پاکستان

قومی اسمبلی میں آج انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 پر بحث ہوگی

Share

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں آج بحث کا آغاز حکومت کی نجکاری پالیسی سے ہوگا جس کے بعد بین الاقوامی وعدوں کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بعض تقاضوں کی تکمیل کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے لیے دو اہم بلوں کو اٹھایا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کے لیے جاری کردہ 22 نکاتی ایجنڈے کے مطابق وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کی دفعہ 2، 6، 9 اے اور 11 او میں ترمیم اور ایک نئے سیکشن 11 او او او کے اضافے کے لیے دونوں بلوں کو پیش کریں گے۔

انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 کے عنوان سے دونوں بلوں کو فروری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منظور کیا تھا۔

خٰیال رہے کہ حکومت نے ایک بل میں پہلی بار ‘معاشی دہشت گردی’ کی وضاحت کی ہے۔‎

اس بل میں ‘معاشی دہشت گردی’ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘کسی بھی غیر رسمی چینل جیسے ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے پاکستان سے بیرون ملک مقیم رقم یا فنڈز کی منتقلی، جہاں کسی ایک ایجنٹ کے ذریعہ ایک ماہ کی مدت میں 5 کروڑ کے برابر یا اس سے زائد ایک یا اس سے زیادہ ٹرانزیکشنز کی گئی ہوں’۔

یہ بل ایف اے ٹی ایف کی بعض ضروریات کو پورا کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1267 اور 1373 کے مطابق پیش متعارف کروایا گیا تھا۔

ان میں سے ایک بل میں غیر رسمی چینلز کے ذریعہ رقم کی منتقلی کے کیسز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے اطلاق میں اضافے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات وسیع کیے گئے ہیں کہ وہ انکوائری کی مدت کے دوران ملزم کو تین ماہ تک قید میں رکھ سکتے ہیں اور مشتبہ احاطے میں سرچ آپریشن جاری رکھ سکتے ہیں، اس بل پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے دو ارکان عبدالقادر پٹیل اور آغا رفیع اللہ نے اختلافی نوٹ جمع کرایا ہے۔

بل کے ذریعے حکومت اے ٹی اے میں ‘تحقیقات کے لیے احتیاطی حراست’ کے عنوان سے ایک نیا سیکشن 9 اے داخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بل ‘وفاقی اور صوبائی حکام کو اختیار دیتا ہے کہ وہ مشتبہ شخص کو تفتیش کے لیے حراست میں لیں اور حراست کے احکامات کے خلاف اس شخص کی درخواستوں کا جائزہ لیں’۔

ساتھ ہی اس میں کہا گیا ہے کہ ‘(1) کوئی بھی شخص جس کے خلاف یہ یقین کرنے کی معقول بنیادیں ہیں کہ وہ اس قانون کے تحت کسی جرم سے منسلک ہے، اسے تین ماہ سے زیادہ کی مدت تک تفتیش کے لیے حراست میں لیا جاسکتا ہے، (2) ذیلی دفعہ (1) کے تحت نظر بندی کسی مخصوص یا عام حکم کے ذریعے سیکریٹری، وزارت داخلہ یا صوبے کے ہوم سیکریٹری کے ذریعہ منظور کی جاسکتی ہے، یا جہاں سیکشن 4 کی دفعات مطلوب ہوں وہاں مسلح افواج یا سول مسلح افواج، جیسا معاملہ ہو، وہاں کمیٹی کی سفارش پر سکریٹری داخلہ کے ذریعہ مطلع کیا جائے گا’۔

اس حراست کی مدت میں آئین کے آرٹیکل 10 کی دفعات کے تحت مزید تین ماہ کی توسیع بھی دی جاسکتی ہے۔

بل میں کہا گیا کہ ‘انکوائری کسی پولیس افسر کے ذریعہ کی جاسکتی ہے جو پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے نیچے نہیں ہو یا جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے توسط سے حکومت کو مطلع کیا جائے جس میں پولیس افسر بھی شامل ہو جو پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کے برابر یا اس سے اوپر کا ہو، اس کے علاوہ دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کے افسران شامل ہوں’۔

‘پولیس آفیسر یا جے آئی ٹی، جیسا بھی معاملہ ہو،ان کے پاس ایسے اختیارات ہوں گے جو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1974 (1975 کے آٹھویں) کے سیکشن 5 میں دیے گئے ہیں، بشرط کہ جہاں مسلح افواد یا سول آرمڈ فورسز نے ذیلی سیکشن (2) کے تحت حراست کا حکم جاری کیا ہو، انکوائری جے آئی ٹی کرے گی جس میں آرمڈ فورسز، سول آرمڈ فورسز اور جیسا بھی معاملہ ہو، انٹیلیجنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں بشمول پولیس افسر جس کا عہدہ سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کم نہ ہو وہ شامل ہوگا۔

ایک اور ذیلی سیکشن کا کہنا تھا کہ ‘حراست میں موجود شخص کو عدالت کے پریزائیڈنگ آفیسر کے سامنے یا اس کی عدم موجودگی میں شریعت نظام عدل ریگولیشن 2009، کے تحت مقرر کردہ ضلعی اور سیشن جج یا مجسٹریٹ کے سامنے جس طرح کا کیس ہو (اس کے مطابق) حراست میں لینے کے 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں ان کیمرہ پیش کیا جائے گا اور اس کی حراست میں لینے کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا جائے گا’۔

ذیلی دفعہ 6 کے مطابق ‘جیسا معاملہ ہو، پولیس آفیسر یا جے آئی ٹی جو دفعہ (4) کے تحت انکوائری کررہے ہوں، ان کو شخص کی تلاش یا گرفتاری اور جائیداد اور جرم کے حوالے سے دیگر متعلقہ مواد کو ضبط کرنے سے متعلق تمام اختیارات حاصل ہوں گے اور ان کے پاس وہ تمام اختیارات ہوں گے جو اس قانون یا ضابطہ یا کسی دوسرے قانون کے تحت ہونے والے جرائم کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک پولیس افسر کے پاس ہوتے ہیں۔

تاہم حراست میں لیے گئے شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ‘ اگر وہ سیکریٹری داخلہ کے حکم سے حراست میں لیا گیا ہے تو وہ وزیر داخلہ سے اپیل کرے’ اور اگر اسے صوبے کے ہوم سیکریٹری کے حکم سے حراست میں لیا گیا ہے تو وہ سیکریٹری داخلہ سے اپیل کرسکتا ہے۔

اگر سیکرٹری داخلہ کی جانب سے حکم جاری کیا گیا ہے تو پھر ذیلی سیکشن 2 کے تحت کمیٹی میں سیکریٹری داخلہ خود چیئرمیں اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، کسٹمز کے اراکین، ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے ڈی جی، ڈی جی انسداد منشیات فورس اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)، انٹلیجنس بیورو (آئی بی) فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے نمائندے بطور ممبر شامل ہوں گے۔

مزید یہ کہ اگر کسی صوبے کے ہوم سیکریٹری کے جانب سے یہ حکم جاری کیا گیا ہے تو کمیٹی میں سیکریٹری داخلہ بطور چیئرمین اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (اسپیشل برانچ)، ایف آئی اے کے زونل ڈائریکٹر، کلکٹر کسٹم (روک تھام)، محکمہ انسداد دہشت گردی، آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر بطور ممبر شامل ہوں گے۔

اختلافی نوٹ

اپنے اختلافی نوٹ میں پیپلز پارٹی کے اراکین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ‘اگر بل اس شکل میں منظور ہوا تو یہ صرف بہتر کاموں کے لیے استعمال نہیں ہوگا بلکہ اسے ہدف بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے’۔

پیپلز پارٹی کے اراکین کا موقف ہے کہ اس بل کی شق صرف ان ٹرانزیکشنز پر ہی لاگو ہوگی جو کسی بھی غیر رسمی چینل کے ذریعہ کی جاتی ہیں کیونکہ بل میں دیے گئے ‘ایجنٹ’ کی تعریف منتقلی قانونی غیر رسمی چینل بھی شامل ہیں جیسے ہنڈی یا حوالہ۔

انہوں نے کہا کہ ‘بل میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ بیرون ملک دہشت گردی کی کسی بھی سرگرمی میں اس طرح کی لین دین کا استعمال کیا گیا ہے یا کیا جاسکتا ہے’۔

پیپلز پارٹی کے اراکین کا خیال ہے کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ اور صوبائی ہوم سیکریٹریوں کو مطلق اختیارات دیئے جارہے ہیں کہ کسی کو بھی 90 دن کے لیے حراست میں لیا جاسکے، یہ بہت طویل عرصہ ہے جب کہ قتل کے الزام میں ایک شخص کی زیادہ سے زیادہ حراست 14 دن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘بڑے پیمانے پر لوگ پہلے ہی قومی احتساب بیورو کے تحت متعدد افراد کی غیرقانونی تحویل دیکھ چکے ہیں، اس قانون کا تقاضا ہے کہ حراست کی 24 گھنٹوں کے اندر بنیاد فراہم کی جائے اور اسے فوری وکیل کی خدمات پیش کرنے کی اجازت ہو، مزید یہ کہ بل میں اپیل کے فیصلے کے لیے وقت کی حد کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، اس کی وضاحت کی جانی چاہیے’۔

بلوں میں سزا میں اضافے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپے سے بڑھا کر 2 کروڑ 50 لاکھ کرنا، اس کے علاوہ غیر قانونی رقم کی منتقلی کے ذریعے دہشت گردی کی مالی اعانت میں ملوث پائے جانے والوں کے لیے 10 سال قید کی سزا متعارف کرایا جانا بھی شامل ہے۔

سیکشن 2 اور 11 او میں ترمیم اور نئی ذیلی دفعہ 11 او او او میں ترمیم کے بل سے منسلک مقاصد اور وجوہات سے متعلق بیان میں کہا گیا کہ ‘اے ٹی اے 1997 میں یو این ایس سی کی قرارداد 1267 اور 1373 کے نفاذ کے سلسلے میں کچھ دفعات کا فقدان ہے’۔

واضح رہے کہ قرارداد 1267 کے ذریعے، اقوام متحدہ کے رکن ممالک’اثاثے منجمد کرنے کے اقدامات‘ (ہدفِ مالی پابندیاں)، اسلحے کی پابندی اور پابندیوں کی فہرست میں شامل افراد پر سفری پابندی کا نفاذ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ قرارداد 1373 کے تحت رکن ممالک کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر اپنے مقامی قوانین کے ذریعے دہشت گردی کے لیے مالی اعانت کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘مذکورہ بالا ذمہ داری اے ٹی اے 1997 کے ذریعے پاکستان میں نافذ کی گئی ہے، مذکورہ ایکٹ میں پہلے سے فراہم کی جانے والی سزائیں سیکشن 11 او میں اثاثوں کی قرقی کی فراہمی کی خلاف ورزی پر قابل قبول نہیں ہیں اور جرمانے کی فراہم کردہ رقم ناکافی ہے’۔