بیمار ہونے کے کئی ماہ بعد بھی تھکاوٹ اور سانس پھولنے کی شکایت، آخر ایسا کیوں؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے چار ماہ گزرنے کے بعد ڈاکٹر اب بھی بعض چیزیں سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو ایک بات پر حیرت ہے کہ کچھ مریضوں میں کووڈ 19 کی علامات اتنی دیر تک موجود کیسے رہتی ہیں۔
بریڈبورڈ رائل انفرمری (بی آر آئی) کے ڈاکٹر جان رائٹ نے ان دو خواتین سے بات کی ہے جو اس مرض میں مبتلا ہونے کے کئی ہفتوں بعد بھی تھکاوٹ اور سانس پھولنے جیسی علامات کا شکار ہیں۔
ہمسایہ ہسپتال کی ڈاکٹر امیرہ والی بھی ان افراد میں سے ہیں جو اگر ایک مرتبہ سیڑھیاں چڑھتی ہیں تو ان کی سانس پھولنے لگتی ہے۔
بی آر آئی میں فزیو تھیراپسٹ مولی ویلمز ہمیشہ سے ایک صحتمند ایتھلیٹ رہی ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے ‘سانس پھولنا ایک عام حالت بن گئی ہے۔’
اس کے علاوہ وہ کئی طرح کے جذبات محسوس کر رہی ہیں۔ اور انھیں یادداشت کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ دونوں خواتین تقریباً تین ماہ قبل بیمار ہوئی تھیں۔
لیکن مارچ تک ہم اس وائرس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ یہ صرف نظام تنفس کی بیماری ہے۔ لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ بیماری جسم کے تقریباً تمام عضو کو متاثر کرتی ہے۔
ہمیں لگتا تھا کہ سرجری کے ذریعے جسم میں وینٹی لیٹر کا استعمال اور آئی سو یو (انتہائی نگہداشت کے وارڈ) سے کام چل جائے گا۔ لیکن بعد میں میڈیکل وارڈز میں سی پی اے پی (یعنی جسم میں بغیر سرجری کے وینٹی لیٹر کا استعمال) زیادہ کارآمد ثابت ہوا۔
ہم نے سوچا تھا کہ جب ہم مریضوں کو صحتیابی کے بعد مبارکباد پیش کریں گے تو یہ آخری بار ہوگا کہ ہم ایسے خطرناک وائرس کے متاثرین سے مل رہے ہوں گے۔
چار ماہ بعد یہ دشمن اب ایک پرانا دشمن بن گیا ہے۔ اور بعض اوقات یہ ہمارا واحد دشمن معلوم ہوتا ہے۔
ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بیماری مریضوں میں طویل مدتی اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ خواہ وہ ہسپتال میں زیر علاج رہے ہوں یا گھر پر صحتیاب ہوچکے ہوں۔ ان افراد میں بیماری کی علامات کافی دیر تک رہتی ہیں یا دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں۔
ایسے متاثرین جو کئی ماہ قبل بیمار ہوئے تھے وہ آج بھی زندگی معمول کے مطابق گزارنے سے قاصر ہیں۔
ڈاکٹر امیرہ اور ڈاکٹر پال
ہمیں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سارس (کورونا وائرس کی فیملی کا ایک اور مرض جس نے 2003 میں وبائی شکل اختیار کر لی تھی) کے آدھے متاثرین میں لبمے عرصے تک علامات اور سخت تھکاوٹ موجود رہی۔
تو اس کا مطلب ہے کہ سارس کوو 2 کے متاثرین کی بھی ایسی حالت ہوسکتی ہے۔
مریضوں اور ان کے ڈاکٹروں کی جانب سے ہمیں موصول ہونے والی ای میلز میں بڑا اضافہ ہوا ہے جو ہم سے مدد مانگ رہے ہیں۔
بعض افراد سینے میں درد اور سانس پھولنے جیسی علامات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کچھ افراد میں سر درد، یاداشت کھونا اور بینائی میں مسائل جیسی نئی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
کچھ افراد ڈپریشن (ذہنی مرض) اور پریشانی کا شکار ہیں۔ اکثر سخت تھکاوٹ سے متاثر ہیں۔ یہ تمام افراد اپنی پرانی زندگی واپس چاہتے ہیں۔ انھوں نے شروع میں کووڈ سے ابتدائی صحتیابی پر خوشی منائی۔ لیکن اب وہ ناامید ہو رہے ہیں اور اپنی صحتیابی پر شک کرنے لگے ہیں۔
پہلے ہفتے ہیں ڈاکٹر امیرہ میں علامات کافی کم تھیں۔ جیسے سر درد، گلے میں خراش اور شاید ہلکا بخار۔ ہفتے کے آخر تک انھیں لگا کہ وہ اس سے باہر نکل آئیں گی۔ لیکن ان کی سانس پھولنے لگی اور یہ کیفیت اب تک موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ: ‘مجھے عام طور پر سیڑھیوں جیسی چیزوں میں مشکل پیش آتی ہے۔ سیڑھیاں چڑھنے پر میرے دل کی دھڑکن 140 تک چلا جاتی ہے۔ گذشتہ ہفتے میرے دن کافی بُرے چل رہے تھے۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں سو نہیں پا رہی کیونکہ میری سانس بہت پھول رہی تھی۔ اور ظاہر ہے تب سے میں کافی تھکاوٹ کا شکار ہوں۔’
امیرہ کا کہنا ہے کہ وہ اب مزید پریشانی کے عالم میں ہیں۔ ان کے سینے کا ایکسرے ٹھیک ہے۔ اور بظاہر اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم اسے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فزیو تھیراپسٹ مولی ولیمز نے کورونا وائرس کے وارڈ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا۔ امیرہ کی طرح انھیں بھی وائرس ممکنہ طور پر کام کے دوران لگا جب وہ ہسپتال میں تھیں۔
وہ جوانی کے دنوں سے جِمناسٹ رہیں اور اپنی فٹنس کے حوالے سے کافی خیال رکھنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ 34 سال کی عمر تک وہ برطانیہ میں کراس فٹ نامی کلب کی 20 بہترین ایتھلیٹس میں سے ایک بن گئی تھیں۔ لیکن انھیں بھی سانس پھولنے کی شکایت ہے۔
‘میرے دل کی دھڑکن پہلے 50 پر ہوا کرتی تھی۔ اب یہ 90 پر ہے۔۔۔ بولنے کے دوران بھی میری سانس پھولنے لگتی ہے۔ میری ٹانگوں کے پھٹوں میں تھکاوٹ ہے۔ چلنے پھرنے کے دوران میرے دل کی دھڑکن 133 تک پہنچ جاتی ہے۔’
مولی کا کہنا ہے کہ وہ کافی آبدیدہ بھی ہوجاتی ہیں اور چیزوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونے لگی ہیں۔ انھیں اپنی یاداشت کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
‘میں چیزیں بھولنے لگی ہوں۔ اور کئی چیزیں دہرانے لگتی ہوں۔ میں معلومات کو محفوظ نہیں رکھ پاتی۔ میں ایک لفظ یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور ناکام رہتی ہوں۔ مجھے ہر وقت باتیں لکھنی پڑتی ہیں تاکہ انھیں یاد رکھ سکوں۔’
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوئی میڈیکل ہسٹری نہیں اور ان کا اس طرح بیمار ہونا بہت مشکل ہے۔
ہمیں تاحال یہ معلوم نہیں کہ ان متاثرین میں طویل عرصے تک علامات کیوں موجود ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ وائرس ان کے جسم میں کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہے اور طویل مدتی علامات اس کا نتیجہ بن رہی ہیں۔ جیسے ہم نے ایبولا سے صحتیاب افراد میں دیکھا۔
بعض لوگوں میں کئی ہفتوں تک متاثر رہنے کے بعد بھی ٹیسٹ مثبت آئے۔ یہ ممکن ہے کہ کئی طرح کے ذروں کی موجودگی سے ٹیسٹ کے نتائج متاثر ہوں۔
یہ ممکن ہے کہ جسم میں مدافعتی عمل اب بھی جاری ہے جس کا مطلب ہے علامات طویل عرصے تک چل رہی ہیں۔
عام انفیکشن کے مقابلے قوت مدافعت کا ردعمل کافی دیر تک جاری ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں اور دوسرے عضو کو بھی بیماری کے دوران نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ڈاکٹر اور محقق ہوتے ہوئے ہمارا کام ان طویل مدتی اثرات کی کھوج لگانا ہے اور مریضوں کے لیے علاج کا تعین کرنا ہے۔ اور ان لوگوں میں سخت تھکاوٹ کو دور کرنا ہے۔
یہ تحقیق کا نظر انداز کردہ شعبہ ہے کیونکہ اس میں جواب تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن کووڈ 19 سائنس اور دریافت کے لیے اہم موقع بنا ہے۔ اور طویل مدتی علامات والے صحتیاب افراد پر تحقیق سے معلومات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ہسپتال میں میرے ساتھی ڈاکٹر پال وٹواکر نے بتایا ہے کہ کووڈ 19 کے صحتیاب متاثرہ افراد کے پہلے کلینک کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ابتدائی منصوبے میں مریضوں کو صحتیابی اور ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 12 ہفتوں بعد چیک اپ کے لیے بلانے کی تجویز ہے۔ لیکن یہ واضح ہوگیا ہے کہ کچھ لوگوں کو صحتیابی کے بعد بھی ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑسکتا ہے۔ جبکہ ان میں سے کچھ اگر ہسپتال داخل نہ کیے جائیں تو وہ بیمار رہتے ہیں، جیسے امیرہ اور مولی۔ تو اب ڈاکٹروں کی طرف سے بھی تجاویز کو منظور کیا جاتا ہے۔
کلینک آمد پر لوگوں کے سینے کا ایکس رے کیا جاتا ہے، پھیپھڑوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور چلنے پھلنے کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ایک سوال نامہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر ان کی علامات بہتر نہیں تو ان کا ایکو کارڈیو گرام، سی ٹی سکین اور پھیپھڑوں کے مکمل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
پال وِٹواکر کا کہنا ہے کہ ‘میرے خیال میں کچھ لوگ کووڈ 19 سے صحتیابی کے باوجود معمول کے مطابق زندگی نہیں گزار پا رہے۔ ہر ہفتے مجھے ان کے ڈاکٹروں کی جانب سے تین یا چار فون کالز آرہی ہیں۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ انھیں دو ماہ قبل کووڈ 19 ہوا تھا لیکن ان میں اب بھی علامات موجود ہیں۔’
‘کلینک میں ہمارے پاس خوراک کے ماہر، فزیو تھیراپسٹ اور ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں۔۔۔ لیکن لوگوں میں پی ٹی ایس ڈی (صدمہ)، پریشانی، ڈپریشن اور نیورولاجیکل علامات ہیں اور سخت تھکاوٹ جیسی شکایات ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ایسے افراد کی مدد کے لیے طریقہ کار کا تعین کیا جا رہا ہے جن سے بہتری کے شواہد ملے ہیں۔
ماہرِ ذہنی امراض راب وٹ ٹیکر کہتے ہیں کہ کووڈ 19 کے صحتیاب افراد میں سوچنے سمجھنے کی مشکلات اور پریشانی کی علامات ملی ہیں۔ اور یاداشت برقرار نہ رہنے جیسے بھی مسائل پائے جاتے ہیں۔
‘لیکن فی الحال پریشانی اور جذباتی کیفیت کا علاج کافی مشکل ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کا علاج کیسے کیا جائے۔’
فرنٹ لائن ڈائری
وبائی امراض کے ماہر اور ڈاکٹر پروفیسر جان رائٹ بریڈفورڈ انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے سربراہ ہیں اور وہ جنوبی افریقی ممالک میں ہیضے، ایچ آئی وی اور ایبولا جیسے وبائی مرض کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ بی بی سی نیوز کے لیے یہ ڈائری لکھ رہے ہیں اور بی بی سی ریڈیو کے لیے اسے اپنے ہسپتال کے وارڈوں سے ریکارڈ کرا رہے ہیں۔