کرکٹ میں سلیجنگ: کھیل کے میدان میں فقرے بازی کے چند دلچسپ واقعات
کرکٹ میں فقرے بازی یا سلیجنگ سے حریف کھلاڑی کی توجہ ہٹانا کوئی نئی اور حیران کن بات نہیں۔
یہ عمل اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود کرکٹ کا کھیل۔ ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس اور ان کے بھائی ای ایم گریس کے بارے میں کتابوں میں درج ہے کہ یہ دونوں بہت زیادہ شور شرابا کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ حریف کھلاڑیوں پر طنزیہ فقرے کستے تھے۔
سلیجنگ کی اصطلاح پہلی بار ستر کی دہائی میں آسٹریلیا میں سننے میں آئی۔ دراصل یہ آسٹریلوی کرکٹ ہی ہے جس میں سب سے زیادہ سلیجنگ کے واقعات نظر آتے ہیں۔
اسے آسٹریلوی کرکٹرز کا ضرورت سے زیادہ جارحانہ مزاج کہیں کہ وہ ہمیشہ میدان میں حریف کھلاڑیوں کو مشتعل کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
ایئن چیپل ہوں یا رِکی پونٹنگ، مارک ٹیلر ہوں یا مائیکل کلارک، یہ سب سلیجنگ کو غلط نہیں سمجھتے۔ آسٹریلوی کوچ جسٹن لینگر کا خیال ہے کہ سلیجنگ کے بغیر کرکٹ بے رنگ ہوجائے گی۔
دنیا کے کئی بڑے کرکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ حریف کھلاڑی پر فقرے بازی اگر اخلاقی حد میں ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن کسی کی فیملی یا رنگ و نسل سے متعلق غیر اخلاقی زبان اور اشاروں کا استعمال کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔
انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی کا یہ مؤقف رہا ہے کہ سٹمپ مائیک کھلے رکھے جائیں تاکہ ایسے کھلاڑیوں کا پتا چل سکے جو غیراخلاقی یا نسلی تعصب پر مبنی فقرے کستے ہیں۔ معین علی کو 2015 کی ایشیز سیریز کے دوران ایک آسٹریلوی کرکٹر نے ’اسامہ بن لادن‘ کہہ کر پکارا تھا۔
2008 میں انڈین ٹیم کے دورۂ آسٹریلیا میں آف سپنر ہربھجن سنگھ پر الزام لگا تھا کہ انھوں نے آسٹریلوی کھلاڑی اینڈریو سائمنڈز کے بارے میں نسلی تعصب پر مبنی فقرہ کسا تھا۔
ابتدا میں آئی سی سی میچ ریفری مائیک پراکٹر نے انھیں قصور وار قرار دیا تھا لیکن بعد میں عدم ثبوت کی بنا پر ہربھجن سنگھ کو اس الزام سے بری کردیا گیا تھا۔
گذشتہ سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ جنوبی افریقہ میں کپتان سرفراز احمد کا جنوبی افریقی بلے باز اینڈیل پہلوک وایو کے بارے میں کہا گیا جملہ نسلی تعصب کے زمرے میں آگیا۔
اگرچہ سرفراز احمد نے اس پر باقاعدہ معافی بھی مانگ لی اور جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے یہ معافی قبول بھی کرلی لیکن اس کے باوجود آئی سی سی نے ان پر چار میچوں کی پابندی عائد کردی۔
بین الاقوامی کرکٹ فقرے بازی کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات میں کہیں طنز و مزاح کی جھلک نظر آتی ہے اور کہیں اخلاقی حد کو پار کرنے والا لہجہ موجود ہوتا ہے۔
جاوید میانداد کی شرارتیں
جاوید میانداد ذہین، شرارتی اور باتونی کرکٹر تھے جو چھیڑ چھاڑ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
کاؤنٹی کرکٹ میں ان کے کپتان ٹونی گریگ نے انھیں بلے باز کے قریب فیلڈنگ کے لیے اس لیے کھڑا کرنا شروع کیا تاکہ بلے باز پر دباؤ برقرار رہے۔
لیکن جاوید میانداد نے کلوز فیلڈنگ میں نہ صرف حیران کن کیچ لینا شروع کر دیے بلکہ وہ مسلسل باتیں کر کے بلے بازوں کی توجہ ہٹانے پر بھی لگ رہتے۔
سنہ 1978 میں جب انڈین ٹیم پاکستان آئی تو جاوید میانداد اور سنیل گاوسکر کے درمیان کافی نوک جھونک رہی۔ کراچی ٹیسٹ کی دوسری اننگز کے دوران اپنی پہلی گیند کھیلتے ہوئے سنیل گاوسکر کی ایج لگی لیکن وہ کریز پر کھڑے رہے اور امپائر نے آؤٹ نہیں دیا۔ اس بات کا اعتراف گاوسکر خود بھی کر چکے ہیں۔
گاوسکر نے دونوں اننگز میں سنچریاں بنا ڈالیں تو میانداد نے طنزیہ جملوں کی بارش کردی اور کہنے لگے ′بہت بڑے بلے باز بنتے ہو لیکن آؤٹ ہونے کے باوجود کریز نہیں چھوڑتے۔′
جاوید میانداد نے 1982 میں انڈیا کے خلاف ہوم سیریز کے دوران انڈین لیفٹ آرم سپنر دلیپ دوشی کو ہدف بنائے رکھا تھا اور ان کی ہر گیند پر وہ فقرے کسنے سے باز نہیں آتے تھے۔ خاموش طبیعت دلیپ دوشی نے کپتان سنیل گاوسکر سے میانداد کی شکایت بھی کی۔
سنیل گاوسکر آج بھی کوئی ٹی وی شو ہو یا نجی محفل جاوید میانداد کی بذلہ سنجی کے یہ واقعات انہی کے لہجے میں سنا کر سب کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے مابین ایک میچ کے دوران جاوید میانداد وکٹ کیپر کرن مورے کی جانب سے مسلسل جملے بازی اور اپیل کرنے سے خاصے پریشان تھے۔ انھوں نے امپائر سے شکایت بھی کی۔
اس دوران انھوں نے یہ بھی کہا ’انسان کھیل رہے ہیں جانور نہیں۔′
میانداد کو نہ جانے کیا سوجھی کہ تیزی سے رن لینے کے بعد انھوں نے اپنے بلے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر نیچے کودنا شروع کردیا۔ ایسا کر کے وہ کرن مورے کی مسلسل اپیلوں کے انداز میں ان کی نقل کرنے لگے۔
′ٹکٹ پلیز′
سنہ 1981 میں پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کے دوران آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی کا جاوید میانداد کو لات مارنا اور میانداد کا بلا لہراتے ہوئے للی کی طرف لپکنا سب کو یاد ہے لیکن ایک اور آسٹریلوی فاسٹ بولر مرو ہیوز سے میانداد کی زبانی جنگ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
میانداد نے بیٹنگ کے دوران اپنی عادت کے مطابق مرو ہیوز کو یہ کہہ کر چھیڑدیا ’تم اتنے موٹے ہو تمھیں کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے۔ تم تو بس کنڈکٹر معلوم ہوتے ہو۔′
مرو ہیوز اپنے بھاری بھرکم جسم اور گھنی مونچھوں کی وجہ سے خطرناک ریسلر معلوم ہوتے تھے۔
انھوں نے میانداد کو فوراً ہی آؤٹ کردیا۔
جب میانداد ان کے قریب سے گزرتے ہوئے پویلین کی طرف جارہے تھے تو مرو ہیوز نے بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ′ٹکٹ پلیز۔′
گلین میگرا کو ہر بار خفت کا سامنا
آسٹریلوی فاسٹ بولر گلین میگرا نے جب بھی بلے باز پر فقرے کسے انھیں جواب میں وہ کچھ سننا پڑا جو کوئی بھی سننا پسند نہ کرے۔
گلین میگرا، جنھیں اپنی دبلی پتلی ٹانگوں کی وجہ سے آسٹریلیا کی ٹیم میں پیجن یعنی کبوتر کے نام سے پکارا جاتا تھا، نے زمبابوے کے فاسٹ بولر ایڈو برینڈس کو بولنگ کے دوران فقرہ کسا ′تم اتنے موٹے کیوں ہو؟′
برینڈس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ′اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری بیگم مجھے بسکٹ دیتی ہیں۔′
یہ سننا تھا کہ وکٹ کیپر اور سلپ میں کھڑے آسٹریلوی کھلاڑی چہروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی ہنسی نہ روک سکے۔
گلین میگرا نے ویسٹ انڈین کے بلے باز برائن لارا کے بارے میں غیراخلاقی ریمارکس دیے جس پر رام نریش سروان چپ نہ رہ سکے اور ایسی سخت بات کہہ دی کہ میگرا طیش میں آگئے۔
میگرا کہنے لگے ′اگر تم نے میری بیوی کا ذکر کیا تو میں تمہارا گلا دبا دوں گا۔′
’یہ ٹی پارٹی نہیں ہے‘
سنہ 1989 کی ایشیز سیریز کے دوران انگلینڈ کے بلے باز رابن سمتھ نے بیٹنگ کے دوران پانی مانگا تو آسٹریلوی کرکٹر ایلن بورڈر نے طنزیہ انداز میں ان سے کہا ′تم کیا سمجھتے ہو یہ ٹی پارٹی ہے؟
’تمھیں پانی کا گلاس نہیں مل سکتا۔ تمھیں بھی ہماری طرح انتظار کرنا ہوگا۔′
’بچوں کو کیوں مار رہے ہو؟‘
سنہ 1989 میں پاکستان کے دورے میں اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کرنے والے سچن تندولکر پر ایک موقع پر گراؤنڈ کی جانب سے آوازیں کسی گئیں ′دودھ پیتا بچہ گھر جاکر دودھ پی۔′
اس ایک روزہ میچ میں سچن تندولکر نے مشتاق احمد کے ایک ہی اوور میں دو چھکے لگائے تو عبدالقادر نے سچن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ′بچوں کو کیوں مار رہے ہو؟ ہمیں بھی مار کر دکھاؤ۔′
سچن نے جواب میں کچھ نہ کہا لیکن عبدالقادر جب بولنگ کے لیے آئے تو اس اوور میں انھوں نے ایک، دو نہیں بلکہ چار چھکے اور ایک چوکا لگا کر ورلڈ کلاس لیگ سپنر کو خاموش کرا دیا۔
عامر سہیل نے جذبات میں آ کر اپنی وکٹ گنوا دی
سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں عامر سہیل اور سعید انور کی عمدہ بیٹنگ نے پاکستانی ٹیم کی جیت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
لیکن عامر سہیل کا جذباتی ہونا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
وینکٹش پرساد کی گیند پر چوکا لگانے کے بعد انھوں نے بولر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے انگلی اور بلے سے اشارہ کیا کہ دیکھو میں نے کہاں چوکا لگایا ہے۔
پرساد نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس کا اصل جواب انھوں نے اگلی ہی گیند پر عامر سہیل کو بولڈ کر کے دے دیا۔
اس اہم میچ میں عامر سہیل کا جذباتی پن پاکستانی ٹیم کے لیے مہنگا ثابت ہوا۔