نالائقی اپنی جگہ اور کئی اعتبار سے پی ٹی آئی کی حکومت کچھ زیادہ ہی نالائق ثابت ہوئی ہے، لیکن ایک بات ماننی چاہیے کہ جس طرح سے نواز شریف وغیرہ نے اس ملک کے ساتھ عیاشی کی عمران خان پہ یہ الزام نہیں لگ سکتا۔ ذاتی جاگیر کا بھی انسان کچھ خیال رکھتا ہے لیکن گزرے ہوئے حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ وہ کیا جو باہر کی کوئی فاتح فوج ہی کر سکتی تھی۔
عمران خان کے خلاف بولنا ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ کالموں میں یا ٹیلی وژن پہ اُن کے لَتے لیے جاتے ہیں۔ اس سے تقریباً یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے نالائق حکومت ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو جو لوٹ مار پچھلی حکومتوں نے کی عمران خان اور اُن کی حکومت ایسے نہیں کر رہے۔ ہر ہفتے یا دوسرے ہفتے عمران خان تو لندن کیلئے روانہ نہیں ہوتے۔ طرح طرح کے بہانے گھڑ کے نواز شریف غیرملکی دوروں پہ جاتے تھے اور کوشش ہوتی کہ جانا جہاں بھی ہو براستہ لندن ہو تاکہ اپنے عالیشان فلیٹوں میں کچھ دیر قیام ہو سکے۔ پی آئی اے کے پورے کے پورے جہاز اُن کی خدمت پہ مامور ہوتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہواکہ لندن میں کچھ روز علاج کی غرض سے قیام ہوا اورایک پی آئی اے بوئنگ واپسی اڑان کیلئے پاکستان سے منگوایا گیا یعنی خالی جہاز پاکستان سے روانہ ہوا۔ عمران خان کے کھاتے میں ایسی کوئی چیزنہیں۔ اول تو اُن کے غیرملکی دورے محدود رہے ہیں۔ کہیں جانا بھی پڑا تو اُس دیدہ دلیری سے کام نہیں لیا گیا جو جنابِ نوازشریف کا خاصا تھا۔
ملکی وسائل کے بل بوتے پہ عیاشی صرف نوازشریف کی ذات تک محدود نہیں تھی۔ پورے کا پورا خاندان انہی روشوں کا مرتکب تھا۔ جاتی امرا کے گرد ایک بٹالین سے زیادہ نفری حفاظت کے نام پہ مامور تھی۔ بٹالین کی تعداد آٹھ نو سو ہوتی ہے۔ جاتی امرا کے گرد 1500-1400 ملازمین تعینات تھے۔ جاتی امرا کے گرد ایک حفاظتی بم پروف دیوار کھڑی کی گئی اور اس کا کروڑوں کا خرچہ سرکاری خزانے سے ہوا۔ ہنرمند اتنے تھے کہ پولیس سے کہاگیا کہ وہ استدعا کرے کہ ایسی دیوار وزیراعظم کی حفاظت کیلئے ضروری ہے۔ پنجاب کا آئی جی اپنا آدمی تھا۔ اس نے ایساہی خط لکھا اوراس پر پھر سرکاری خرچے پہ عملدرآمد ہوا۔
عثمان بزدار ایک دفتر سے کام چلا رہے ہیں۔ شہباز شریف کے کتنے دفتر تھے اوراُن پہ کتنا خرچہ آتاتھا؟ اُن کی سکیورٹی کی مدمیں کتنے ہی ملازمین تعینات تھے۔ بیگمات کی الگ سکیورٹی۔ ولی عہدِ پنجاب حمزہ شہباز کے اپنے نخرے۔ سلمان اُن کا بھائی کاروبار میں لگا ہوا۔ جہاں ہاتھ لگے پیسوں کی برسات شروع ہوجائے۔ مریم نواز نے اسلام آباد میں ایک اپنا الگ سیکرٹریٹ قائم کیاہوا تھا۔ یہ ان کا میڈیا سیل تھا‘ جس کاکام تھا پروپیگنڈے کی ایک نہ ختم ہونے والی مہم کو چلانا۔ مریم عملاً نائب وزیراعظم تھیں۔
نواز شریف حکومت کا بیڑہ غرق انہی چالاکیوں سے ہوا۔ یہ راز اب تک پوری طرح افشا نہیں ہوا کہ ڈان لیکس والا مسئلہ کیسے رونما ہوا۔ ایک اعلیٰ درجے کی میٹنگ میں انٹیلی جنس ایجنسی کے تب کے سربراہ سے کڑے سوال پوچھے جاتے ہیں اوران کے محکمے کی کارکردگی پہ سخت تنقید ہوتی ہے۔ سربراہ سب تنقید پی جاتے ہیں اور آگے سے کچھ نہیں کہتے‘ لیکن نوازشریف اور اُن کے حواری اس پہ بھی راضی نہیں ہوتے۔ تنقید تو ہوگئی لیکن کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس کیلئے ضروری سمجھا گیا کہ سرِ بازار ڈھول پیٹا جائے۔ ڈان لیکس کا مقصد یہی تھا کہ صحیح طور پہ رسوائی کا اہتمام ہو۔ صحافی‘ جس نے خبر چھاپی‘ کو باقاعدہ بلایا گیا اور اُسے تفصیلات فراہم کی گئیں۔ ایسا کس ملک میں ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہو اورحکومت ہی اندرکی کہانی سے پردہ اٹھائے۔
آخر میں یہ حرکت نوازشریف اور اُن کی حکومت کو مہنگی پڑی۔ غصے کی لہر پورے ادارے میں اُبھری کہ یہ کیا طریقہ ہے حالات کو چلانے کا۔ مریم نواز پہ کوئی آنچ نہ آئی اوروہ بخشی گئیں‘ لیکن ڈان لیکس کی وجہ سے جو کدورت دلوں میں پیدا ہوئی اُس کا اثر بہت دیر تک رہا۔
پبلک حافظہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ نئی حکومت آئی ہے اوراگر پرانی چیزیں مکمل طورپہ بھولی نہیں جا چکیں تو اتنی شدت سے انہیں یاد بھی نہیں کیا جا رہا۔ لیکن یہ سب کل کی باتیں ہیں۔ نوازشریف تین بار اعلیٰ اقتدار میں آئے اور تینوں بار اُسے سنبھال نہ سکے۔ کوئی نہ کوئی وجہ بنتی کہ دیگر اداروں سے لڑائی مول لے لیتے جو آخر میں ان کے لئے بھاری ثابت ہوتی۔ صدر غلام اسحاق خان اُن کے محسن تھے لیکن اُن سے لڑائی مول لی۔ کسی خاص بات پہ بھی نہیں، بس فضول انا کی جنگ۔ دوسرے دورِ اقتدارمیں جنرل جہانگیر کرامت کی چھٹی کرا دی‘ اور چھوٹی سی وجہ کی بنا پہ۔ جنرل جہانگیر کرامت سے زیادہ شریف اور نفیس آرمی چیف ہونہیں سکتا تھا۔ نوازشریف میں عقل ہوتی تو جنرل کرامت کو زبردستی توسیع دیتے تاکہ ایسا شریف آدمی اُن کے دورِ اقتدار میں ان کے ساتھ رہتا۔ جنرل کرامت کی چھٹی کیا کرائی، نئے آرمی چیف کے طور پہ جنرل پرویزمشرف کا چناؤ ہوا۔ جتنا مہنگا یہ فیصلہ نوازشریف کو پڑا وہ ہم جانتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت پروپیگنڈا کی جنگ ہار چکی ہے۔ یہ تاثر مضبوط ہوتاچلا گیاہے کہ یہ بہت نالائق لوگ ہیں اوران سے کچھ نہیں ہوپارہا۔ اس تاثر میں بہت سچ بھی ہے لیکن کچھ مبالغہ بھی۔ نون لیگیوں کی حکومت ایسی تھی کہ وہ ملک پہ بھاری تھی۔ ایک طرف نوازشریف کی سرکاری خرچے پہ عیاشیاں۔ دوسری طرف شہبازشریف کا تحکمانہ انداز۔ ایک دفعہ تو ہیٹ پہنے اُن کی تصویر قائداعظم کی ہیٹ پہنے تصویر سے نیچے لاہورمال روڈ کے کھمبوں پہ آویزاں ہوئی۔ یعنی اس امتزاج سے یہ تاثر دینا مقصود تھاکہ ایک وہ لیڈر تھا جسے ہم قائد اعظم کہتے ہیں اور دوسرا یہ جس کا خود ساختہ لقب خادم اعلیٰ تھا۔ لاہور کی سپیڈو بسوں کے اوپر شہبازشریف کی تصویر لگی ہوتی جیسے اُنہوں نے شاید اپنی جیب سے عوام کیلئے یہ بسیں خریدی ہوں۔
ہمارا ایک طبقہ ہے صحافیوں کا‘ جو اب بھی شہبازشریف کی حکمرانی کے گن گاتاہے۔ ان اصحاب سے کوئی پوچھے تو سہی کہ شہبازشریف کے کارنامے اصل میں تھے کیا۔ جتنا ان شریفوں نے مل کے پنجاب پہ حکمرانی کی پورے پنجاب کی تاریخ میں کسی اورکو نصیب نہ ہوئی۔ کیا وہ تعلیمی نظام بہتر کرگئے؟ صحت کانظام بہتر ہوگیا؟ زیادہ لوگوں کو پتا نہیں کہ شہبازشریف کی حکمرانی میں پولیس کے افسروں نے دومرتبہ تقریباً بغاوت کر دی تھی۔ سنٹرل پولیس آفس میں ضلع بھر کے افسران جمع ہوئے اورماحول وہاں ایک سیاسی میٹنگ کاتھا۔ کسی مجوزہ اقدام کے خلاف یہ احتجاج تھا اوراس لحاظ سے شہباز شریف بڑے عقلمند نکلے کہ دونوں مرتبہ ان بغاوتوں کو مکمل طورپہ پی گئے۔ جیسے کبھی کچھ ایسا ہواہی نہیں۔
صوبے کے وسائل فضول سکیموں پہ برباد ہوئے۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم شروع ہو ئی اورجلد ہی وہ ٹھپ ہوگئی۔ میٹرو بسوں پہ صوبے کے وسائل برباد ہوئے اور آخر میں یہ فضول ترین پراجیکٹ‘ جسے اورنج لائن ٹرین کہتے ہیں ۔ لیکن آج فیشن کیا بن چکا ہے؟ منہ کھولنا ہے تو اس حکومت کے خلاف۔ عثمان بزدار کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ کیا نرالا انتخاب ہے وزیراعظم کا۔ ایسی گفتگو سے یہ تاثرابھرتا ہے کہ شہبازشریف بڑے کمال کے چیف منسٹرتھے۔ جو شوشے تب روا تھے صحیح معنوں میں ان سے تو عثمان بزدار ہی بہترہیں۔
نالائقی پاکستان کی مستقل حالت ہے لیکن ایک فرق ہے‘ پہلے والے اپنی نالائقی کے ساتھ ساتھ جنگجو بھی تھے۔ لہٰذا جہاں ملک کی قسمت پہ بھاری رہے اپنا بیڑہ بھی غرق کرتے رہے۔ موجودہ لوگ نالائق ضرور ہیں لیکن اِن میں وہ جنگجویانہ روشیں موجود نہیں۔ اسی لیے جہاں بنا کے رکھنی چاہیے وہاں بنا کے رکھی ہوئی ہے۔ یہی اِن کی سب سے اہم ضمانتِ اقتدار ہے۔