احتجاج کے نام پر آزادی اظہار کا حق تمام طبقات کو حاصل مگر معاشرے سے پرتشدد شدت پسندی کو کچلنا ہوگا۔ بدھ کو لاہور میں وکلا کے جتھے نے جو کچھ کیا وہ محض غنڈہ گردی نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ کالے کوٹوں میں ملبوس یہ دہشت گرد اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہیں۔ وکلا اپنے آپ کو قانون دان اور قانون کا محافظ کہتے ہیں لیکن ان کا یہ عمل قانون شکنوں والا ہے۔ ایک اور شرمناک پہلو یہ ہے کہ امراضِ قلب کے ہسپتال پی آئی سی پر حملے میں خواتین وکلاء بھی شامل تھیں۔ خواتین بھی اتنی سفاک ہو سکتی ہیں کہ دل کے مرض میں مبتلا مریضوں پر حملے کی قیادت کریں۔وہ خواتین وکلاہی تھیں جنہوں نے ہسپتال کے بند دروازے پر چڑھ کر اسے کھولنے کی کوشش کی۔ ویسے توحملہ آور تمام وکیلوں کو گرفتار کر لینا چاہیے جن کی شکلیں ہر چینل پر دکھائی گئیں تا ہم صرف24 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تمام حملہ آوروں کی شناخت آسان ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب کے لائسنس معطل نہیں منسوخ کر دیے جائیں خواہ کچھ بھی ہو۔ لیکن ان وکلاء کی غنڈہ گردی اتنی منظم ہے کہ شاید ان کا کچھ نہ بگڑے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا لیکن قانون کئی بار راستہ بھٹک چکا ہے۔ ان کالے کوٹ والوں کا یہ کارنامہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی بار اپنی وحشیانہ طاقت اور جتھ بندی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ عدالتوں میں ججوں پر حملے یا ان کو کمرے میں بند کرنے سمیت متعدد وارداتیں ان نام نہاد وکلا سے منسوب ہیں اور ان کے خلاف مقدمات درج ہیں لیکن کسی عدالت میں بھی یہ ہمت نہیں کہ مجرموں کو سزا دلوا سکے۔ اس سے ان کے حوصلے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان وکلاء کی اسناد اور ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ جگہ جگہ کھلے ہوئے لا کالجوں سے اسناد حاصل کر کے کالا کوٹ پہن لیا جاتا ہے اور ڈگریاں کس طرح بٹتی ہیں یہ کوئی راز نہیں۔ ایسے وکلاء کا علم ان کے عمل سے واضح ہے۔ امراضِ قلب کے ہسپتال پر حملہ کر کے بری طرح توڑ پھوڑ مچانے والوں کے پاس اس دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں تھا گو کہ ان بدمعاشوں کے وکلا ڈاکٹروں پر الزام ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ڈنڈے لیے بیٹھے تھے یا انہوں نے بھی پتھراؤ کیا۔ وکلا نے ایک دن پہلے اپنے عزائم کی پریس ریلیز جاری کی تھی جس پر ڈاکٹروں کا احتیاطی اقدام قابل فہم ہے۔ انہوں نے بار بار15 پر پولیس کا اطلاع دی مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ غنڈہ عناصر 5 میل پیدل چل کر اسپتال تک پہنچے اور راستے بھر نعرے لگاتے رہے کہ آج ڈاکٹروں کا آپریشن کریں گے، ان کے اسٹنٹ ڈالا جائے گا۔ اس کے باوجود پنجاب پولیس نے انہیں کہیں بھی نہیں روکا۔ عثمان بزدار وزیر داخلہ بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ پوری پولیس ان کے ماتحت ہے۔ جب تادیر حملے جاری رہے تب پولیس حرکت میں آئی۔ ڈاکٹروں نے دل کے مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے مناظر محفوظ ہو گئے ہیں۔ جن مریضوں کے ماسک لگا ہوا تھا اور انہیں آکسیجن فراہم کی جا رہی تھی ان شقی القلب حملہ آوروں نے ان کے ماسک بھی اتار پھینکے۔ مریض اپنی جان بچاتے پھرے اور6 افراد کی موت واقع ہو گئی۔ اس موقع پر تو قانون نے اپنا راستہ نہیں بنایا اور اب دیکھتے ہیں کہ کتنے کالے کوٹ والوں کو سزا ہو گی۔ انہوں نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے، ایسے لوگوں کے لائسنس تو منسوخ کیے جائیں۔ ڈاکٹروں پر ایک الزام ہے کہ انہوں نے ایک ایسی وڈیو جاری کی جس میں وکلا کا مذاق اڑایا گیا۔ اس پر ڈاکٹروں نے معذرت بھی کر لی تھی اور صلاح، صفائی ہو گئی تھی لیکن اس وڈیو میں ایسا کچھ نہیں جس پر امراضِ قلب کے ہسپتال پر حملہ کیا جاتا اور قیمتی مشینیں بھی برباد کر دی جاتیں۔ پنجاب کے بڑ بولے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ہیرو بننے کے لیے بیچ میں کود پڑے جن کی پٹائی ہوئی اور بقول ان کے انہیں اغوا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ حسب توقع انہوں نے وکلاء کی غنڈہ گردی کا الزام بھی ن لیگ پر لگا دیا۔ ان سے یہی امید تھی کہ گزشتہ 16 ماہ سے پی ٹی آئی ہر الزام اپوزیشن پر لگاتی آرہی ہے۔ حملہ آوروں میں وزیراعظم عمران خان کا بھانجا بھی شامل تھا۔اب انتظار اس بات کا ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف عدلیہ اور حکومت کیا کارروائی کرتی ہے۔ کیایہ وحشی معاشرے میں کھلے پھریں گے؟ پہلے بھی ہنگامے، تشدد اور قتل و غارت ہوتی رہی لیکن وکلا جیسی پڑھی لکھی کمیونٹی کی طرف سے بدھ کے روز پورے صوبے کے غریب عوام کیلئے امید کی بڑی کرن پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گھس کر توڑ پھوڑ اور غیر انسانی سلوک کی معاشرے کے ہر طبقے نے مذمت کی ہے۔ وکلا نے جو کیا، وہ حالت جنگ میں بھی نہیں ہوتا لیکن اس کیساتھ ساتھ پنجاب کی انتظامیہ بھی معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی۔ اس دوران مریضوں کو جس کیفیت سے گزرنا پڑا اور ملک بھر کے لوگ جس کرب سے دوچار ہوئے اس کا تقاضا ہے کہ کمیٹیوں کی تشکیل اور نوٹس لینے کے اعلانات سے آگے بڑھ کر وہ کچھ کیا جائے جو انسانی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی دیواروں کو سنبھالا دینے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔