’’بھٹو صاحب کی سادہ اکثریت یقینی تھی‘‘…!
”1977کے عام انتخابات میں دھاندلی کے بغیر بھی بھٹو صاحب کی سادہ اکثریت یقینی تھی(دھاندلی کا منصوبہ تو دوتہائی اکثریت کے لیے بنایا گیا کہ آئین میں مزید من مانی ترامیم کی جاسکیں)‘‘۔ دھاندلی کے بغیر بھی سادہ اکثریت والی بات تو اب ہمارے ”دائیں بازو‘‘ والے بعض دانشور بھی کرنے لگے ہیں ۔ یہ مفروضہ ہے یا دعویٰ؟ لیکن اس کے حق میں کوئی دلیل بھی تو ہو۔ 1970کے عام انتخابات متحدہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات تھے‘ جن میں ملک کے دونوں حصوں‘ مشرقی اور مغربی پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد پانچ کروڑ انہتر لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو تھی’ ان میں تین کروڑبارہ لاکھ گیارہ ہزاردوسوبیس مشرقی پاکستان میں اور دوکروڑ ستاون لاکھ تیس ہزار دوسواسی مغربی پاکستان میں تھے۔ ٹرن آئوٹ تریسٹھ فیصد رہا۔
تین سو کی اسمبلی میں ایک سو باسٹھ سیٹیں مشرقی پاکستان میں تھیں‘ جن مین سے ایک سوساٹھ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ جیت گئی۔ اس نے اِدھر مغربی پاکستان میں بھی اپنے چند امید وار کھڑے کئے تھے۔ان میں لاہور سے ملک حامد سرفراز بھی تھے جو شہید سہروردی کے دور سے عوامی لیگ کے ممتاز رہنمائوں میں شمارہوتے تھے۔جناب مجید نظامی نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے نہ صرف اپنا ووٹ ملک حامد سرفراز کو دیا بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس کی ترغیب دی کہ اس کے نتیجے میں شیخ مجیب کو لاہور سے اچھا پیغام جائے گا۔ شیخ مجیب مغربی پاکستان کے بعض سیاسی رہنمائوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے‘ ان میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور پیر صاحب پگارا بھی تھے۔ پشاور کے ماسٹرخان گل عوامی لیگ کے نائب صدر تھے۔ شیخ مجیب الیکشن مہم کے دوران لاہور اور کراچی بھی آئے۔ لاہور کے گول باغ میں ان کا انتخابی جلسہ بدقسمتی سے ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔ لاہور میں شیخ کا قیام معروف قانون دان برکت علی سلیمی کے ہاں تھا۔ وہ عوامی لیگ کے سینئر نائب صدر تھے۔ جناب ضیاء شاہد کی کتاب ”باتیں سیاستدانوں کی‘‘ میں شیح مجیب کا انٹرویو بھی ہے‘ جس میں شیخ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہہ رہے تھے: ”ہمارا نیا خون ‘ یونیورسٹیوں اور کالجوں کا نوجوان اب مزید زیادتی برداشت نہیں کرسکتا۔دیکھو مسٹر !تم جو بھی کہو اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان شاید میں آخری رشتہ ہوں گا۔ میرے بعد آپ کو ڈھاکہ سے یہاں آنے والا کوئی دوست نہیں ملے گا۔ آپ لوگ ہمیں سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم لکھ سکتے ہو تو لکھو‘ بتا سکتے ہو تو بتائو‘ اب سازشیں کی گئیں تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اگر زیادتی کی گئی تو آپ ڈھاکہ سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ وقت تیزی سے گزررہا ہے‘ ہمیں دھکیل کر دیوار سے لگادیا گیا تو پھر میں بھی کچھ نہ کرسکوں گا اور سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا‘‘۔
بھٹو صاحب کا مشرقی پاکستان میں شاید ایک بھی امید وار نہیں تھا۔ ان کا سارا زور پنجاب اور سندھ پر تھا۔ مغربی پاکستان کی 138سیٹوں میں سے 81پیپلز پارٹی جیت گئی۔62پنجاب سے‘18سندھ سے اور ایک صوبہ سرحد سے‘ صوبہ سرحد میں خود بھٹو صاحب ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ مغربی پاکستان سے 57سیٹیں مخالف امید واروں نے جیت لیں۔متحدہ پاکستان کے حساب سے پیپلز پارٹی کے ووٹ18.6فیصد تھے جبکہ مغربی پاکستان میں ان کی اوسط تقریباً 38فیصد تھی۔ باقی ووٹ مخالف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ مختلف مذہبی اور چھوٹی بڑی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ تین تو مسلم لیگیں ہی تھیں ‘ جو باہم برسرپیکار تھیں۔
1970میں بھٹو صاحب کے ووٹ 38فیصد اور ان کے مخالفین کے 62فیصد تھے‘ تو 1977میں بھٹو صاحب کے لیے (دھاندلی کے بغیر بھی) سادہ اکثریت کس طرح یقینی تھی؟ جبکہ ان سات برسوں میں پلوں کے نیچے سے کتنا ہی پانی بہہ چکا تھا۔اب ملک توڑنے کا الزام بھی تھا۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کی حقیقت بھی کھل چکی تھی۔ معرج محمد خان سمیت ترقی پسندوں کی بڑی تعداد بھی برگشتہ ہوچکی تھی۔ تیسری نیشنلائزیشن نے (جس میں ایک ایک‘ دو‘دو کمروں میں لگی ہوئی آٹا پیسنے کی چکیاں اور دھان چھڑنے والی مشینیں بھی قومی تحویل میں لے لی گئیں) درمیانے اور چھوٹے درجے کے تاجروں اور کاروباری لوگوں کو بھی خوف زدہ کردیا تھا۔بلوچستان اور سرحدمیں بھی جذبات بے قابو ہوئے جارہے تھے‘ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے لیے بھی اپنا وجود قائم رکھنے کا چیلنج پیدا ہوچکا تھا‘ وکلا اور طلبہ بھی آتش بداماں تھے۔ اور اہم ترین بات یہ کہ بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کے تمام مخالف‘ پی این اے کے پلیٹ فارم پر یک جا ہوگئے تھے(1970 میں جن کے انتشار نے بھٹو صاحب کو بہت فائدہ پہنچایا تھا) تو اب بھٹو صاحب آسانی سے سادہ اکثریت کس طرح لے جاتے؟
بھٹو صاحب کے مداح ان کا شمار اس عہد کے ذہین ترین رہنمائوں میں کرتے ہیں۔ وہ وسیع المطالعہ تھے‘ مغرب کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے‘ دیوار کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے‘ خود اعتمادی بھی بلا کی تھی‘ مگر حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی بھی ‘ غلط فیصلوں کا باعث بن جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ اپوزیشن نیم جان ہے‘ جبر وتشدد کے مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں نے اس کے اعصاب توڑ دیئے ہیں۔ یہ بکھری ہوئی بھی ہے۔ادھر گلی گلی محلے محلے پیپلز گارڈ ہیں‘ فیڈرل سکیورٹی فورس بھی ہے‘ بیوروکریسی اور پولیس ‘ میں بھی کسی میں سرتابی کی ہمت نہیں‘ پولیس کے (سابق )انسپکٹر جنرل رائو رشید اب انٹیلی جنس بیوروکے سربراہ تھے‘ ان کی رپورٹس بھی یہی بتا رہی تھیں کہ نئے انتخابات کے لیے وقت نہایت ساز گار ہے۔ چنانچہ انہوں نے7جنوری1977کو نئے انتخابات کا اعلان کردیا‘ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے7مارچ اور صوبائی انتخابات کے لیے10مارچ کی تاریخ طے پائی۔ یہیں سے حالات ایک نیا رخ اختیار کر گئے‘ نیم جان اور منقسم اپوزیشن‘ انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان قومی اتحاد وجود میں آگیا۔ معاشرے میں بھٹو سے ناراض تمام طبقات بھی اس کی پشت پر آن کھڑے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کے لیے یہ سخت حیرت اور صدمے کی بات تھی۔
بھٹو صاحب کے آبائی حلقے لاڑکانہ میں جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی قومی اتحاد کے امیدوار تھے۔ انہیں کاغذات نامزدگی ہی داخل نہ کرنے دیئے گئے‘ خالد احمد خاں کھرل (بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں وفاقی وزیر اطلاعات )لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ عباسی صاحب کے اغوا کا” کارنامہ‘‘ انہی کے ہاتھوں انجام پایا۔شامی صاحب کے ہفت روزے کے سرورق پر دوتصاویر تھیں اور نیچے کیپشن تھے: بھٹو صاحب بلا مقابلہ جیت گئے۔ عباسی صاحب بلا مقابلہ ہار گئے… چاروں وزراء اعلیٰ بھی بلا مقابلہ جیت گئے‘ سندھ میں ممتاز بھٹو اور یوسف چانڈیو اور پنجاب کے سینئر وزیر رانا شوکت محمود بھی بلا مقابلہ والے خوش نصیبوں میں شامل تھے۔ الیکشن کا عمل اپنے آغاز ہی میں داغدار ہوگیا تھا۔ اپوزیشن کی انتخابی مہم نے ملک بھر میں طوفان اٹھا دیا۔ایئر مارشل اصغر خاں‘ بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کر رہے تھے۔ کراچی میں ان کا جلوس 9گھنٹے میں جلسہ گاہ پہنچا۔ لاہور بھی ماضی کے سارے قرض چکانے پر تُل گیا تھا اور پھر سات مارچ کو جو کچھ ہوا‘ صرف ایک تصویر یہ ساری کہانی بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن پر‘ ملک اختر کے ایک ہاتھ میں سٹین گن اور دوسرے میں بیلٹ بکس تھا‘ ایک غیر ملکی اخبار میں اس تصویر کے نیچے سوالیہ نشان کے ساتھ کیپشن تھا:The Law minister?