مقابلہ کیا اور زیادہ ٹیسٹنگ کے باوجود انفیکشن ریٹ کو نو فیصد تک لے آئے۔
لیکن ملک کے باقی حصوں کو دیکھتے ہوئے سوال پھر بھی یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اور صرف علامات ظاہر کرنے والوں کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ درست ہے؟
اس حوالے سے جب بی بی سی نے کراچی کے آغا خان یونی ورسٹی میڈیکل کالج کے ڈین پروفیسر عادل حیدر سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہوگی کہ عید الفطر کا موقع پاکستان میں ‘سپر سپریڈر’ کا باعث بنا تھا یعنی اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو انفیکشن ہوا۔
‘اب جو ہم نئے متاثرین کی تعداد میں کچھ کمی دیکھ رہے ہیں، پہلے تو ہمیں لازماً تفیصل سے یہ جانچنا ہوگا کہ تعداد میں یہ کمی مصدقہ ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے بھی، چاہے وہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہو یا لوگوں میں آگاہی آنے، یا دونوں باتیں ساتھ ہونے سے، میں پھر بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے پاکستان میں وبا کا عروج دیکھ لیا ہے۔’
پروفیسر عادل نے ایک بین الاقوامی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنے حفاظتی اقدامات پر پوری طرح توجہ دینی ہوگی تاکہ بقر عید کے موقع پر دوبارہ سے وبا کا پھیلاؤ نہ ہو۔
‘ہم ابھی بھی مشکل سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر پاکستان میں موجودہ حفاظتی اقدامات کی موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے اور کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی، تو نومبر تک ہمارے ملک میں 20 ہزار اموات ہونے کا خدشہ ہے لیکن اگر ہم نے ذرا سی بھی کوتاہی کی اور غفلت کا مظاہرہ کیا، تو معاملات کہیں زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔’