ہمارے ایک بزرگ دوست تھے، اب بھی حیات ہیں، بڑی مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ خوش قسمتی یا بد قسمتی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ آپ کے اچھے /برے فیصلے ہوتے ہیں جن کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اگر فیصلے دانشمندی کی بنیاد پر کرو گے تو نتائج خوشگوار نکلیں گے اور اگر فیصلے حماقت پر مبنی ہوں گے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔کوئی بھی شخص زندگی میں کسی ایک فیصلے کی وجہ سے کامیاب یا نامراد نہیں ہوتا، یہ فیصلوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو کسی کو ظفر مند اور کسی کوناکامران بناتا ہے۔ کامیاب لوگ بھی زندگی میں غلط فیصلے کرتے ہیں اور ناکام لوگ بھی کوئی نہ کوئی درست فیصلہ کرتے ہیں، مگر کسی بھی شخص کی ناکامی یا کامیابی ایک فیصلے پر نہیں ٹکی ہوتی!میں اِن بزرگوار کی باتوں سے اتفاق تو کرتا ہوں مگر بہرحال مقدر کا بھی قائل ہوں۔ انسانوں کی طرح قوموں کے پاس بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ درست فیصلے کریں یا پھر جذباتیت کی رو میں بہہ کر حماقت آمیز فیصلوں کا انبار لگاتی رہیں۔ہمارے جیسے ملکوں میں تو خیرعوا م کا اختیار زیادہ تر سلب ہی کیا جاتارہا ہے، لیکن بہرحال جو بھی اختیار عوام کے نام پر آج تک استعمال کیا گیا ہے اُس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔
1958میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا، کامل گیارہ برس تک عالی مرتبت ایوب خان اِس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہےمگر رخصت ہوتے وقت آنجناب ملک توڑنے کی بنیاد رکھ گئے۔آج اگر کسی بین الاقوامی آڈٹ فرم کو کہا جائے کہ وہ اِن گیارہ برسوں میں ملک کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ ڈالروں کی شکل میں لگائے تو آپ کے خیال میں یہ رقم کتنے ارب ڈالر بنے گی ؟اسی سوال کو دوسرے انداز میں ڈھال کر دیکھتے ہیں۔ اگر آج کی تاریخ میں پوچھا جائے کہ آپ ایوب خان یا فاطمہ جناح میں سے کس کو ووٹ دیں گے یا کیا آپ ایوب خان کی اُن اقتصادی پالیسیوں کی حمایت کریں گے جو بعد ازاں ملک ٹوٹنے کا باعث بنیں، تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟ یہ فیصلہ یا انتخاب ہی ملک کی خوش قسمتی یا بد بختی کا تعین کرے گا۔اسی طرح تاریخ کا پہیہ گھما کر اگرآج پوچھا جائے کہ کیا ہم شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات مان کر اسے وفاق پاکستان میں شامل رکھنے پر ترجیح دیں گے یا مشرقی پاکستان پر چڑھائی کرنے کی راہ منتخب کرکے ملک تڑوا بیٹھیں گے تو ہمارا جواب واضح ہوگاکہ آج ہم شیخ مجیب کےچھ نکات مان کر ملک بچا لیں گے۔اسی سوال کو دوسرے انداز میں دیکھتے ہیں۔ اگر جنرل یحییٰ خان کے مختصر دور کا تجزیہ سود و زیاں کیا جائے تو اُن فیصلوں کا ہرجانہ کتنے ارب ڈالر ہوگا جو اُس مرد آہن نے1969سے 1971درمیان کیے، نیز کیا بڑے سے بڑا جرمانہ بھی ملک توڑنے کے جرم کی تلافی کر سکتا ہے ؟دس روز پہلے 5جولائی گزرا۔تیسرے مارشل لا کی سالگرہ۔اِس مرد زرہ پوش نے بھی حسب روایت قوم کی تقدیر کے فیصلے کیے۔ لکھ لکھ کرقلم گھس چکا ہے سو دہرانے کا فائدہ نہیں۔ آج اگر عوام سے پوچھا جائے کہ وہی جنرل ضیا الحق ایک مرتبہ پھر ملک میں نظامِ مصطفیٰ نافذ کرنا چاہتے ہیں، ویسے ہی ایک مقبول لیڈر کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں،اسی طرح ہمسایہ ملک میں جہاد کیلیے نوجوان نسل کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں،فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیںاور ملک کی سب سے پاپولر جماعت کے کارکنوں کو کوڑے لگاکر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو کیا آج کوئی با شعور شخص ان کی حمایت کرے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ چونکہ جمہوریت پسند اور بالغ نظر ہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہوگامگر یہ جواب آج کی تاریخ میں دینا آسان ہے، 1977سے 1988تک جب یہ تمام فیصلے کیے جا رہے تھے اُس وقت قوم کے ایک بڑے طبقے کو اِس کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ملک کے ایک بڑے طبقے کے دیدے پٹم ہیںاور انہیں اپنے بارے میں یقین ہے کہ وہ ملک سے محبت کا تقاضا نبھاتے ہوئے کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ فرض کریں کہ دنیا میں ایسی عالمی عدالت انصاف وجود میں آ جائے جہاں کسی بھی ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کے دور حکومت کی پڑتال کر وا سکتے ہوں تو ایسی صورت میں 1977سے 1988کے دور کی پڑتال کا کیا نتیجہ نکلے گا اور ایسی عدالت ضیا الحق کو ملک و قوم کا نقصان پہنچانے پر کتنے ارب ڈالر کا جرمانہ کرے گی، ہے کوئی کیلکولیٹر جو اِس کا حسا ب نکال سکے؟ ، اب یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ اِن مثالوں میں جمہوری ادوار کیوں گول کر دیے، کیا جمہوری حکمران دودھ کے دُھلے تھے ؟ بالکل نہیں۔ جمہوری حکمران بیچارے جیسے بھی تھے، اُن کا بولو رام تو عوام انتخابات میں ہی کر دیتے ہیں، مسئلہ تو اُن کا ہے جنہیں گھر بھیجنے کا کوئی طریقہ ہی آئین میں درج نہیں۔
آج ہم جہاں کھڑے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں وہاں ایک دن میں نہیں پہنچے، یہ اُن فیصلوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ تہتر برسوں میں ہمارے حکمرانوں نے کیے،عوام نے جن کی مزاحمت نہیں کی اور غلط راستوں کا انتخاب کرکے خود کو منزل سے دورکر لیا۔ کوئی بھی قوم منحوس یا خوش بخت نہیں ہوتی،قوموں کے فیصلے انہیں ترقی یا تنزلی کی راہ پر ڈالتے ہیں۔ جس طرح ایک انسان عقل و دانش کی بنیاد پر درست فیصلوں کے تسلسل کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش قسمتی لا سکتا ہے بالکل اسی طرح قومیں بھی اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر اپنا مقدر بدل سکتی ہیں۔ یہ اجتماعی دانش جمہوریت سے ہی کشید کی جا سکتی ہے، کوئی دوسرا طریقہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا، آج اگر اِس اجتماعی دانش پر ڈاکہ ڈالا جاتاہے تو اِس سے بڑی کرپشن کوئی نہیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کرپشن کی یہ قسم گوارا کرنی ہے یا اپنے مقدر کو کوستے رہنا ہے!